Jasarat News:
2025-08-01@11:22:42 GMT

بجٹ میں محنت کشوں کیلئے کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پوسٹ بجٹ پیش کردیا جس میں کل اخراجات کا تخمینہ 17573 ارب روپے ہے اس میں سے 8207 ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ جاری اخراجات کا تخمینہ 14131 ارب روپے لگایا گیا ہے۔ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5147روپئے رکھا گیا ہے۔ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار ارب،ملکی دفاع کے لیے 2550ارب روپئے اور پنشن کے لیے 1055ارب روپئے رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ بجلی ودیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر 1186 ارب روپئے مختص کئے گئے ہیں جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ویسے تو بجٹ ہمیشہ سے الفاظوں کا گورکھ دھندہ ہیاس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اس بجٹ میں عام آدمی بالخصوص محنت کش طبقہ کے لیے کیاہے۔ملک میں جس تیزی کے ساتھ مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے غریب عوام کو بجلی گیس کے بلوں نے بحال کردیا ہے۔محنت کش طبقے ہی کے لیے نہیں بلکہ کسی بھی طبقے کے لیے اس بجٹ میں کچھ نہیں ہے۔وفاقی وزیر خزانہ کا یہ کہنا کہ حکومت تنخواہ دار طبقے کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہتی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اتنا ہی ریلیف دے سکتی ہے۔ہماری مالی گنجائش اتنی ہی ہے پنشن اور تنخواہوں پر مہنگائی کے تناسب سے جتنا ریلیف ممکن تھا وہ دے دیا ہے۔لیکن ان بے حس حکمرانو وزرا،اسپیکر قومی اسمبلی اور سینٹ کے چیرمین کی تنخواہوں میں چھ سو فیصد اضافی کر کے غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔حکومت عوام کو صحت ،تعلیم اور روزگار نہیں دے رہی ہے صرف ٹیکس کی گردان کررہی ہے۔مراعات یافتہ طبقے کو مزید مراعات اور غریبوں محنت کشوں کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔محنت کشوں کے ساتھ ساتھ کسانوں پر بھی ظلم کی حد کردی گئی ہے۔بجٹ میں 111محکموں کو ٹیکس استثنیٰ دیا گیا ہے۔شمسی توانائی پر 18فیصدٹیکس لگانے سے سولر پلیٹ کی قیمت میں مزید تین ہزار روپے کا اضافہ ہو گیا ہے۔اس کے علاؤہ گزشتہ سال کی کم از کم اجرت 37000 میں اس سال وفاقی حکومت نے کوئی اضافہ نہیں کیا اور اس کو کافی سمجھا گیا۔ جبکہ حکومتی اخراجات میں کمی کے بجائے دوگنا اضافہ کیا گیا ہے۔تنخواہوں اورمراعات کے لیے کابینہ کا بجٹ 35 کروڑ 18 لاکھ سے بڑھا کر 68کروڑ87لاکھ روپے، وفاقی وزراء اور وزرا ہے۔ مملکت کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے مختص رقم 27 کروڑ سے بڑھا کر 50کروڑ54لاکھ روپے، وزیراعظم کے مشیروں کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے تین کروڑ 61لاکھ روپے سے بڑھا کر 6کروڑ روپئے 31 لاکھ روپے اور وزیر اعظم کے معاونین خصوصی کی خدمات کے صلہ میں تین کروڑ 70لاکھ کے بجائے گیارہ کروڑ 34لاکھ روپئے ادا کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیاہے۔سالانہ بجٹ میں اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے نوازشات کی بارش اور عام سرکاری ملازمین اور غربت کے مارے عوام اور نچلے طبقات کے لیے وسائل کی عدم دستیابی کا جو رونا پیٹاگیا ہے حکومت کے دہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس بجٹ میں حکومت کی جانب سے غربت کے خاتمے کے بلند وبانگ دعوے کے بجائے عملی طور پر غریبوں کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں۔ملک میں مہنگائی غربت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ قومی اداروں کی نج کاری کی پالیسیوں نے غریب محنت کشوں کو دیوار سے لگا دیا ہے اور اس بجٹ نے محنت کشوں کو غربت کی دلدل میں مزید گہرائی میں دکھیل دیا ہے اور یہ بجٹ محنت کشوں کے بجائے مراعات یافتہ طبقے کا بجٹ ہے اور اس بجٹ سے محنت کشوں کے مسائل اور مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تنخواہوں اور کی تنخواہوں کے بجائے کے لیے گیا ہے دیا ہے

پڑھیں:

ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، قیمتوں میں اضافہ ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ ہے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار

وفاقی وزیر صنعت و پیداوار رانا تنویر حسین نے واضح کیا ہے کہ ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، اور گراؤنڈ پر صورتحال اتنی خراب نہیں جتنی بعض حلقے بیان کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال چینی کی پیداوار 68 لاکھ میٹرک ٹن رہی جبکہ ملکی ضرورت 63 لاکھ ٹن تھی۔ اوپنگ اسٹاک ملا کر مجموعی طور پر 13 لاکھ ٹن اضافی چینی موجود تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی بنیاد پر برآمد کی اجازت دی گئی جب بین الاقوامی قیمت 750 ڈالر فی ٹن تھی۔

رانا تنویر نے کہا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ میں وفاقی وزرا کے ساتھ چاروں صوبوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں، اور چینی کی برآمد و درآمد کے فیصلے اسی پلیٹ فارم پر کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان کے دوران چینی 130 روپے فی کلو فروخت ہوئی، جبکہ اس سال گنے کی پیداوار زیادہ متوقع تھی، مگر ہیٹ ویو اور موسمیاتی تبدیلی کے باعث کمی آئی۔

مزید پڑھیں: وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس، چینی کی قیمتوں میں خودساختہ اضافے پر سخت کارروائی کا حکم

اس وقت چینی کا اسٹاک 20 لاکھ میٹرک ٹن ہے جو 15 نومبر تک کے لیے کافی ہے۔ وزیر موصوف نے تسلیم کیا کہ ذخیرہ اندوزی کے باعث قیمتوں میں اضافہ ہوا، جس پر حکومت نے فوری کارروائی کی۔

انہوں نے بتایا کہ فی الوقت ایکس مل قیمت 165 روپے اور ریٹیل قیمت 173 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے۔ کچھ علاقوں میں قیمت کا فرق صرف ٹرانسپورٹ لاگت (کیریج چارجز) کی وجہ سے ہے۔

رانا تنویر نے کہا کہ چینی کی برآمد کے وقت مل مالکان کو صرف 2 روپے مارجن دیا گیا، جب قیمت 136 روپے تھی تو ایکس مل ریٹ 140 اور ریٹیل قیمت 145 مقرر کی گئی۔ اگرچہ مارجن کم تھا، لیکن حکومت نے عوامی مفاد میں محدود اضافے کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ اکتوبر میں چینی کی برآمد کے وقت بھی 5 لاکھ میٹرک ٹن کا اضافی اسٹاک سنبھال کر رکھا گیا تاکہ مقامی منڈی میں قلت نہ ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام اباد چینی رانا تنویر حسین وفاقی وزیر صنعت و پیداوار

متعلقہ مضامین

  •  پیکٹا افسران کے مالی اختیارات میں اضافہ
  • ٹیکس وصولی میں اضافہ، ایف بی آر کا جولائی کا ہدف عبور
  • ملک میں چینی کا کوئی بحران نہیں، قیمتوں میں اضافہ ذخیرہ اندوزی کا نتیجہ ہے، وفاقی وزیر صنعت و پیداوار
  • کراچی :گوادر کیلئے مزید دو پروازیں بحال ہوگئیں
  • پی آئی اے ہولڈنگ کے منافع میں 42.90 فیصد اضافہ
  • روزانہ ایک کھرب 41ارب روپے کما کر مارک زکربرگ اور جیف بیزوز سے زیادہ امیر بن جانے والا شخص
  • حکومت نے کم از کم ماہانہ تنخواہ میں اضافہ کر دیا
  • انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ
  • ہیومن رائٹس کمیشن کا تنخواہ دار طبقے کیلئے کم از کم اجرت 75ہزار روپے مقرر کرنے کا مطالبہ
  • عوام پر مہنگائی کے بم گرنے کا سلسلہ جاری