Jasarat News:
2025-11-05@02:07:56 GMT

صحابہ کرامؓ کا جذبۂ خدمتِ خلق

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ازواجِ مطہر اتؓ کے علاوہ صحابہ کرامؓ نے غربا پروری اور انسانی خدمت کے مشن کو آگے بڑھایا۔ مالدار صحابہؓ نے غربا پروری میں مثال قائم کی تو عام صحابہؓ نے بھی حسب استطاعت ضرورت مندوں کی اعانت وخدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سیدنا ابوبکرؓ کی پوری زندگی غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور غلاموں کی امداد اور خدمت میں گزری۔ سیدنا عمر فاروقؓ خدمتِ خلق کے معاملے میں کتنے فکر مند اور مستعد تھے اس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے:

ایک مرتبہ سیدنا عمرؓ رات کوگشت لگاتے ہوئے مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر مقام صرار پہنچ گئے۔ وہاں دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکارہی ہے اور اس کے پاس دو تین بچے رورہے ہیں۔ قریب جاکر حقیقت دریافت کی تو اس عورت نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا ہے۔ ان کو بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھادی ہے۔ عمرؓ اسی وقت اٹھے، مدینہ آکر بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اپنے غلام اسلم سے کہا کہ میری پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا کہ میں لے کر چلتا ہوں۔ فرمایا: ہاں، لیکن تم قیامت کے دن میرا بار نہیں اٹھاؤ گے (شبلی نعمانی، الفاروق)۔
خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنیؓ بڑے تاجر تھے اور اپنے مال کا بڑا حصہ غریبوں، یتیموں اور بیواؤں پر خرچ کردیتے تھے۔ یہی اسوہ خلیفۂ چہارم سیدنا علیؓ کا بھی تھا۔رسولؐ کے چچا زاد بھائی سیدنا طیارؓ کے بارے میں سیدنا ابوہریرہؓ فرماتے ہیں:
مسکینوں کے لیے جعفر بن ابی طالب بہترین انسان تھے۔ وہ ہمارے پاس آتے تھے اور ان کے گھر میں جو کچھ ہوتا تھا وہ ہم لوگوں کوکھلاتے تھے (الصحیح البخاری)۔
قرآن پاک نے مسکینوں اور یتیموں کی کفالت اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا جو حکم دیا اور حدیث پاک میں یتیموں کی کفالت کی جو ترغیب دی گئی، اس کی وجہ سے صدر اسلام کا مسلم معاشرہ محتاجوں کے لیے نعمت کدہ اور جنت نشاں بن گیا۔ یتیموں کو ایسے مشفق سرپرست مل گئے کہ ان کو اپنے والد یا والدین سے محرومی کا احساس ختم ہوگیا۔ رسول کریمؐ نے مسلمانوں سے فرمایا: ’’یتیموں کے لیے رحمت کرنے والے باپ بن جاؤ‘‘ (الادب المفرد)۔

آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہو۔ یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں دو انگلیوں کی طرح قریب ہوں گے‘‘ (بخاری)۔
سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں صحیح بخاری میں صراحت سے بیان کیاگیا ہے کہ ’’وہ اس وقت تک کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک کوئی مسکین ان کے کھانے میں شریک نہ ہوجائے‘‘ (الصحیح البخاری)۔
روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ خاص طور پر یتیموں کو اپنے ساتھ کھانا کھلانے کا اہتمام کرتے تھے۔

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کا ایک واقعہ معروف تابعی ابومحذورہ نے اس طرح بیان کیا ہے: ایک مرتبہ میں سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے پاس بیٹھا تھا کہ صفوان بن امیہ کھانے کی ایک دیگ کے ساتھ آئے جسے کچھ لوگ اٹھائے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے وہ دیگ ابن عمرؓ کے سامنے رکھ دی۔ انھوں نے پاس پڑوس کے غربا ومساکین اور لوگوں کے غلاموں کو بلالیا اور ان کے ساتھ مل کر کھانا تناول فرمایا (الادب المفرد)۔
سیدنا عبدان عمرؓ کھانا کھلانے میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز نہیں کرتے تھے بلکہ ہر انسان کی بلاتفریق مذہب وملت خبرگیری کرتے تھے۔ چنانچہ مشہور تابعی مجاہد بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ عبداللہ بن عمرؓ کی خدمت میں حاضر تھا، ان کا غلام بکری ذبح کررہا تھا۔ عبداللہ نے اپنے غلام سے فرمایا کہ جب تم ذبح کرنے سے فارغ ہوجاؤ تو سب سے پہلے بکری کا گوشت ہمارے پڑوسی یہودی کے گھر پہنچاؤ (الادب المفرد)۔

سیدنا کعب بن مالکؓ کہتے ہیں کہ معاذ بن جبلؓ اپنی قوم کے افضل ترین نوجوانوں میں سے تھے۔ جب بھی کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا تو اس کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے۔ خدمت خلق کے لیے انھوں نے اتنے قرضے لیے کہ ان کا سارا مال ختم ہوگیا۔ بالآخر انھوں نے اللہ کے رسولؐ سے درخواست کی کہ قرض داروں سے تھوڑی تخفیف کرادیں، لیکن قرض دار اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے ان کا بچا ہوا مال بیچ کر ان میں تقسیم کردیا اور حضرت معاذ کے پاس کچھ بھی نہیں بچا (صفۃ الصفوۃ)۔
سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ کا معمول تھا کہ جب کوئی مصیبت زدہ ان کے پاس اپنی فریاد لے کر آتا تو وہ ہر طرح سے اس کی مدد فرماتے۔ خدمت خلق کے اتنے حریص تھے کہ اعتکاف سے نکل کر لوگوں کی مدد کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ ایک مرتبہ وہ مسجد نبویؐ میں اعتکاف کررہے تھے کہ ایک شخص وہاںآیا اور سلام کرکے بیٹھ گیا۔ عبداللہ ابن عباسؓ نے اسے غم زدہ دیکھا تو فرمایا: اے شخص میں تم کو غمگین دیکھتا ہوں؟ اس نے کہا کہ ہاں اے رسول کریمؐ کے چچازاد بھائی! فلاں آدمی کا میرے اوپر قرض ہے اور اسے ادا کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ یہ سن کر عبداللہ ابن عباسؓ اپنے اعتکاف سے نکل آئے اور اس محتاج کے ساتھ چل پڑے اور فرمانے لگے کہ میں نے اس قبر کے مکین (محمدؐ) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ’’جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں چل پڑا اور اس کی ضرورت پوری کی تو اس کے لیے دس سال کے اعتکاف سے بہتر ہے‘‘ (طبرانی، بیہقی، المستدرک للحاکم)۔ اس طرح کی مثالیں دیگر صحابہ کرامؓ کی بکثرت موجود ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عبداللہ بن عمر سیدنا عبداللہ ایک مرتبہ کے ساتھ کے گھر کے پاس اور اس کہا کہ اور ان

پڑھیں:

اہم انتظامی اختیارات پر بھارت کے کنٹرول کی وجہ سے کشمیر حکومت کے اختیارات بہت کم ہو گئے ہیں، عمر عبداللہ

ہندوستان ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں منتخب کشمیر حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کی سربراہی میں قائم بھارتی قابض انتظامیہ کے اختیارات کی یک طرفہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ منتخب حکومت کو اپنے افسران کا انتخاب کرنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ کشمیر میں حکمرانی اور اہم انتظامی اختیارات پر بھارتی حکومت کے کنٹرول کی وجہ سے منتخب حکومت کو اختیارات بہت کم ہو گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق عمر عبداللہ نے ہندوستان ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں منتخب کشمیر حکومت اور لیفٹیننٹ گورنر کی سربراہی میں قائم بھارتی قابض انتظامیہ کے اختیارات کی یک طرفہ تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ منتخب حکومت کو اپنے افسران کا انتخاب کرنے کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی اے ایس، آئی پی ایس اور جے کے اے ایس افسران کی تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار بھی راج بھون (گورنر ہائوس) کو حاصل ہے جس سے کشمیر حکومت مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔ عمر عبداللہ نے واضح کیا کہ منتخب کشمیر حکومت کی ہدایات پر عمل کرنے پر افسران کو جبری طور پر سزا کے طور پر لداخ ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے اپنے دفتر کو بھی اس طرح کی کارروائیوں کی دھمکی دی گئی تھی۔

انہوں نے محکمہ اطلاعات جیسے محکموں کو منتخب حکومت کے دائرہ کار سے باہر رکھنے کے لیے انتظامی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ عمر عبداللہ نے کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی میں تاخیر پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے "بھارتی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ سے کیا گیا ایک خودمختار وعدہ” قرار دیا جو ابھی تک پورا نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ اس عمل کو جس میں حلقہ بندیاں اور انتخابات کے بعد ریاستی حیثیت کی بحالی شامل ہونی چاہیے تھی، تاہم ریاستی حیثیت کی بحالی کو مناسب وقت کی مبہم یقین دہانیوں کے تحت جان بوجھ کر طول دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مسلسل حق رائے دہی اور جبری طرز حکمرانی مقبوضہ علاقے میں عوام کی مایوسی کو مزید گہرا کر سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب میں56 ہزار مساجد کی جیوٹیکنگ
  • امت مسلمہ کی نجات کا واحد راستہ جہاد اور شہادت کا جذبہ ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • پنجاب میں مدارس کی نمبرشماری مکمل، کتنے مدرسے ہیں؟
  • اہم انتظامی اختیارات پر بھارت کے کنٹرول کی وجہ سے کشمیر حکومت کے اختیارات بہت کم ہو گئے ہیں، عمر عبداللہ
  • مولانا فضل الرحمان ائمہ کرام کے لیے پنجاب حکومت کے وظیفہ میں رکاوٹ نہ بنیں، علامہ ڈاکٹر راغب نعیمی
  • چیئرمین سی ڈی اے کا آذربائجان کے وفد اور متعلقہ افسران کے ہمراہ آسان خدمت مرکزبلڈنگ جی نائن کا دورہ
  • عوامی خدمت، تیز رفتار ترقی، شفاف گورننس مسلم لیگ (ن) کا اصل ایجنڈا: مریم نواز
  • لیفٹیننٹ گورنر"ریاستی درجے" کے معاملے پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، فاروق عبداللہ
  • مجھے اختیارات سے محروم رکھاگیا ہے، عمر عبداللہ کا اعتراف
  • ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ