کیا بنگلہ دیش’معتبر‘ انتخابات کے لیے تیار ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جون 2025ء) بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس نے حال ہی میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنما سے ملاقات کی، جن کی آئندہ برس منعقد کیے جانے والے انتخابات میں کامیابی کی توقع کی جا رہی ہے۔ طارق رحمان، جو پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، بی این پی کے قائم مقام چیئرمین ہیں۔
بی این پی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، جس کی قیادت ان کی والدہ اور سابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیاء نے کئی دہائیوں تک کی۔برطانوی دارالحکومت لندن میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی، جب بنگلہ دیش میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہے۔ جنوبی ایشیا کی یہ ریاست انتہائی بحرانی صورتحال اور بغاوت کے نتیجے میں اگست 2024 ء میں سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد سے شدید سیاسی کشیدگی کا شکار ہے۔
(جاری ہے)
اصلاحات ناگزیر ہیںبی این پی کی طرف سے ملک میں عام انتخابات دسمبر 2025ء میں منعقد کیے جانے پر زور دیا جا رہا تھا، جبکہ عبوری حکومت یہ انتخابات اپریل 2026ء میں منعقد کرانا چاہتی ہے، حکومتی موقف ہے کہ ان انتخابات سے قبل بہت سی اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے وقت درکار ہے۔
یونس اور رحمان نے اب اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اگر اصلاحات پر خاطر خواہ پیش رفت ہوئی تو فروری میں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔
ان اصلاحات میں آئینی اصلاحات، انتخابی عمل میں تبدیلیاں، عدلیہ اور پریس کی آزادی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ حکام پر اس بارے میں بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ گزشتہ سال کے بڑے مظاہروں کے متاثرین کو بھی انصاف فراہم کریں۔ ان مظاہروں میں حسینہ اور ان کی عوامی لیگ کی وفادار سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔طلبہ لیڈروں کی طرف سے نئی بنائی گئی نیشنل سیٹیزن پارٹی (این سی پی) کی رہنما تسنیم جارا کا خیال ہے کہ ایک طرف حکومت نے انتخابات کے لیے ابتدائی اقدامات کیے ہیں، دوسری طرف ''ادارہ جاتی تیاری ہنوز ناہموار ہے۔
‘‘انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اہم انتخابی ڈھانچہ جیسے کہ ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن، ایک غیر جانبدار سول انتظامیہ اور ایک آزاد عدلیہ کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قابل اعتماد انتخابات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا سیاسی جماعتیں اصلاحاتی پیکج پر جلد متفق ہو سکتی ہیں یا نہیں اور کیا اس پیکج پر بروقت عمل درآمد ہوتا ہے؟‘‘
سابق حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں کو مجرمانہ الزامات کا سامنارواں سال اقوام متحدہ کے ''فیکٹ فائنڈنگ مشن‘‘ نے اس امر کا اندازہ لگایا تھا کہ بنگلہ دیش کی سابقہ حکومت اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے گزشتہ موسم گرما میں مظاہرین کے خلاف منظم طریقے سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں اور یہ کہ وہ مبنیہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
پانچ اگست 2024ء میں حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہو کر بھارت پہنچنے کے بعد سے سابقہ وزیر اعظم اور ان کے اتحادیوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج کیے گئے۔ ان کی عوامی لیگ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز گزشتہ سال کے کریک ڈاؤن کے بعد سے اپنی ساکھ کھو چکی ہیں، جس کی وجہ سے سکیورٹی کی صورتحال میں مزید خرابی پیدا ہوئی ہے۔
برطانیہ میں قائم لندن یونیورسٹی کے مشرقی اور افریقی علوم کے سکول ( ایس او اے ایس) سے وابستہ پروفیسر نومی حسین کے مطابق بنگلہ دیش پر حکومت کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،''شیخ حسینہ کے دور میں ان کی طاقت کے استعمال سے کم از کم نظم و ضبط کی کچھ جھلک نظر آتی تھی۔‘‘
پروفیسر نومی نے مزید کہا،''حسینہ کی برطرفی کے بعد سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے وہ ''کوئی تعجب کی بات نہیں‘‘ہے اور اس وقت امن و امان ''ایک مسئلہ‘‘ہے۔
کیا عوامی لیگ الیکشن میں حصہ لے سکے گی؟گزشتہ ماہ ایک خصوصی ٹربیونل کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پروفیسر حسین سمیت بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی اس سب سے پرانی جماعت کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جانی چاہیے کیونکہ اس حقیقت کے باوجود کہ اس کے بہت سے رہنماؤں پر ''متعدد جرائم کا معتبر الزام ہے‘‘ اسے اب بھی وسیع حمایت حاصل ہے۔
حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''بی این پی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسے ملک بھر میں خاص طور پر دیہی علاقوں اور اقلیتی گروپوں اور خواتین میں بہت زیادہ حمایت حاصل ہے۔ ان پر پابندی لگانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔‘‘
ادارت: شکور رحیم
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بنگلہ دیش عوامی لیگ بی این پی کے بعد سے کے خلاف کے لیے
پڑھیں:
مذہبی جنونی رہبر دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئے
مذہبی جنونی رہبر دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئے WhatsAppFacebookTwitter 0 15 June, 2025 سب نیوز
تحریر سجاد بھٹی
ایک سیاستدان جنگی بیانیہ اختیار کرتا ہے، تو عموما مقصد قومی سلامتی نہیں بلکہ قومی جذبات کو ابھار کر اپنے حق میں سیاسی رائے عامہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔جب معیشت گرتی ہے، بیروزگاری بڑھتی ہے، عوام سوال کرنے لگتے ہیں تب ایک دشمن تلاش کر کے، جنگی ماحول پیدا کر کے ووٹروں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی جاتی ہے۔یہی حربہ ہٹلر نے آزمایا، یہی کھیل مشرق وسطی میں کھیلا گیا، اور اب ایک بار پھر دنیا کے مختلف حصوں میں قوم پرستی اور مذہبی تعصبات کے نام پر ہتھیاروں کو گرم کیا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا چند ہزار یا چند لاکھ ووٹوں کے لیے کروڑوں انسانوں کی جانوں کو داو پر لگایا جا سکتا ہے؟ کیا ایک قوم کی انا، دوسری اقوام کے بچوں، عورتوں اور بیگناہوں کی لاشوں سے سیراب کی جائے گی؟سیاست کا اصل مقصد تو عوام کی فلاح، امن، تعلیم اور خوشحالی تھا، مگر جب سیاست طاقت کا کھیل بن جائے، تو پھر امن سب سے بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔
نریندر مودی مسلسل تیسری مدت کے لیے انڈیا کے وزیر اعظم بن کر تاریخ رقم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن بہار میں انتخابی مہم کیلئے چالیس جلسے کرنے کے باوجود چالیس نشستیں ہار گئے۔ نر یندر مودی کی بھارتی سرکار چار برس سے زائد کا عرصہ مکمل کر چکی ہے اور ملک میں نئے انتخابات کی آمد آمد ہے آئندہ برس مئی میں بھارت میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے اور وزیراعظم نریندر مودی ان انتخابات میں دوبارہ فتح حاصل کرنے کے لیے اپنی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ متحرک ہیں، تاہم ملک میں ملازمتوں کی کٹوتی، زرعی شعبے میں اجناس کی گرتی قیمتوں، دیہی علاقوں میں آمدن میں کمی اور اصلاحات کے نام پر ٹیکسز کی بھرمار کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔بھارتی روپے کی قدر میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ روپے کی قدر میں اسی ریکارڈ کمی کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہوا۔ اسی تناظر میں بھارت میں بڑے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھے گئے۔
نر یندر مودی کی شہرت روز بروزگھٹنے لگی ہے اور کاروباری حلقوں میں یہ مشہور ہو چکاہے کہ مودی کی وزارت عظمی سے پہلے دنیا بھر میں ان کے دیش کو شائننگ انڈیا کے نام سے پکارا جاتا تھا لیکن آج بنیاد پرست اور انتہا پسند بھارت کے نام سے پکارا جا رہا ہے ۔
جیسے نر یندر مودی نے اپنی گرتی شہرت کو بچانے کے لیے پاکستان پر حملہ کیا اور منہ کی کھانی پڑی اور دنیا میں بھارت کی رسوا ئی کا سبب بنا اسی روش کو اب اسرائیل کی حکومت اپنا رہی ہے
بارہ جون کواپوزیشن نے نیتن یاہو کی حکومت گرانے کے لیے پارلیمنٹ میں بل پیش کیا جسے مسترد کر دیا گیا۔اس بل سے فوری انتخابات کی راہ ہموار ہو سکتی تھی لیکن وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو صرف آٹھ ووٹوں سے حکومت بچانے میں کامیاب ہو گئے۔اپوزیشن کی ووٹنگ میں ناکامی کے بعد اب انہیں دوبارہ ایسا بل پیش کرنے کے لیے 6 ماہ انتظار کرنا ہوگا۔
نیتن یاہو نے اپنی مقبولیت کو بحال کرنے کے لیے دوسرے دن ہی تیرہ جون کو ایران کے ساتھ جنگ کا اعلان کرتے ہوئے آپریشن رائزنگ لائن کا آغازکردیا اور ایران کے جوہری اور عسکری قیادت کو نشانہ بنایا۔جس سے مشرق وسطی کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔اگر اسرا ئیل نے یہی روش جاری رکھی توایک نئی عالمی جنگ چھڑنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا ۔نریندر مودی او نیتن یاہو جیسے مذہبی جنونی رہبر دنیا کے امن کے لیے سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔اسرائیل اور بھارت کی عوام کے ساتھ ساتھ عالی دانشوروں ، صاحب بصیرت ا ور با اثر حلقوں کوچاہیے جتنی جلدی ہوسکے ان دونوں مذہبی جنونیوںکو اقتدار کے ایونوں سے باہر نکالیں تاکہ عالمی امن کو لاحق خطرات سے نکالا جا سکے۔
ہمیں بحیثیت عوام یہ سمجھنا ہو گا کہ اگر ہم نے ووٹ صرف نعروں پر دیا، تو کل ہماری نسلوں کو بارود، بھوک اور بے گھری ورثے میں ملے گی۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم سیاستدانوں سے سوال کریں، ان کے فیصلوں کو عقل اور اخلاق کے ترازو میں تولیں۔ ہمیں جنگ نہیں، امن کی سیاست کرنی ہے ووٹوں کی نہیں، انسانیت کی سیاست کرنی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران، اسرائیل کشیدگی، مختلف ممالک کی فضائی حدود بند، ایئر لائنز کا پاکستانی حدود کا استعمال انصاف خطرے میں،اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی اور ایران پر جارحیت عالمی قانونی اقدامات کی متقاضی ہے ٹیکنالوجی جنگیں جیتتی ہے، انسانیت جانیں ہارتی ہے مسلم دنیا پر مربوط جارحیت عبدالرحمان پیشاوری__ ’عجب چیز ہے لذتِ آشنائی‘ غزہ اور فلسطین: مسلم دنیا کا امتحان بیلٹ اور بندوق: بھارت کے انتخابات پاکستان کے ساتھ کشیدگی پر کیوں انحصار کرتے ہیں؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم