Islam Times:
2025-11-02@19:20:43 GMT

وعدہ صادق 3 کے چند پیغام

اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT

وعدہ صادق 3 کے چند پیغام

اسلام ٹائمز: ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے مرکزی علاقوں پر تابڑ توڑ حملوں نے خطے کو ایک نئی صورتحال میں داخل کر دیا ہے جس سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ ایران نے وعدہ صادق 3 آپریشن کے آغاز سے غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ جہنم کے دروازے کھل چکے ہیں اور اب نئے مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس مرحلے کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ "آج کے بعد اسرائیل کے مقابلے میں کوئی سرخ لکیر وجود نہیں رکھتی۔" اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم گذشتہ کئی عشروں سے امریکہ کی حمایت اور مدد سے ایران کے اندر فتنہ انگیزی کرتی آئی ہے اور جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ جیسے مجرمانہ اقدامات کا ارتکاب کرتی رہی ہے۔ لیکن اس بار صیہونی رژیم نے واضح طور پر ایران کی خودمختاری اور قومی سالمیت کو نشانہ بنایا جس کے ردعمل میں ایران نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔ تحریر: علی احمدی
 
ایسے وقت جب پوری دنیا کی توجہ غزہ میں جاری تباہ کن جنگ پر مرکوز تھی خطے کا منظرنامہ اچانک بدلا اور غاصب صیہونی رژیم کی جارحیت کے بعد ایران اور صیہونی رژیم میں فوجی ٹکراو شروع ہو گیا۔ ایران نے صیہونی رژیم کی جارحیت کا جواب دیتے ہوئے وعدہ صادق 3 آپریشن شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس آپریشن کا پہلا مرحلہ جمعہ 13 جون کی رات شروع ہوا جس میں ایران نے گائیڈڈ میزائلوں کے ذریعے صیہونی مرکز تل ابیب اور دیگر حساس اور اسٹریٹجک صیہونی مراکز کو کامیابی سے نشانہ بنایا۔ اس کے بعد ایران کی جانب سے اب تک اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملوں کے 8 مرحلے انجام پا چکے ہیں۔ وعدہ صادق 3 آپریشن کا سب سے پہلا اور واضح پیغام یہ ہے کہ ایران کے اسٹریٹجک صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور اب اسرائیل کے شیطنت آمیز اقدامات کے انتقام کا وقت آن پہنچا ہے۔
 
ایران کی جانب سے مقبوضہ فلسطین کے مرکزی علاقوں پر تابڑ توڑ حملوں نے خطے کو ایک نئی صورتحال میں داخل کر دیا ہے جس سے واپسی ممکن نہیں ہے۔ ایران نے وعدہ صادق 3 آپریشن کے آغاز سے غاصب صیہونی رژیم اور اس کے حامیوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ جہنم کے دروازے کھل چکے ہیں اور اب نئے مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس مرحلے کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ "آج کے بعد اسرائیل کے مقابلے میں کوئی سرخ لکیر وجود نہیں رکھتی۔" اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم گذشتہ کئی عشروں سے امریکہ کی حمایت اور مدد سے ایران کے اندر فتنہ انگیزی کرتی آئی ہے اور جوہری سائنسدانوں کی ٹارگٹ کلنگ جیسے مجرمانہ اقدامات کا ارتکاب کرتی رہی ہے۔ لیکن اس بار صیہونی رژیم نے واضح طور پر ایران کی خودمختاری اور قومی سالمیت کو نشانہ بنایا جس کے ردعمل میں ایران نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے۔
 
ایران کی جانب سے وعدہ صادق 3 آپریشن محض ایک انتقامی کاروائی نہیں ہے بلکہ ایران کی حکمت عملی میں تبدیلی کی واضح علامت ہے۔ ایران دفاعی پوزیشن سے نکل کر جارحانہ پوزیشن میں آ چکا ہے۔ ایران نے صیہونی رژیم کو براہ راست میزائل حملوں کا نشانہ بنا کر واضح کر دیا ہے کہ اس کی قومی سلامتی کو خطرے کا شکار کرنے کی قیمت بہت بھاری ہے اور اسرائیل کے لیے اس کے مہلک اور تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ وعدہ صادق 3 آپریشن کے چند اہم پیغام درج ذیل ہیں:
1)۔ ایران ہر جارحیت کا جواب دینے اور ڈیٹرنس برقرار رکھنے کی طاقت رکھتا ہے۔ لہذا صیہونی رژیم کے گستاخانہ اقدامات کا فوری جواب دیا گیا اور اس کے مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔
2)۔ ایران نے ثابت کر دیا کہ امریکہ کی جانب سے اسے اپنے ناجائز مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر دینے کی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔
 
3)۔ ایران نے خطے میں اپنے تمام اتحادیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسٹریٹجک صبر کا مرحلہ ختم ہو چکا ہے اور اب ایران صیہونی رژیم کے خلاف ٹکراو کی اعلانیہ قیادت کرنے کے لیے تیار ہے۔
دوسری طرف امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم اس خام خیالی کا شکار تھے کہ وہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات کے ذریعے اسے اپنے سامنے گھٹنے ٹیک دینے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ ایران خطے میں ایک بڑا محاذ ہے جو مغربی تسلط اور توسیع پسندانہ عزائم اور پالیسیوں میں بڑی رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی جانب سے "نیو مڈل ایسٹ" نامی منصوبے میں اہم رکاوٹ ایران ہی ہے۔ لہذا امریکی اور صیہونی حکام نے خطے میں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے فوجی طاقت کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور ایران نے اس کے سامنے جھکنے کی بجائے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
 
صیہونی حکمران اور ماہرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنے لگے ہیں کہ وہ ایران کو جھکانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ صیہونی پارلیمنٹ، کینسٹ کے رکن اورن ہازان نے صیہونی چینل 15 کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا: "کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ ایران جیسی سپر پاور گھٹنے ٹیک دے گی؟ ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایرانیوں نے گذشتہ چالیس برس کے دوران اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور وہ ہر گز نہیں جھکیں گے۔ ہم نے حتی غزہ میں بھی اس حقیقت کا مشاہدہ کیا ہے کہ ڈیڑھ سال جنگ کے بعد بھی حماس نے ہتھیار نہیں پھینکے اور سفید جھنڈا نہیں لہرایا۔" وہ حالات جو صیہونی حکمرانوں نے خود پیدا کیے ہیں، انہوں نے ہی اس رژیم کو بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ صیہونی رژیم اپنی ناجائز پیدائش کے بعد پہلی بار خود کو میزائلوں کے گھیرے میں محسوس کر رہی ہے۔
 
خطے کے موجودہ حالات سے متعلق پہلا اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران اب مذاکرات کی میز پر واپس نہیں لوٹے گا بلکہ اس کے برعکس عین ممکن ہے خطے میں امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنا کر جنگ کا دائرہ مزید بڑھا دے اور حتی آبنائے ہرمز بھی بند کر دے۔ یہ اقدام تیل کی عالمی منڈی میں ایک شدید بحران جنم دینے کے لیے کافی ہے اور فوجی شعبے سے ہٹ کر دیگر شعبے بھی متزلزل ہو جائیں گے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران وسیع پیمانے پر جنگ نہیں چاہتا لیکن چونکہ غاصب صیہونی رژیم کے شیطنت آمیز اقدامات پر عالمی برادری نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے لہذا اس کے خلاف ڈیٹرنس برقرار رکھنے کے لیے فوجی اقدامات ضروری سمجھتا ہے۔ اگر امریکہ صیہونی رژیم کو موجودہ دلدل سے نجات دلانا چاہتا ہے تو اسے اس پر جارحانہ اقدامات روکنے کے لیے فوری دباو ڈالنا چاہیے ورنہ خطہ ایسے تناو میں داخل ہو جائے گا جس سے نکلنا مشکل ہو گا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غاصب صیہونی رژیم ایران کی جانب سے نشانہ بنایا اسرائیل کے دیا ہے کہ کر دیا ہے ایران نے ایران کے کو نشانہ کہ ایران یہ ہے کہ نہیں ہے کے خلاف اور اس کے لیے اور اب ہے اور کے بعد

پڑھیں:

کس پہ اعتبار کیا؟

اسلام ٹائمز: ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔ تحریر: پروفیسر سید تنویر حیدر نقوی

اسلامی انقلاب سے قبل ایران اور اسرائیل کے مابین  تعلقات استوار تھے۔ ایران میں اسرائیل کا سفارت خانہ قائم تھا۔ امام خمینی کی قیادت میں انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کے افق میں مشرق مغرب کا فرق آگیا۔ اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ایران اور اسرائیل کے مابین تعلقات کی بساط  بھی لپٹ گئی۔ جو ایران کبھی اسرائیل سے یگانگت رکھتا تھا اب اس کی اسرائیل سے مخاصمت اس کی پہچان اور اسرائیل سے دشمنی اس کے ایمان کا تقاضا ٹھہری۔

ایران اب آزادیء فلسطین کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کو کسی مقبوضہ علاقے کی آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کی بجائے الہی فریضہ کے طور پر دیکھنے لگا۔ امام خمینی فلسطینیوں کی کامیابی کو محض ان کے اسلامی تشخص اور ان کی دین سے وابستگی میں دیکھتے تھے۔ جب کہ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی تنظیم ”پی ایل او“ بنیادی طور پر سیکولر تشخص کی حامل تحریک تھی جس کا مقصد محض فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا تھا۔

ایران کا اسلامی انقلاب جس نوع کی فکر کا علمبردار بن کر آیا تھا وہ فلسطینیوں کی اس وقت کی قیادت کو کسی طور بھی قبول نہیں تھا۔ اسرائیل نے جب یاسر عرفات کی تنظیم ”پی ایل او“ کو لبنان سے نکالنے کے لیے لبنان پر چڑھائی کی تو اس وقت یاسر عرفات نے تمام مسلم ممالک کی افواج سے مدد کی اپیل تھی لیکن اس اپیل پر صرف ایران نے اپنی فوج لبنان بھیجی لیکن یاسر عرفات نے ایرانی فوج کو نہ صرف اسرائیل سے لڑنے کی اجازت نہیں دی بلکہ خود اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی تنظیم کے ساتھ لبنان سے رخصت ہوگئے۔

ایران کی مدد کو مسترد کرنے کی وجہ ایک ہی تھی اور وہ یہ کہ یاسر عرفات کو خطرہ تھا کہ کہیں فلسطینی ایران کے انقلابی نظریات سے متاثر نہ ہو جائیں۔ ایران کی اسلامی حکومت شروع دن سے ہی مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت کی مخالفت میں حالت جنگ میں ہے اور قربانیاں دے رہی ہے لیکن اس کے باوجود فلسطینیوں کی نمائندہ جماعتیں کبھی بھی اسے اس کا اصل مقام دینے کے لیے آمادہ نہیں رہیں۔ فلسطین کی جماعتوں نے اب تک اسرائیل سے جو معاہدے کیے ہیں وہ ایران کو بائی پاس کرکے کیے ہیں۔ مثلاً فلسطینیوں کی سب سے بڑی جماعت ”پی ایل او“ اور اسرائیل  کے مابین جو ”اوسلو امن معاہدہ“ ہوا، ایران کو اس سے الگ رکھا گیا۔

ایران نے اس وقت ہی یہ کہ دیا تھا کہ ایران کو الگ تھلگ کر کے جو بھی معاہدہ کیا جائے گا اس کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی آزادی کے حوالے سے مخلصانہ کردار ادا کرنے والے ایران کے مقابلے میں وقتاً وقتاً نام نہاد کرداروں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن یہ جعلی کردار ایران کے حقیقی کردار کے مقابلے میں آخرکار  فلاپ ہوگئے۔ ایران کے مقابلے میں جو بھی کردار منظر عام پر آیا، چاہے وہ اسامہ بن لادن کی شکل میں ہو، صدام حسین کے روپ میں ہو یا اردگان کی صورت میں، اس نے فلسطینیوں کو ورغلانے کی کوشش کی ہے۔

حتیٰ کہ ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب حماس بھی داعش جیسے گروہ کے دام میں آگئی اور شام میں اس کے اراکین بشار الاسد کے خلاف لڑے۔ ایران اور حزب اللہ نے اس پر حماس سے اپنے راستے جدا کر لیے تھے لیکن بعد میں حماس کو احساس ہوا کہ اس سے غلطی سرزد ہوئی ہے اور پھر دوبارہ ایران سے اس کے تعلقات بحال ہوگئے۔ اب لمحہء موجود میں ایک بار پھر فلسطینی اپنے بعض نام نہاد ہمدردوں کے ٹریپ میں آگئے۔

ایسے میں جبکہ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ ایران کے ایٹمی اثاثوں پر حملہ کر چکا تھا، فلسطینی تنظیموں نے ایران کو ایک طرف رکھتے ہوئے، ٹرمپ کے دھوکے میں آ کر اور قطر، ترکی اور مصر جیسی دوہرے معیار رکھنے والی حکومتوں کو درمیان میں لاکر ایک امن معاہدہ کیا اور اسرائیل کے وہ تمام قیدی چھوڑ دیے جو حماس کے پاس ” ٹرمپ کارڈ “ کے طور پر تھے۔ لیکن اسرائیل نے آخر وہی کچھ کیا جو وہ ہمیشہ سے کرتا آیا ہے اور اپنے وعدے اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر ایک بار پھر آتش و آہن کی بارش شروع کردی ہے اور غزہ کے لوگوں نے جو جشن منایا تھا وہ ایک بار پھر ان کے سوگ میں بدل گیا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر آج آزادیء فلسطین کے لیے لڑنے والی کوئی بھی فلسطینی تحریک یا قیادت، مظلومین جہان کی سب سے بڑی حامی قوت، اسلامی جمہوری ایران سے مکمل ہم آھنگی نہیں رکھتی اور اس کی قیادت، جو تمام عالم اسلام کی حقیقی قیادت ہے، اس کے فرمائے ہوئے کو اپنے لیے حکم کا درجہ نہیں دیتی، عالمی فریب کاروں کے دام فریب میں آتی رہے گی۔

خود آپ اپنی ہی گردن پہ گویا وار کیا
جو معتبر ہی نہ تھا اس پہ اعتبار کیا

متعلقہ مضامین

  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو; وزیراعلیٰ بلوچستان
  • عوام سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کریں گے جو پورا نہ ہو، وزیراعلیٰ بلوچستان
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • ہمارے بلدیاتی نمائندوں نے اختیارات سے بڑھ کر کام کرنے کا وعدہ پورا کیا‘ حافظ نعیم الرحمن
  • غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے
  • افغان طالبان کے جھوٹے بیانات سے حقائق نہیں بدلیں گے، دہشتگردی کیخلاف اقدامات جاری رہیں گے، وزیر دفاع
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • ماتلی ، ڈینگی اور ملیریا کے کیسز میں اضافہ ، کوئی اقدامات نہیں کیے گئے
  • قانون نافذ کرنے والے ادارے شہید عادل حسین کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں، علامہ صادق جعفری
  • قیدیوں کیساتھ صیہونی وزیر داخلہ کے نسل پرستانہ برتاو پر حماس اور جہاد اسلامی کا ردعمل