Daily Ausaf:
2025-11-03@18:00:48 GMT

امکانی طویل جنگ اور مسئلہ فلسطین کا حل

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کے اتحادی بھی ایران کی اس طرح کی شکست کے حامی نہیں ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں ایران کو ’’ایٹمی پاور‘‘ بنتے نہیں دیکھنا چاہتی ہیں مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتی ہیں کہ ایران کا وجود ختم ہو جائے یا خطے میں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ قائم ہو۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے دوران مغرب، امریکہ اور اسرائیل کے خلاف خطے میں نفرت اور شدت پھیلے گی،مغرب کو یہاں اس سے کئی گنا زیادہ پیسہ لگانا پڑے گا جتنا اس نے افغانستان میں لگایا تھا لیکن یہاں سے مغرب ویسی آسانی سے نکل بھی نہیں پائے گا جیسے وہ افغانستان سے نکلا تھا، کیونکہ روس اور چین نکلنے ہی نہیں دیں گے۔ گزشتہ روز چین نے بھی جنگ میں ایران کی مدد کرنے کا واضح اعلان کر دیا۔ خدانخواستہ کوئی انہونی ہوتی ہے تو مغربی ٹارگٹس میں وہ تباہی پھیلے گی کہ دنیا وہ دہشت گردی بھول جائے گی جو اس نے گزشتہ پچیس سال کے دوران بھگتی ہے۔ ایسا نہ بھی ہوا تو ہم اگلی کئی دہائیوں تک مغرب اور مڈل ایسٹ میں ایسی بدامنی ہو گی کہ اس سارے ماحول میں سب سے زیادہ نقصان اسرائیلیوں کا ہو گا، کوئی اسرائیلی دنیا میں کسی ایک بھی جگہ محفوظ نہیں ہوگا۔
یہ جنگ میرے خیال میں ہفتہ یا دو ہفتہ کے بعد بند نہیں ہو گی بلکہ یہ جنگ عالمی جنگ میں نہ بھی بدلی تو یہ جنگ جتنی دیر بھی رہی اس سے فلسطین اسرائیل کے تنازعہ کے حل کا موقع ضرور پیدا ہو گا کیونکہ اس جنگ کی بنیادی وجہ میں ایران کا حماس اور حزب اللہ کی فوجی اور اخلاقی حمایت کرنا سرفہرست ہے۔ جیسا کہ سعودی عرب نے ایران اسرائیل جنگ کے بعد’’یو ٹرن‘‘ لیا ہے، اس سے مشرق وسطی میں کم از کم’’سٹرٹیجک پارٹنرشپ‘‘ کی نئی صف بندی کا بھی آغاز ہو گا جس میں چین اور روس بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اسرائیل نے اپنے قیام سے اب تک ایک غاصب ریاست کا کردار ادا کیا ہے جس پر گرتے میزائل اور راکٹ دنیا بھر میں مسلمانوں کی نا صرف اجتماعی تسکین بن رہے ہیں بلکہ وہ تصور بھی بدل رہے ہیں جو ان ممالک کو ناقابل شکست اور ناقابل تسخیر پیش کرتا تھا.

یہی طاقت کے زوال کی ابتدا ہوتی ہے۔ پہاڑ جتنا بھی بلند ہو ایک پگڈنڈی بن جائے تو اسے پار کرنے کا راستہ کھل جاتا ہے. ایران اسرائیل کے مقابلے میں کمزور سہی مگر غاضب ریاست پر گرتے ان راکٹوں کا نقصان اعداد میں نہیں اثرات میں نظر آتا دکھائی دے رہا ہے۔
ایران کی لیڈرشپ مسلم عوام کو اس لئے پسند ہیں کہ یہ غیرت مند ہیں، اپنی قوم کے وفادار اور ہمدرد ہیں، دلیر اور بہادر ہیں، سامراج کے آلہ کار، ایجنٹ اور ٹائوٹ نہیں ہیں، آزادی پسند ہیں اور خود مختار ہیں، مظلوم کے حمایتی اور ظالم کے دشمن ہیں۔ جبکہ باقی شہادتیں، تکالیف، مشکلات، کمزوریاں اور پابندیاں خود دار اقوام کی حیات میں آتی رہتی ہیں۔ ایرانی قوم کے عقائد سے مسلم دنیا کا کوئی لینا دینا نہیں، مسلمان سامراج دشمنی کے مداح ہیں اور ہمیشہ اسے سراہتے ہیں۔ اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد ایران کی نیوکلیئر صلاحیت کا خاتمہ تھا، باوجود تمام تر کامیابیوں کے اسرائیل اب تک یہ ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے۔
ابتدائی طور پر گو یہ جنگ ایران اور اسرائیل کے درمیان ہے مگر اس وقت پورا مڈل ایسٹ نشانے پر ہے۔ صرف ایران ڈی سٹیبلائز نہیں ہو گا بلکہ اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کی جنگ کا آغاز تو اپنی مرضی و منشا سے کیا گیا ہے لیکن اس کے نتائج پر ان کا کنٹرول نہیں وہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہوں گے۔
ایران کو طویل جنگ لڑنے کا تجربہ ہے جس نے عراق سے 8سالہ تک جنگ میں اپنے اعصاب پر مکمل قابو رکھا تھا اور وہ جنگ بھی امریکی ایما پر عراق نے ایران پر حملے میں پہل کر کے مسلط کی تھی، جیسا کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے میں پہل کی ہے۔ جنگ عظیم دوم میں بھی جاپان نے امریکہ کی پرل ہاربور پر حملے کی پہل کی تھی جس کے بعد ناگا ساقی اور ہیروشیما پر امریکہ نے ایٹم بم گرائے تھے۔ امریکہ نے شائد جنگی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ہے کہ وہ ایران کو دھمکانے کے بعد آج اسرائیل جیسے جارح ملک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ امریکہ اور مغرب اگر دنیا میں امن چاہتے ہیں تو یہ موقع ہے کہ وہ مشرق وسطی میں مستقل اور پائیدار امن قائم کرنے کے لئے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیئے اسرائیل کی جنگ میں مدد کرنے کی بجائے مذاکرات کی میز پر لے آئیں۔ چونکہ مشرق وسطی دنیا بھر میں امن کی بحالی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ جنگ بندی کرانے کے بعد مسئلہ فلسطین کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں، ورنہ یہ جنگ وقتی طور پر بند بھی ہو جائے تو جہاں لانگ ٹرم امن قائم نہیں ہو گا وہاں خطے میں دوبارہ کھلی جنگ اور گوریلا وار پیچیدگی کے امکان میں مزید اضافہ گا۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل کے ایران کی نہیں ہو یہ جنگ کے بعد

پڑھیں:

امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تہران: ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس وقت تک تعاون ممکن نہیں، جب تک واشنگٹن اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں مداخلت کرے گا اور خطے میں اس کے فوجی اڈے قائم رہیں گے۔

سرکاری میڈیا کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی کبھی کبھار کہتے ہیں کہ وہ تہران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک امریکا صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھے، خطے میں اپنے فوجی اڈے برقرار رکھے اور مداخلت کرتا رہے،

خامنہ ای کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے، جب تہران اس کے لیے تیار ہوگا۔

دونوں ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں، جو جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ سے قبل ہوئے تھے، جس میں واشنگٹن نے بھی اہم ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے حصہ لیا تھا۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
  • فلسطین کے مسئلہ پر پاکستان اور ترکیہ مل کر کام جاری رکھیں گے
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • اسحاق ڈار کی ترک ہم منصب سے ملاقات، مسئلہ فلسطین سمیت مختلف امورپر تبادلہ خیال
  • کس پہ اعتبار کیا؟
  • علاقائی عدم استحکام کی وجہ اسرائیل ہے ایران نہیں, عمان
  • فلسطین کے گرد گھومتی عالمی جغرافیائی سیاست
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران