UrduPoint:
2025-11-05@01:01:56 GMT

کیا بنگلہ دیش’معتبر‘ انتخابات کے لیے تیار ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT

کیا بنگلہ دیش’معتبر‘ انتخابات کے لیے تیار ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جون 2025ء) بنگلہ دیش کے عبوری رہنما محمد یونس نے حال ہی میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے رہنما سے ملاقات کی، جن کی آئندہ برس منعقد کیے جانے والے انتخابات میں کامیابی کی توقع کی جا رہی ہے۔ طارق رحمان، جو پندرہ سال سے زیادہ عرصے سے برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، بی این پی کے قائم مقام چیئرمین ہیں۔

بی این پی ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے، جس کی قیادت ان کی والدہ اور سابقہ وزیر اعظم خالدہ ضیاء نے کئی دہائیوں تک کی۔

برطانوی دارالحکومت لندن میں یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی، جب بنگلہ دیش میں سیاسی کشیدگی عروج پر ہے۔ جنوبی ایشیا کی یہ ریاست انتہائی بحرانی صورتحال اور بغاوت کے نتیجے میں اگست 2024 ء میں سابقہ وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد سے شدید سیاسی کشیدگی کا شکار ہے۔

(جاری ہے)

اصلاحات ناگزیر ہیں

بی این پی کی طرف سے ملک میں عام انتخابات دسمبر 2025ء میں منعقد کیے جانے پر زور دیا جا رہا تھا، جبکہ عبوری حکومت یہ انتخابات اپریل 2026ء میں منعقد کرانا چاہتی ہے، حکومتی موقف ہے کہ ان انتخابات سے قبل بہت سی اصلاحات پر عمل درآمد کے لیے وقت درکار ہے۔

یونس اور رحمان نے اب اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اگر اصلاحات پر خاطر خواہ پیش رفت ہوئی تو فروری میں انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔

ان اصلاحات میں آئینی اصلاحات، انتخابی عمل میں تبدیلیاں، عدلیہ اور پریس کی آزادی کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ حکام پر اس بارے میں بھی زور دیا جا رہا ہے کہ وہ گزشتہ سال کے بڑے مظاہروں کے متاثرین کو بھی انصاف فراہم کریں۔ ان مظاہروں میں حسینہ اور ان کی عوامی لیگ کی وفادار سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔

طلبہ لیڈروں کی طرف سے نئی بنائی گئی نیشنل سیٹیزن پارٹی (این سی پی) کی رہنما تسنیم جارا کا خیال ہے کہ ایک طرف حکومت نے انتخابات کے لیے ابتدائی اقدامات کیے ہیں، دوسری طرف ''ادارہ جاتی تیاری ہنوز ناہموار ہے۔

‘‘

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اہم انتخابی ڈھانچہ جیسے کہ ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن، ایک غیر جانبدار سول انتظامیہ اور ایک آزاد عدلیہ کے لیے فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قابل اعتماد انتخابات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آیا سیاسی جماعتیں اصلاحاتی پیکج پر جلد متفق ہو سکتی ہیں یا نہیں اور کیا اس پیکج پر بروقت عمل درآمد ہوتا ہے؟‘‘

سابق حکومتی اور سکیورٹی اہلکاروں کو مجرمانہ الزامات کا سامنا

رواں سال اقوام متحدہ کے ''فیکٹ فائنڈنگ مشن‘‘ نے اس امر کا اندازہ لگایا تھا کہ بنگلہ دیش کی سابقہ ​​حکومت اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے گزشتہ موسم گرما میں مظاہرین کے خلاف منظم طریقے سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں اور یہ کہ وہ مبنیہ طور پر انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہو سکتے ہیں۔

پانچ اگست 2024ء میں حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہو کر بھارت پہنچنے کے بعد سے سابقہ وزیر اعظم اور ان کے اتحادیوں کے خلاف سینکڑوں مقدمات درج کیے گئے۔ ان کی عوامی لیگ پارٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز گزشتہ سال کے کریک ڈاؤن کے بعد سے اپنی ساکھ کھو چکی ہیں، جس کی وجہ سے سکیورٹی کی صورتحال میں مزید خرابی پیدا ہوئی ہے۔

برطانیہ میں قائم لندن یونیورسٹی کے مشرقی اور افریقی علوم کے سکول ( ایس او اے ایس) سے وابستہ پروفیسر نومی حسین کے مطابق بنگلہ دیش پر حکومت کرنا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا،''شیخ حسینہ کے دور میں ان کی طاقت کے استعمال سے کم از کم نظم و ضبط کی کچھ جھلک نظر آتی تھی۔‘‘

پروفیسر نومی نے مزید کہا،''حسینہ کی برطرفی کے بعد سے جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے وہ ''کوئی تعجب کی بات نہیں‘‘ہے اور اس وقت امن و امان ''ایک مسئلہ‘‘ہے۔

کیا عوامی لیگ الیکشن میں حصہ لے سکے گی؟

گزشتہ ماہ ایک خصوصی ٹربیونل کی طرف سے انسانیت کے خلاف جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں عوامی لیگ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ پروفیسر حسین سمیت بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش کی اس سب سے پرانی جماعت کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جانی چاہیے کیونکہ اس حقیقت کے باوجود کہ اس کے بہت سے رہنماؤں پر ''متعدد جرائم کا معتبر الزام ہے‘‘ اسے اب بھی وسیع حمایت حاصل ہے۔

حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''بی این پی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اسے ملک بھر میں خاص طور پر دیہی علاقوں اور اقلیتی گروپوں اور خواتین میں بہت زیادہ حمایت حاصل ہے۔ ان پر پابندی لگانے سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا۔‘‘

ادارت: شکور رحیم

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بنگلہ دیش عوامی لیگ بی این پی کے بعد سے کے خلاف کے لیے

پڑھیں:

جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش

ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی ہند نے بھارت بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے نئی دلی میں پارٹی کے مرکزی دفتر میں ماہانہ پریس کانفرنس کے دوران گفتگو کرتے ہوئے تین حالیہ واقعات کا ذکر کیا، مہاراشٹر میں ایک خاتوں ڈاکٹر کی خودکشی جس نے ایک پولیس افسر پر زیادتی کا الزام لگایا تھا، دلی میں ایک ہسپتال کی ملازمہ جسے ایک جعلی فوجی افسر نے پھنسایا تھا اور ایک ایم بی بی ایس طالبہ جسے نشہ دیکر بلیک میل کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ تمام واقعات بھارتی معاشرے میں بڑے پیمانے پر اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انہوں نے بہار اسمبلی انتخابات میں نفرت انگیز مہم، اشتعال انگیزی اور طاقت کے بیجا استعمال پر بھی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات کا موضوع ریاست کی ترقی، صحت، امن و قانون اور تعلیم ہونا چاہے، الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔

پروفیسر سلیم انجینئر نے کہا کہ ووٹ دینا صرف ایک حق نہیں بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے، یہ جمہوریت کی مضبوطی اور منصفانہ معاشرے کے قیام کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کا انتخاب ان کی کارکردگی، دیانت داری اور عوام مسائل جیسے غربت، بے روزگاری، تعلیم، صحت اور انصاف کی بنیاد پر کریں نہ کہ جذباتی، تفرقہ انگیز یا فرقہ وارانہ اپیلوں کی بنیاد پر۔ نائب امیر جماعت اسلامی نے بھارتی الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ انتخابات کو آزادانہ اور منصفانہ بنانے کیلئے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عملدرآمد کرائے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات 6 اور 11نومبر کو ہو رہے ہیں۔

پریس کانفرنس سے ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سوال رائٹس (اے پی سی آر) کے سیکرٹری ندیم خان نے خطاب میں کہا کہ دلی مسلم کشن فسادات کے سلسلے میں عمر خالد، شرجیل امام اور دیگر بے گناہ طلباء کو پانچ برس سے زائد عرصے سے قید کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل عدالتی عمل کے ذریعے سزا دینے کے مترادف ہے۔ ندیم خان نے کہا کہ وٹس ایپ چیٹس، احتجاجی تقریروں اور اختلاف رائے کو دہشت گردی قرار دینا آئین کے بنیادی ڈھانچے کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالے قانون ”یو اے پی اے“ کے غلط استعمال سے ایک جمہوری احتجاج کو مجرمانہ فعل بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اختلاف رائے کی آزادی جمہوریت کی روح ہے، اس کا گلا گھونٹنا ہمارے جمہوری ڈھانچے کیلئے تباہ کن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش: آزاد کشمیر میں ان ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • بنگلہ دیش: عبوری حکومت کا سیاسی اختلافات پر اظہارِ تشویش، اتفاق نہ ہونے کی صورت میں خود فیصلے کرنے کا عندیہ
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں ڈیڈ لاک برقرار، آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں مسلسل تاخیر کی وجہ سامنے آگئی
  • جماعت اسلامی ہند کا بھارت میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم پر اظہار تشویش
  • عراق الیکشن 2025؛ اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • عراق کے حساس انتخابات کا جائزہ، اسرائیلی امریکی سازشوں کے تناظر میں
  • پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ