ایران پر اسرائیلی جارحیت؛ مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو سب کی باری آئے گی، وزیرِ دفاع
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
اسلام آباد:
وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایران پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو سب کی باری آئے گی۔
قومی اسمبلی کا بجٹ پر بحث کے لیے اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت ہوا، جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ یہاں بجٹ پر بحث شروع ہے، مگر کل ہمارے ہمسایہ ملک پہ حملہ ہو گیا۔ ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے، جس کے ساتھ ہمارے گہرے تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ایسے رشتے ہیں ایرانیوں کے ساتھ جن کی مثال شاید تاریخ میں کم ہی ملتی ہو۔ اسرائیل نے یمن، ایران، فلسطین کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے ۔ آج مسلم دنیا متحد نہ ہوئی تو سب کی باری آجائے گی۔ اس وقت لازم ہے کہ کچھ اقدامات کیے جائیں۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ اس نازک صورت حال میں او آئی سی کا اجلاس بلایا جائے ۔ اسرائیل فلسطینیوں پر ظلم ڈھا رہا ہے۔ کہیں اسلامی دنیا میں اس کے خلاف اس طرح آواز نہیں اُٹھ رہی جس طرح باقی دنیا میں اُٹھ رہی ہے۔ غیر مسلموں کے ضمیر جاگ رہے ہیں لیکن مسلمانوں کے ضمیر نہیں جاگ رہے۔
بانی چیئرمین پی تی آئی عمران خان اور سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پر تنقید کرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ کمیٹی روم 2 میں ایک میٹنگ ہوئی تھی، ہم بیٹھے رہے کہ اس وقت کے وزیر اعظم آئیں۔ ابھی نندن کو واپس کیا گیا اور وہ ایک سرینڈر تھا۔ اس وقت کے آرمی چیف اور وزیراعظم نے مل کر قومی وقار کو ٹھیس پہنچائی۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بھارت کے خلاف جنگ میں فتح پر تاقیامت فخر ہے۔ ایک سال میں جو کچھ حاصل کیا، اس پر وزیر خزانہ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ وزیر خزانہ نے پاکستان کے لیے بین الاقوامی اداروں سے اعتماد حاصل کیا۔ ایک لمبا سفر وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ کی قیادت میں ہم نے طے کیا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ساری سیاست کا محور ایک شخص کو بنا دینا، یہ حب الوطنی نہیں ہے۔ یہ حب الشخص ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے لوگ آئے اور دنیا سے رخصت ہوئے۔ بقا وطن کو ہے۔ نئی لیڈرشپ تیار کریں تاکہ آپ کی پارٹی زندہ رہے۔ یہ پیری فقیری نہیں کہ آپ گدی نشین بن جائیں۔ الیکشن کو گزرے ڈیڑھ سال ہو گیا ہے اور ایک ہی راگ الاپا جارہا ہے۔ سارے راگ بےسرے ہو گئے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خواجہ آصف نے وزیر دفاع نے کہا کہ
پڑھیں:
مسلم دنیا پر مربوط جارحیت
مسلم دنیا پر مربوط جارحیت WhatsAppFacebookTwitter 0 14 June, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
دنیا پہلے ہی کئی بحرانوں کے دہانے پر کھڑی ہے، ایسے میں حالیہ اسرائیلی حملے نے نہ صرف ایران میں کشیدگی کو بڑھا دیا ہے بلکہ بعض عالمی قوتوں کے خطرناک کھیل کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ جارحیت اس بھارتی دراندازی کے فوراً بعد ہوئی ہے جو مئی کے اوائل میں پاکستان کی حدود میں کی گئی تھی اور جسے پاکستان نے 7 مئی کو جرات مندانہ اور حکمتِ عملی پر مبنی جواب دے کر ناکام بنایا۔ اگرچہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان طویل جنگ کے خطرات وقتی طور پر ٹل گئے، مگر اب جنگ کے بادل ایران کے اوپر منڈلا رہے ہیں اور فضا ایک نئے عدم استحکام کی خبر دے رہی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل نے ایرانی سرزمین پر حملے کیے ہوں۔ گزشتہ برسوں میں اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام اور عسکری اثاثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے متعدد خفیہ اور علانیہ کارروائیاں کیں۔ 27 نومبر 2020 کو ایرانی جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کو تہران کے قریب دماوند کے علاقے ابسرد میں قتل کیا گیا، جس کی ذمہ داری غیر علانیہ طور پر اسرائیل پر عائد کی گئی، اگرچہ اسرائیل نے سرکاری طور پر اسے تسلیم نہیں کیا۔ اس سے پہلے، 2018 میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے دعویٰ کیا تھا کہ موساد نے ایران کے جوہری منصوبے سے متعلق اہم دستاویزات حاصل کر لی ہیں، جسے تہران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا حصہ قرار دیا گیا۔
حالیہ برسوں میں اسرائیل نے شام میں ایرانی ٹھکانوں پر فضائی حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ کیا ہے۔ شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کے مطابق 2013 سے 2023 کے درمیان اسرائیل نے 1,200 سے زائد فضائی حملے کیے، جن میں اکثر ایرانی اہلکار یا ان سے منسلک ملیشیاؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ اپریل 2024 میں اصفہان میں ایک ایرانی عسکری تنصیب پر ہونے والے زبردست دھماکے کے پیچھے بھی اسرائیل کو ہی تصور کیا جاتا ہے۔ یہ تمام واقعات اسرائیلی معاندانہ پالیسی کا تسلسل ہیں، جس کا مقصد محض خطرات کو ختم کرنا نہیں بلکہ ایران کو علاقائی سطح پر کمزور کرنا ہے۔
تاہم موجودہ حملہ اپنے دائرہ کار اور نتائج کے لحاظ سے مختلف محسوس ہوتا ہے۔ یہ کوئی محدود آپریشن نہیں بلکہ ایک اسٹریٹیجک تبدیلی کا اشارہ ہے — ایسا اقدام جو ایک وسیع جنگ کو جنم دے سکتا ہے۔ ان عالمی طاقتوں کی خاموشی یا ہلکی پھلکی ردعمل، جو عام طور پر عالمی قوانین اور امن کے داعی بنتے ہیں، ایک سوالیہ نشان ہے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کی بین الاقوامی قوانین کی بار بار خلاف ورزی پر اس قدر درگزر کیوں؟ اور جب نشانہ کسی مسلم ملک کو بنایا جاتا ہے تو دنیا کی غیرت کیوں خاموش ہو جاتی ہے؟
شاید اس کا جواب ایک بڑی اور خوفناک حقیقت میں پوشیدہ ہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں ایک طرزِ عمل واضح طور پر سامنے آیا ہے، جس کے تحت ابھرتی ہوئی مسلم ریاستوں کو مختلف بہانوں سے غیر مستحکم کیا جاتا ہے۔ عراق پر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے جھوٹے دعوے کے تحت حملہ کیا گیا، جو بعد میں غلط ثابت ہوئے۔ لیبیا کو جمہوریت کے نام پر تباہ کر دیا گیا۔ شام ایک دہائی سے زائد عرصے سے خانہ جنگی کا شکار ہے، جس میں عالمی اور علاقائی طاقتیں برابر کی شریک ہیں۔ اور اب توجہ ایران پر مرکوز ہے، جو کہ طویل پابندیوں اور سفارتی تنہائی کے باوجود سائنسی اور عسکری ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ جہاں کچھ طاقتیں مسلم ریاست کی معمولی عسکری یا سائنسی ترقی کو بھی خطرہ سمجھتی ہیں، وہیں کوئی مسلم ملک کسی غیر مسلم ہمسایہ کی ترقی کو جارحیت کی بنیاد نہیں بناتا۔ ایران اور پاکستان سمیت اکثر مسلم ممالک نے دفاعی حکمتِ عملی اختیار کی ہے اور امن و بقائے باہمی کا علم بلند کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، اشتعال انگیزیاں جاری رہتی ہیں اور عالمی طاقتیں، جو انسانی حقوق کی دعوے دار ہیں، اکثر اس صورتِ حال پر خاموشی اختیار کرتی ہیں۔
مئی کے وہ دن، جب بھارت نے پاکستان کے خلاف جارحیت کی کوشش کی، اس مربوط دشمنی کی واضح مثال ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اسرائیل اور بھارت کے درمیان انٹیلیجنس شیئرنگ اور مشترکہ منصوبہ بندی ہوئی۔ مگر پاکستان کا ردعمل فوری اور فیصلہ کن تھا۔ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور ایک پیشہ ور، عزم سے بھرپور فوج کی بدولت پاکستان نے دشمن کے عزائم خاک میں ملا دیے اور خطے میں استحکام کو برقرار رکھا۔ چونکہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی، اب رخ ایران کی طرف موڑ دیا گیا ہے — ایک ایسی قوم کی طرف جو تنہائی اور دباؤ کے باوجود ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت ایران کو غیر اشتعال انگیز جارحیت کا جواب دینے کا پورا حق حاصل ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے، تو اسے وہی انجام بھگتنا پڑ سکتا ہے جو فلسطین نے بھگتا ہے — ایک مظلوم قوم جو بتدریج اپنی زمین، اپنے حقوق اور عالمی حمایت سے محروم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اگر ایران جوابی کارروائی کرتا ہے تو کوئی شک نہیں کہ بڑی طاقتیں فوراً اسرائیل کی پشت پناہی کے لیے متحرک ہو جائیں گی اور ایران کی مذمت کریں گی۔ یہی دہرا معیار اور زمین پر قبضے کی حکمتِ عملی کی اصل شکل ہے۔
یہ لمحہ اجتماعی بیداری کا تقاضا کرتا ہے۔ مسلم دنیا کو خاص طور پر اس وسیع تر منظرنامے پر غور کرنا چاہیے — کہ کس طرح ایک کے بعد ایک، ترقی کرتی ہوئی اسلامی ریاست کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کمزور کیا جا رہا ہے یا تقسیم کیا جا رہا ہے۔ یہ معاملہ کسی ایک ملک یا ایک تنازعے کا نہیں، بلکہ ایک طویل المدتی مہم کا ہے جس کا مقصد کسی بھی ابھرتی ہوئی مسلم طاقت کو عالمی سطح پر خود مختاری سے محروم رکھنا ہے۔ ایران، بالکل پاکستان کی طرح، ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے۔ آج کے فیصلے صرف انفرادی ممالک کا نہیں بلکہ پوری مسلم امہ کے وقار اور خودمختاری کا تعین کریں گے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری، خاص طور پر انصاف کے علمبردار، اپنی خاموشی توڑیں۔ ظلم کہیں بھی ہو، انصاف کے لیے خطرہ ہوتا ہے، اور مخصوص اخلاقیات کی آڑ میں جارحیت کا تسلسل دنیا کو صرف تباہی کے قریب لائے گا۔ دعا ہے کہ عقل و دانائی غالب آ جائے، اس سے پہلے کہ خطہ کسی وسیع، اور شاید بے قابو، جنگ کی لپیٹ میں آ جائے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسرائیل نے امریکی صحافی کو ایرانی حملے کی رپورٹنگ سے روک دیا عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحان بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟ مُودی کا ”نیو نارمل” اور راکھ ہوتا سیندور! اٹھائیس مئی قوم کی خودمختاری کا دن سائبر سکیورٹی اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے طریقےCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم