عالمی منظرنامہ اس وقت ایک ایسی چوراہے پر کھڑا ہے جہاں ہر موڑ پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ یہ کوئی افسانہ نہیں، بلکہ وہ تلخ حقیقت ہے جو عالمی طاقتوں کی چالوں، جغرافیائی سیاسی دباؤ، اور بدنیتی پر مبنی ایجنڈوں سے جنم لے رہی ہے۔ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ اب محض ایک خیالی داستان نہیں، بلکہ ایک ایسی آگ ہے جو چنگاریوں سے شعلوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں، ہندوستان کے ساتھ اس کی گہری یاری، ایران میں خفیہ اداروں را اور موساد کا نیٹ ورک، اور 2026 میں پاکستان کے ممکنہ طور پر اس آگ میں جھلسنے کا خطرہ، یہ سب وہ عوامل ہیں جو دنیا کو ایک عظیم سانحے کی دہلیز پر لے آئے ہیں۔
آئیے، اس پیچیدہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کیسے اس تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور پاکستان اس میں کیسے پھنس سکتا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب طاقتیں اپنے مفادات کے لیے سر جوڑتی ہیں، تو دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ آج کا عالمی منظرنامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا تک، تناؤ کی وہ لکیر کھنچی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔
روس-یوکرین تنازعہ، ایران-اسرائیل کشیدگی، اور ہندوستان-پاکستان تعلقات کی گرما گرمی— یہ سب وہ دھاگے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑ کر عالمی جنگ کا جال بن رہے ہیں۔
روس اور یوکرین کی جنگ نے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کو جنم دیا ہے۔ نیٹو کی توسیع، امریکی مفادات، اور روس کی جارحانہ حکمت عملی نے یورپ کو ایک بارود کے ڈھیر پر بیٹھا دیا ہے۔
دوسری طرف، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں نے ایران کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ اسرائیل کے حالیہ حملوں، جنہیں بعض مبصرین ’تحکمانہ‘ اور ’جارحانہ‘ قرار دیتے ہیں، نے خطے کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔
اس صورت حال میں، چین اور روس کی ایران کے ساتھ قربت، اور امریکا کی اسرائیل کے ساتھ مکمل حمایت، عالمی طاقتوں کو 2 خیموں میں تقسیم کر رہی ہے۔ جب یہ دونوں خیمے ٹکرائیں گے، تو نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
تیسری عالمی جنگ ناگزیر اس لیے ہو چکی ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ یہ پراکسی جنگیں، جیسے کہ شام، یمن، اور اب ایران میں جاری تنازعات، ایک بڑے تصادم کا پیش خیمہ ہیں۔ جب طاقتیں اپنے ہتھیاروں کو چمکاتی ہیں اور اپنے اتحادیوں کو اکساتی ہیں، تو امن کے امکانات دم توڑ دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ، معاشی بحران، وسائل کی کمی، اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی عالمی تناؤ کو بڑھاوا دیا ہے۔ جب وسائل کی جنگ شروع ہوتی ہے، تو قومیں اپنے وجود کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
اسرائیل کی بدمعاشی اور ہندوستان کی یاریاسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں مشرق وسطیٰ کے تناؤ کا ایک بڑا سبب ہیں۔ غزہ میں جاری تنازعہ اور ایران پر حالیہ حملوں نے خطے کو ایک بارود کے ڈھیر میں بدل دیا ہے۔
اسرائیل کی یہ پالیسیاں کوئی نئی بات نہیں، یہ اس کی طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔ ایران پر حملوں کے بعد، جہاں اسرائیل نے مبینہ طور پر ایرانی ڈرونز کو نشانہ بنایا، عالمی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ لیکن اسرائیل کی بدمعاشی کا ایک اہم پہلو اس کی ہندوستان کے ساتھ گہری دوستی ہے۔
ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات گزشتہ چند دہائیوں میں نہ صرف مضبوط ہوئے ہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک شراکت داری کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ دونوں ممالک فوجی، ٹیکنالوجی، اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور اسرائیل کی ’موساد‘ کے درمیان تعاون کی اطلاعات نے خطے میں نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ تعاون خاص طور پر ایران کے خلاف خفیہ کارروائیوں میں دیکھا گیا ہے، جہاں دونوں ایجنسیوں نے مبینہ طور پر ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
ہندوستان کی اسرائیل کے ساتھ یہ یاری پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ 2025 کے پاک-بھارت تنازعہ، جس میں ہندوستان نے پہلگام حملے کاجھوٹا بےبنیاد الزام لگا کر پاکستان پر میزائل حملے کیے، اس بات کی واضح مثال ہے کہ ہندوستان اپنی جارحانہ پالیسیوں کو اسرائیل کی طرز پر ڈھال رہا ہے۔
اس تنازعہ نے نہ صرف پاک-بھارت تعلقات کو مزید خراب کیا بلکہ عالمی سطح پر یہ اشارہ بھی دیا کہ ہندوستان اب خطے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے، جو اسرائیل کی حمایت سے اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔
ایران، جو مشرق وسطیٰ کا ایک اہم کھلاڑی ہے، اس وقت اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے نشانے پر ہے۔ را اور موساد کا نیٹ ورک ایران کے اندر خفیہ کارروائیوں کے ذریعے اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق، یہ دونوں ایجنسیاں ایران کے جوہری تنصیبات، فوجی اڈوں، اور اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے تناظر میں بھی ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ موساد اور را نے پاکستان کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنائی تھی، جس میں ایران کو بھی نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی شامل تھی۔
ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملوں نے اس نیٹ ورک کی سرگرمیوں کو مزید واضح کر دیا ہے۔ ایران کے جوابی حملوں کو اردن اور دیگر اتحادیوں نے ناکام بنایا، لیکن یہ صورتحال ایران کو مزید جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔
اگر ایران اس جنگ میں مکمل طور پر کود پڑتا ہے، تو روس اور چین کی حمایت اسے ایک بڑی طاقت بنا سکتی ہے، جو عالمی جنگ کے امکانات کو اور بڑھا دے گی۔
پاکستان، جو جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے ایک اہم مقام رکھتا ہے، اس ممکنہ عالمی جنگ میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ 2025 کے پاک-بھارت تنازعہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان ہندوستان کی جارحیت کا براہ راست نشانہ بن سکتا ہے۔ اس تنازعہ میں ہندوستان نے پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا، جبکہ پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی۔
2026 تک اگر عالمی تناؤ بڑھتا ہے، تو پاکستان کے لیے صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کی مشترکہ حکمت عملی پاکستان کو گھیرے میں لے سکتی ہے، خاص طور پر اگر ایران کے ساتھ تنازعہ بڑھتا ہے۔
پاکستان کی ایران کے ساتھ ہمدردی اور اسرائیل کی مذمت اسے مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں کھینچ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کی جوہری صلاحیت اسے عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ہدف بناتی ہے۔
پاکستان کی فوج، جو خطے میں ایک مضبوط ترین طاقت سمجھی جاتی ہے، اس جنگ میں دفاعی کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر ہندوستان اور اسرائیل کی مشترکہ حکمت عملی پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑ سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے پاکستان کی معاشی اور اسٹریٹجک اہمیت بڑھ گئی ہے، جو اسے عالمی طاقتوں کے ایجنڈوں میں مزید اہم بنا دیتی ہے۔
تحریر: چوہدری خالد عمر
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: عالمی طاقتوں اور اسرائیل ہندوستان کی اسرائیل کی پاکستان کے کی جارحانہ پاکستان کی اسرائیل کے حکمت عملی عالمی جنگ ایران کے کے ساتھ سکتی ہے میں ایک ایک اہم سکتا ہے کو مزید اور اس رہا ہے رہی ہے کی جنگ دیا ہے کے لیے
پڑھیں:
نیو یارک ڈیکلریشن: اسرائیل کی سفارتی تنہائی؟؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-6
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حالیہ قرارداد نے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ یہ قرارداد، جسے نیو یارک ڈیکلریشن کہا گیا، 142 ووٹوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور ہوئی اور اس نے اسرائیل کو ایک واضح سفارتی شکست سے دوچار کیا۔ دنیا کے اکثر ممالک نے ایک بار پھر اسرائیلی جارحیت کو کھلے لفظوں میں چیلنج کیا۔ یہ واقعہ محض ایک ووٹنگ یا علامتی قرارداد نہیں بلکہ بدلتے ہوئے عالمی رجحانات، نئے سفارتی اتحادوں اور طاقت کے توازن کی نشاندہی کرتا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کا تنازع کوئی نیا نہیں۔ یہ مسئلہ ایک صدی سے زائد عرصے سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتا آ رہا ہے۔ 1917ء کے بالفور اعلامیہ سے لے کر 1948ء کے قیامِ اسرائیل اور اس کے بعد کی عرب اسرائیل جنگوں تک، فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کو مسلسل پامال کیا گیا۔ 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اقوامِ متحدہ کی قرارداد 242 اور دیگر دستاویزات کے باوجود ان علاقوں سے پسپائی اختیار نہ کی۔ فلسطینی عوام کی نسل در نسل جدوجہد اور مسلسل قربانیوں کے باوجود، عالمی برادری کی سیاسی کمزوری اور بڑی طاقتوں کے مفادات نے ہمیشہ اسرائیل کو استثنیٰ بخشا۔
اسی تاریخی تناظر میں جنرل اسمبلی کی حالیہ قرارداد ایک بڑی تبدیلی کا عندیہ دیتی ہے۔ اگرچہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں لازمی نفاذ کی قوت نہیں رکھتیں، لیکن یہ دنیا کے اجتماعی شعور اور عالمی سیاسی فضا کا اظہار ضرور کرتی ہیں۔ اسرائیل اور اس کے قریبی اتحادی امریکا کے علاوہ محض نو دیگر ممالک نے اس کی مخالفت کی، جبکہ بارہ ممالک نے غیر جانبداری اختیار کی۔ باقی دنیا کی اکثریت نے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کا پیغام دیا۔ یہ اسرائیل کے لیے ایک سفارتی تنہائی کا لمحہ ہے، جس کے اثرات دیرپا بھی ہو سکتے ہیں۔
قرارداد کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں حماس کی مذمت بھی شامل ہے اور اس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ قرارداد میں حماس کو آئندہ کسی سیاسی تصفیے میں کردار سے الگ کر دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حماس کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا تو کیا غزہ میں پائیدار امن ممکن ہوگا؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ حماس کو عوامی حمایت حاصل ہے اور اس کے عسکری ڈھانچے کو یکسر نظرانداز کرنا کسی بھی سیاسی بندوبست کو کمزور کر سکتا ہے۔
قطر پر اسرائیل کا حالیہ حملہ اس پورے تناظر میں ایک نیا اور خطرناک رخ ہے۔ قطر وہ ملک ہے جس نے مسلسل ثالث کا کردار ادا کیا، غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں حصہ لیا اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدوں میں کلیدی شراکت کی۔ ایسے ملک پر حملہ دراصل امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان نے بجا طور پر اس حملے کو غیر قانونی، بلااشتعال اور عالمی قوانین کے منافی قرار دیا۔ پاکستانی مندوب نے اسرائیلی نمائندے کے غیر مناسب بیانات پر بروقت اور سخت ردعمل دے کر یہ ثابت کیا کہ پاکستان نہ صرف فلسطین بلکہ قطر جیسے برادر ممالک کی خودمختاری کے دفاع میں بھی دو ٹوک موقف رکھتا ہے۔
پاکستان کی یہ پالیسی محض اخلاقی یا جذباتی نہیں بلکہ ایک عملی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی قربانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اسرائیل کی طرف سے دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کوشش محض ایک فریب ہے۔ عالمی برادری بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان نے القاعدہ کو ختم کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کردار ادا کیا وہ کسی اور ملک کے حصے میں نہیں آیا۔ لہٰذا اسرائیل کی جانب سے پاکستان کو نشانہ بنانا نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ اپنی غیر قانونی کارروائیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
قطر نے سوال اٹھایا کہ دنیا کی تاریخ میں کب کسی ثالث کو اس طرح نشانہ بنایا گیا ہے؟ امریکا نے طالبان سے مذاکرات کے دوران کبھی اس طرح کی کارروائی نہیں کی۔ فرانس، برطانیہ، چین اور روس جیسے ممالک نے بھی اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور سفارتی عمل کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جب اسرائیل کے سب سے قریبی مغربی اتحادی بھی اس کی پالیسیوں پر کھلے لفظوں میں تنقید کر رہے ہیں۔
یہاں ایک بنیادی سوال ابھر کر سامنے آتا ہے: کیا یہ قرارداد اسرائیل کی پالیسیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکے گی؟ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ اسرائیل اکثر قراردادوں کو نظرانداز کرتا آیا ہے۔ 1967ء اور 1973ء کے بعد بھی اقوامِ متحدہ نے کئی قراردادیں منظور کیں، لیکن اسرائیل نے ان پر عمل نہ کیا۔ آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ اسرائیل کو امریکا کی غیر مشروط حمایت اور بعض یورپی ممالک کے تحفظ کی یقین دہانی حاصل رہتی ہے، اس لیے اس کے لیے اقوامِ متحدہ کی قراردادیں محض علامتی دباؤ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ تاہم اس بار فرق یہ ہے کہ عالمی رائے عامہ بدل رہی ہے۔ یورپ کے اندر بھی اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید بڑھ رہی ہے، مسلم ممالک زیادہ منظم ہو رہے ہیں، اور چین و روس جیسے ممالک اپنی موجودگی کو زیادہ نمایاں کر رہے ہیں۔
مستقبل کے امکانات کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ دباؤ بڑھتا رہا تو اسرائیل کو سفارتی تنہائی کا سامنا ہوگا، جو بالآخر اسے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور کر سکتا ہے۔ نیو یارک ڈیکلریشن کے بعد 22 ستمبر کو ہونے والا نیویارک اجلاس اور پھر دوحا کانفرنس اس حوالے سے اگلے سنگِ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر مسلم دنیا، یورپی ممالک اور عالمی طاقتیں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں تو نہ صرف غزہ میں جنگ بندی ممکن ہوگی۔
اختتامی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حالیہ قرارداد اسرائیل کے لیے ایک بڑی سفارتی شکست ہے۔ قطر پر حملہ اور اس کے بعد کے عالمی ردعمل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل اب اپنی پالیسیوں کو بغیر کسی احتساب کے جاری نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان اور دیگر ممالک کا دو ٹوک موقف اس حقیقت کا غماز ہے کہ اب دنیا کے بیشتر ممالک اسرائیل کی طاقت کے سامنے خاموش رہنے کو تیار نہیں۔ البتہ اصل امتحان آنے والے دنوں کا ہے جب یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ قراردادیں محض کاغذی بیانات تک محدود رہتی ہیں یا پھر عملی اقدامات کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ عالمی برادری کو اس بار اپنی سنجیدگی اور عزم کا ثبوت دینا ہوگا، کیونکہ فلسطین کا مسئلہ محض ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی انصاف، انسانی حقوق اور بین الاقوامی امن کا سوال ہے۔