WE News:
2025-11-03@20:15:46 GMT

تیسری عالمی جنگ کےسائے

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

تیسری عالمی جنگ کےسائے

عالمی منظرنامہ اس وقت ایک ایسی چوراہے پر کھڑا ہے جہاں ہر موڑ پر جنگ کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ یہ کوئی افسانہ نہیں، بلکہ وہ تلخ حقیقت ہے جو عالمی طاقتوں کی چالوں، جغرافیائی سیاسی دباؤ، اور بدنیتی پر مبنی ایجنڈوں سے جنم لے رہی ہے۔ تیسری عالمی جنگ کا خطرہ اب محض ایک خیالی داستان نہیں، بلکہ ایک ایسی آگ ہے جو چنگاریوں سے شعلوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔

اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں، ہندوستان کے ساتھ اس کی گہری یاری، ایران میں خفیہ اداروں را اور موساد کا نیٹ ورک، اور 2026 میں پاکستان کے ممکنہ طور پر اس آگ میں جھلسنے کا خطرہ، یہ سب وہ عوامل ہیں جو دنیا کو ایک عظیم سانحے کی دہلیز پر لے آئے ہیں۔

آئیے، اس پیچیدہ صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں کہ دنیا کیسے اس تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور پاکستان اس میں کیسے پھنس سکتا ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب طاقتیں اپنے مفادات کے لیے سر جوڑتی ہیں، تو دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتی ہے۔ آج کا عالمی منظرنامہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے لے کر جنوبی ایشیا تک، تناؤ کی وہ لکیر کھنچی ہوئی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہے۔

روس-یوکرین تنازعہ، ایران-اسرائیل کشیدگی، اور ہندوستان-پاکستان تعلقات کی گرما گرمی— یہ سب وہ دھاگے ہیں جو ایک دوسرے سے جڑ کر عالمی جنگ کا جال بن رہے ہیں۔

روس اور یوکرین کی جنگ نے مغرب اور مشرق کے درمیان ایک نئی سرد جنگ کو جنم دیا ہے۔ نیٹو کی توسیع، امریکی مفادات، اور روس کی جارحانہ حکمت عملی نے یورپ کو ایک بارود کے ڈھیر پر بیٹھا دیا ہے۔

دوسری طرف، مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں نے ایران کو گھیرے میں لے لیا ہے۔ اسرائیل کے حالیہ حملوں، جنہیں بعض مبصرین ’تحکمانہ‘ اور ’جارحانہ‘ قرار دیتے ہیں، نے خطے کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔

اس صورت حال میں، چین اور روس کی ایران کے ساتھ قربت، اور امریکا کی اسرائیل کے ساتھ مکمل حمایت، عالمی طاقتوں کو 2 خیموں  میں تقسیم کر رہی ہے۔ جب یہ دونوں خیمے ٹکرائیں گے، تو نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

تیسری عالمی جنگ ناگزیر اس لیے ہو چکی ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں۔ یہ پراکسی جنگیں، جیسے کہ شام، یمن، اور اب ایران میں جاری تنازعات، ایک بڑے تصادم کا پیش خیمہ ہیں۔ جب طاقتیں اپنے ہتھیاروں کو چمکاتی ہیں اور اپنے اتحادیوں کو اکساتی ہیں، تو امن کے امکانات دم توڑ دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ، معاشی بحران، وسائل کی کمی، اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے بھی عالمی تناؤ کو بڑھاوا دیا ہے۔ جب وسائل کی جنگ شروع ہوتی ہے، تو قومیں اپنے وجود کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

اسرائیل کی بدمعاشی اور ہندوستان کی یاری

اسرائیل کی جارحانہ پالیسیاں مشرق وسطیٰ کے تناؤ کا ایک بڑا سبب ہیں۔ غزہ میں جاری تنازعہ اور ایران پر حالیہ حملوں نے خطے کو ایک بارود کے ڈھیر میں بدل دیا ہے۔

اسرائیل کی یہ پالیسیاں کوئی نئی بات نہیں، یہ اس کی طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہیں جس کا مقصد خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنا ہے۔ ایران پر حملوں کے بعد، جہاں اسرائیل نے مبینہ طور پر ایرانی ڈرونز کو نشانہ بنایا، عالمی دباؤ بڑھ گیا ہے۔ لیکن اسرائیل کی بدمعاشی کا ایک اہم پہلو اس کی ہندوستان کے ساتھ گہری دوستی ہے۔

ہندوستان اور اسرائیل کے تعلقات گزشتہ چند دہائیوں میں نہ صرف مضبوط ہوئے ہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک شراکت داری کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ دونوں ممالک فوجی، ٹیکنالوجی، اور انٹیلی جنس کے شعبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور اسرائیل کی ’موساد‘ کے درمیان تعاون کی اطلاعات نے خطے میں نئے خدشات کو جنم دیا ہے۔ یہ تعاون خاص طور پر ایران کے خلاف خفیہ کارروائیوں میں دیکھا گیا ہے، جہاں دونوں ایجنسیوں نے مبینہ طور پر ایران کے جوہری پروگرام کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔

ہندوستان کی اسرائیل کے ساتھ یہ یاری پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ 2025 کے پاک-بھارت تنازعہ، جس میں ہندوستان نے پہلگام حملے کاجھوٹا بےبنیاد الزام لگا کر پاکستان پر میزائل حملے کیے، اس بات کی واضح مثال ہے کہ ہندوستان اپنی جارحانہ پالیسیوں کو اسرائیل کی طرز پر ڈھال رہا ہے۔

اس تنازعہ نے نہ صرف پاک-بھارت تعلقات کو مزید خراب کیا بلکہ عالمی سطح پر یہ اشارہ بھی دیا کہ ہندوستان اب خطے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے، جو اسرائیل کی حمایت سے اپنی پوزیشن کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔

ایران، جو مشرق وسطیٰ کا ایک اہم کھلاڑی ہے، اس وقت اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے نشانے پر ہے۔ را اور موساد کا نیٹ ورک ایران کے اندر خفیہ کارروائیوں کے ذریعے اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، یہ دونوں ایجنسیاں ایران کے جوہری تنصیبات، فوجی اڈوں، اور اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔ 2008 کے ممبئی حملوں کے تناظر میں بھی ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ موساد اور را نے پاکستان کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنائی تھی، جس میں ایران کو بھی نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی شامل تھی۔

ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملوں نے اس نیٹ ورک کی سرگرمیوں کو مزید واضح کر دیا ہے۔ ایران کے جوابی حملوں کو اردن اور دیگر اتحادیوں نے ناکام بنایا، لیکن یہ صورتحال ایران کو مزید جارحانہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

اگر ایران اس جنگ میں مکمل طور پر کود پڑتا ہے، تو روس اور چین کی حمایت اسے ایک بڑی طاقت بنا سکتی ہے، جو عالمی جنگ کے امکانات کو اور بڑھا دے گی۔

پاکستان، جو جغرافیائی اور سیاسی لحاظ سے ایک اہم مقام رکھتا ہے، اس ممکنہ عالمی جنگ میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ 2025 کے پاک-بھارت تنازعہ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ پاکستان ہندوستان کی جارحیت کا براہ راست نشانہ بن سکتا ہے۔ اس تنازعہ میں ہندوستان نے پاکستان پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا، جبکہ پاکستان نے اس کی سختی سے تردید کی۔

2026 تک اگر عالمی تناؤ بڑھتا ہے، تو پاکستان کے لیے صورت حال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کی مشترکہ حکمت عملی پاکستان کو گھیرے میں لے سکتی ہے، خاص طور پر اگر ایران کے ساتھ تنازعہ بڑھتا ہے۔

پاکستان کی ایران کے ساتھ ہمدردی اور اسرائیل کی مذمت اسے مشرق وسطیٰ کے تنازعے میں کھینچ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، پاکستان کی جوہری صلاحیت اسے عالمی طاقتوں کے لیے ایک اہم ہدف بناتی ہے۔

پاکستان کی فوج، جو خطے میں ایک مضبوط ترین طاقت سمجھی جاتی ہے، اس جنگ میں دفاعی کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن اگر ہندوستان اور اسرائیل کی مشترکہ حکمت عملی پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑ سکتی ہے۔

اس کے علاوہ، پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی وجہ سے پاکستان کی معاشی اور اسٹریٹجک اہمیت بڑھ گئی ہے، جو اسے عالمی طاقتوں کے ایجنڈوں میں مزید اہم بنا دیتی ہے۔

تحریر: چوہدری خالد عمر

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

چوہدری خالد عمر

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: عالمی طاقتوں اور اسرائیل ہندوستان کی اسرائیل کی پاکستان کے کی جارحانہ پاکستان کی اسرائیل کے حکمت عملی عالمی جنگ ایران کے کے ساتھ سکتی ہے میں ایک ایک اہم سکتا ہے کو مزید اور اس رہا ہے رہی ہے کی جنگ دیا ہے کے لیے

پڑھیں:

امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ تعاون اس وقت تک ممکن نہیں جب تک واشنگٹن اسرائیل کی حمایت، مشرقِ وسطیٰ میں فوجی اڈے برقرار رکھنے اور خطے کے معاملات میں مداخلت بند نہیں۔

پیر کے روز اپنے خطاب میں کہا کہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ امریکا ایران سے بظاہر تعاون کی خواہش ظاہر کرتا ہے لیکن عملی طور پر اس کے اقدامات خطے میں عدم استحکام کا سبب بن رہے ہیں۔a

یہ بھی پڑھیں: ’خواب دیکھتے رہو!‘ ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای کا ٹرمپ کے دعوے پر دلچسپ ردعمل

ایرانی سپریم لیڈر کا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ امریکا کبھی کبھار ایران کے ساتھ تعاون کی بات کرتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب امریکا خطے میں اپنی مداخلت ختم کرے اور اسرائیل کی حمایت ترک کرے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ جب ایران تیار ہوگا تو امریکا معاہدے کے لیے بھی تیار ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ ایران کے ساتھ دوستی اور تعاون کا دروازہ کھلا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے ایک بار پھر ایرانی سپریم لیڈر کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے دی

ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر 5 مرتبہ مذاکرات ہوچکے ہیں، تاہم جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ اور اس دوران امریکا کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہوگئی۔

مذاکرات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ایران میں یورینیم افزودگی کا معاملہ ہے جسے مغربی طاقتیں صفر تک لانا چاہتی ہیں تاکہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری کا امکان ختم ہوجائے، تاہم ایران اس شرط کو مکمل طور پر مسترد کرچکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسرائیل امریکا آیت اللہ خامنہ ای ایران تعاون جوہری معاہدہ سپریم لیڈر

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو کیسے شہید کیا؟ ایران نے حیران کن تفصیلات جاری کردیں
  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • تاریخ کی نئی سمت
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • دو ہزار سکھ یاتریوں کی پاکستان آمد، بھارتی حکومت کو سانپ سونگھ گیا
  • ایران کا امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات کے فیصلے پر ردعمل، عالمی امن کیلیے سنگین خطرہ قرار