امکانی طویل جنگ اور مسئلہ فلسطین کا حل
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
کسی بھی جنگ کو اپنی مرضی سے شروع تو کیا جا سکتا ہے مگر اسے اپنی خواہش کے مطابق ختم نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جنگ دو ملکوں اور فریقوں کے درمیان ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک فریق جنگ کی شروعات کرتا ہے اور دوسرا فریق جارحیت یا بدلہ لینے کے لئے جوابی وار کرتا ہے۔ اگر دوسرا ملک تگڑا جواب دے دے تو ہزیمت سے بچنے کے لئے جنگ میں پہل کرنے والا ملک اس پر دوبارہ حملہ کرتا ہے۔ جنگ کسی بھی فریق، پارٹی یا ملک کو سہنی پڑے تو وہ اپنی بقا اور سلامتی کے لئے جارحیت کا جوابی حملہ ہر قیمت پر کرتا ہے، اور حملوں کا یہ عمل دو ملکوں کے درمیان بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اگر یہ جنگ دو مذہبی اور نظریاتی دشمن ملکوں کے درمیان ہو تو، دونوں ممالک کے درمیان یہ جنگ اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک کہ جارح یا دفاع کرنے والے ملک کو فتح یا شکست نہیں ہو جاتی ہے۔
لہٰذا یہ مصدقہ جنگی حقیقت ہے کہ اگر دو ملکوں کے درمیان ایک بار جنگ شروع ہو جائے تو وہ کبھی بھی برابری کی سطح پر ختم نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ دو ملکوں کی جنگ میں جیت ہوتی ہے اور یا پھر ہار ہوتی ہے۔
ایران اسرائیل کی حالیہ جنگ اسرائیل نے ایران پر حملے میں پہل کر کے شروع کی، اب اگر اسرائیل یا ایران چاہیں بھی تو 13 جون کو ایران پر اسرائیلی حملے سے شروع ہونے والی یہ جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوئے بغیر ختم نہیں ہو سکتی ہے۔ چند روز قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ دھمکی نما تحریری بیان جاری کر کے جنگ بندی کا اشارہ دیا کہ، ’’ایران کو بار بار ڈیل کرنے کا موقع دیا، ایران جلد معاہدہ کرے، اِس سے پہلے کہ ایرانی سلطنت کہلائے جانے والے علاقے کا کچھ باقی نہ رہے،‘‘ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کے سٹرٹیجک پارٹنرز بھی رخ بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک روز سعودی عرب نے قابل تحسین اقدام یہ کیا کہ جس کے تحت حکومت نے ایرانی حجاج کو حالات کے بہتر ہونے تک سعودیہ میں ٹھہرنے کی اجازت دے کر انہیں سرکاری مہمانوں کا درجہ دیا۔ اس سے اگلے روز سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ آج پوری اسلامی دنیا ایران کی سپورٹ میں متحد ہے۔ اگرچہ امریکی صدر نے اسرائیل کے حملے سے پہلے مشرق وسطی کا کامیاب دورہ کیا اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور قطر وغیرہ سے فوجی اور سرمایہ کاری کے تاریخی معاہدے کیے۔ لیکن اسرائیلی جارحیت اور ایران کی جوابی کاروائی کے بعد کیا ہوا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی و سینٹ کی قرار دادوں اور وزیر دفاع کے پالیسی خطاب نے امریکی توقعات کی امیدوں پر پانی پھیر دیا!
اسرائیل کے پہلے حملے میں ایران کی فوجی تنصیبات، جرنیلوں، سائنس دانوں اور ایران کے درجنوں معصوم شہریوں کی شہادتوں سے ایران کا جتنا نقصان ہوا اور پھر جس طرح ایران نے اسرائیل پر میزائیلوں اور ڈرونز کے ذریعے شدت سے جوابی حملہ کیا، اور پھر دوسرا حملہ بھی کر ڈالا جس سے تل ابیب اور حیفہ لرز اٹھے، اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ ماضی کے برعکس ایران اسرائیل کے درمیان حقیقی دشمنی کی یہ جنگ، جیسا کہ ماضی میں کہا جاتا تھا، کم از کم ’’نورا کشتی‘‘ نہیں ہے جسے ایران، اسرائیل یا امریکہ چاہیں بھی تو وہ کسی فیصلہ کن موڑ پر پہنچے بغیر ختم نہیں کر سکتے ہیں۔
ایک رائے یہ ہے کہ ایران کے پاس پندرہ سو سے دو ہزار میزائلوں کا محدو ذخیرہ ہے اور جب وہ ختم ہو گا تو جنگ فطری طور پر ختم ہونے کے قریب پہنچ جائے گی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی جنگی صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو ’’ایں خیال است و محال است‘‘ کے مصداق، جنگ بندی آسانی سے نہیں ہو گی۔ ایران کو جہاں اسلحہ کی رسد اس کے اتحادی پہنچائیں گے، وہاں ایران وقت آنے پر’’آبنائے ہرمز‘‘ کا راستہ بند کرے گا جس سے دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں دگنی ہو جائیں گی اور اسرائیل کے اتحادیوں سمیت عالمی معیشت کو بھی اتنا بڑا جھٹکا لگے گا کہ صرف اسی ایک جھٹکے کے اثرات سے نکلتے دنیا کو کم و بیش دو سال سے زیادہ کا عرصہ لگے گا۔ اس دوران ایران اسرائیل کے خلاف ’’گوریلا وار‘‘ شروع کر سکے گا۔ اگر امریکہ سمیت اسرائیل کے جنگی اتحادی جنگ میں کود پڑے یا انہوں نے آیت اللہ کی حکومت بظاہر ختم بھی کر لی (جیسا کہ وہ چاہتے ہیں) تو اس کا دائرہ تہران تک محدود ہو گا اور وہ بھی افغانستان کے کرزئی کی حکومت جیسی مظلوم حکومت ہو گی اور آیت اللہ کی گوریلہ وار جس کا نشانہ نرم مغربی اور اسرائیلی ٹارگٹس ہوا کریں گے، اس سے مڈل ایسٹ میں بھی وہ شورش برپا ہوگی جس سے عرب بادشاہتوں کے پائوں اکھڑ سکتے ہیں۔ ( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیل کے کے درمیان دو ملکوں ختم نہیں نہیں ہو کرتا ہے یہ جنگ
پڑھیں:
تہران کیلئے بہت بڑی خبر،دو اہم ترین ملک ایران کیساتھ کھڑے ہو گئے
تہران (نیوز ڈیسک ) سعودی عرب اور قطر کا اسرائیلی جارحیت کے دوران ایران کی حمایت کا اعلان ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا ایرانی صدر مسعود پزشکیان کو ٹیلی فون،کہااسرائیلی حکومت ایران سے تنازع بڑھانا چاہتی ہے تاکہ امریکا جنگ میں شامل ہو،امیر قطرشیخ تمیم کا بھی ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان کو فون ، ایران کیخلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی ۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر پیوٹن کے درمیان ٹیلی فونک رابط، ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ ختم کرنے پر اتفاق،پیوٹن کی ایران پر اسرائیلی حملوں کی مذمت،50منٹ طویل گفتگومیں دونوں رہنماؤں نے ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا،کریملن حکام کے مطابق دونوں صدور نے ایران جوہری مذاکرات کی بحالی کے امکان کو رد نہیں کیا، ٹرمپ نےبتایا کہ امریکی مذاکرات کار ایرانی نمائندوں کے ساتھ کام دوبارہ شروع کرنےکیلئے تیار ہیں۔
ایران مذاکرات کیلئے تیار تھا،ٹرمپ نے نیتن یاہو کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کیا،آپ لوگ سچ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں،ایران کی مذاکراتی ٹیم کے سابق ایڈوائزر پروفیسر سید محمد مرانڈی نے سکائی نیوز کی اینکر کو آئینہ دکھا دیا ،کہا حملے سے ایک رات پہلے ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے،آپ کی نظر میں جارحیت،سویلین عمارتوں اور سویلینز کو نشانہ بنانا کیا ایک اچھا اور مہذب فعل ہے،جس بلڈنگ میں ہمارے کمانڈرز کو نشانہ بنایا گیا وہاں 60سویلینز بھی مارے گئے،جس کی آپ جیسے لوگوں کیلئے کوئی اہمیت نہیں۔
مزید پڑھیں :اسرائیل کا ایرانی حملے میں آئل ریفائنری کو نقصان پہنچنے کا اعتراف