Daily Ausaf:
2025-08-02@23:16:47 GMT

امکانی طویل جنگ اور مسئلہ فلسطین کا حل

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کے اتحادی بھی ایران کی اس طرح کی شکست کے حامی نہیں ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں ایران کو ’’ایٹمی پاور‘‘ بنتے نہیں دیکھنا چاہتی ہیں مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتی ہیں کہ ایران کا وجود ختم ہو جائے یا خطے میں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ قائم ہو۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے دوران مغرب، امریکہ اور اسرائیل کے خلاف خطے میں نفرت اور شدت پھیلے گی،مغرب کو یہاں اس سے کئی گنا زیادہ پیسہ لگانا پڑے گا جتنا اس نے افغانستان میں لگایا تھا لیکن یہاں سے مغرب ویسی آسانی سے نکل بھی نہیں پائے گا جیسے وہ افغانستان سے نکلا تھا، کیونکہ روس اور چین نکلنے ہی نہیں دیں گے۔ گزشتہ روز چین نے بھی جنگ میں ایران کی مدد کرنے کا واضح اعلان کر دیا۔ خدانخواستہ کوئی انہونی ہوتی ہے تو مغربی ٹارگٹس میں وہ تباہی پھیلے گی کہ دنیا وہ دہشت گردی بھول جائے گی جو اس نے گزشتہ پچیس سال کے دوران بھگتی ہے۔ ایسا نہ بھی ہوا تو ہم اگلی کئی دہائیوں تک مغرب اور مڈل ایسٹ میں ایسی بدامنی ہو گی کہ اس سارے ماحول میں سب سے زیادہ نقصان اسرائیلیوں کا ہو گا، کوئی اسرائیلی دنیا میں کسی ایک بھی جگہ محفوظ نہیں ہوگا۔
یہ جنگ میرے خیال میں ہفتہ یا دو ہفتہ کے بعد بند نہیں ہو گی بلکہ یہ جنگ عالمی جنگ میں نہ بھی بدلی تو یہ جنگ جتنی دیر بھی رہی اس سے فلسطین اسرائیل کے تنازعہ کے حل کا موقع ضرور پیدا ہو گا کیونکہ اس جنگ کی بنیادی وجہ میں ایران کا حماس اور حزب اللہ کی فوجی اور اخلاقی حمایت کرنا سرفہرست ہے۔ جیسا کہ سعودی عرب نے ایران اسرائیل جنگ کے بعد’’یو ٹرن‘‘ لیا ہے، اس سے مشرق وسطی میں کم از کم’’سٹرٹیجک پارٹنرشپ‘‘ کی نئی صف بندی کا بھی آغاز ہو گا جس میں چین اور روس بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اسرائیل نے اپنے قیام سے اب تک ایک غاصب ریاست کا کردار ادا کیا ہے جس پر گرتے میزائل اور راکٹ دنیا بھر میں مسلمانوں کی نا صرف اجتماعی تسکین بن رہے ہیں بلکہ وہ تصور بھی بدل رہے ہیں جو ان ممالک کو ناقابل شکست اور ناقابل تسخیر پیش کرتا تھا.

یہی طاقت کے زوال کی ابتدا ہوتی ہے۔ پہاڑ جتنا بھی بلند ہو ایک پگڈنڈی بن جائے تو اسے پار کرنے کا راستہ کھل جاتا ہے. ایران اسرائیل کے مقابلے میں کمزور سہی مگر غاضب ریاست پر گرتے ان راکٹوں کا نقصان اعداد میں نہیں اثرات میں نظر آتا دکھائی دے رہا ہے۔
ایران کی لیڈرشپ مسلم عوام کو اس لئے پسند ہیں کہ یہ غیرت مند ہیں، اپنی قوم کے وفادار اور ہمدرد ہیں، دلیر اور بہادر ہیں، سامراج کے آلہ کار، ایجنٹ اور ٹائوٹ نہیں ہیں، آزادی پسند ہیں اور خود مختار ہیں، مظلوم کے حمایتی اور ظالم کے دشمن ہیں۔ جبکہ باقی شہادتیں، تکالیف، مشکلات، کمزوریاں اور پابندیاں خود دار اقوام کی حیات میں آتی رہتی ہیں۔ ایرانی قوم کے عقائد سے مسلم دنیا کا کوئی لینا دینا نہیں، مسلمان سامراج دشمنی کے مداح ہیں اور ہمیشہ اسے سراہتے ہیں۔ اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد ایران کی نیوکلیئر صلاحیت کا خاتمہ تھا، باوجود تمام تر کامیابیوں کے اسرائیل اب تک یہ ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے۔
ابتدائی طور پر گو یہ جنگ ایران اور اسرائیل کے درمیان ہے مگر اس وقت پورا مڈل ایسٹ نشانے پر ہے۔ صرف ایران ڈی سٹیبلائز نہیں ہو گا بلکہ اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کی جنگ کا آغاز تو اپنی مرضی و منشا سے کیا گیا ہے لیکن اس کے نتائج پر ان کا کنٹرول نہیں وہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہوں گے۔
ایران کو طویل جنگ لڑنے کا تجربہ ہے جس نے عراق سے 8سالہ تک جنگ میں اپنے اعصاب پر مکمل قابو رکھا تھا اور وہ جنگ بھی امریکی ایما پر عراق نے ایران پر حملے میں پہل کر کے مسلط کی تھی، جیسا کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے میں پہل کی ہے۔ جنگ عظیم دوم میں بھی جاپان نے امریکہ کی پرل ہاربور پر حملے کی پہل کی تھی جس کے بعد ناگا ساقی اور ہیروشیما پر امریکہ نے ایٹم بم گرائے تھے۔ امریکہ نے شائد جنگی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ہے کہ وہ ایران کو دھمکانے کے بعد آج اسرائیل جیسے جارح ملک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ امریکہ اور مغرب اگر دنیا میں امن چاہتے ہیں تو یہ موقع ہے کہ وہ مشرق وسطی میں مستقل اور پائیدار امن قائم کرنے کے لئے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیئے اسرائیل کی جنگ میں مدد کرنے کی بجائے مذاکرات کی میز پر لے آئیں۔ چونکہ مشرق وسطی دنیا بھر میں امن کی بحالی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ جنگ بندی کرانے کے بعد مسئلہ فلسطین کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں، ورنہ یہ جنگ وقتی طور پر بند بھی ہو جائے تو جہاں لانگ ٹرم امن قائم نہیں ہو گا وہاں خطے میں دوبارہ کھلی جنگ اور گوریلا وار پیچیدگی کے امکان میں مزید اضافہ گا۔

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیل کے ایران کی نہیں ہو یہ جنگ کے بعد

پڑھیں:

ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت

انتہاء پسند امریکی صدر کیساتھ لفظی جھگڑے کے بعد سابق روسی صدر نے اسرائیل و امریکہ کیساتھ ایرانی جنگ کی یاددہانی کرواتے ہوئے واشنگٹن و تل ابیب کے اقدامات کی شدید مذمت کی ہے اسلام ٹائمز۔ روسی سلامتی کونسل کے نائب سربراہ و سابق روسی صدر دیمتری میدویدیف نے ایران و اسرائیل کے درمیان کشیدگی اور اس دوران امریکی مداخلت کی یاد دہانی کرواتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ یہ تنازعات جوہری مسائل سے متعلق ہیں اور خطے کے تمام ممالک کے لئے انتہائی خطرناک ہیں۔ روسی خبررساں ایجنسی ٹاس (TASS) کے مطابق، سابق روسی صدر نے ایران کے خلاف امریکی اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے تاکید کی کہ بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں.. ہم مشرق وسطی کی صورتحال، خاص طور پر اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی کے ساتھ ساتھ امریکہ کے اقدامات سے بھی آگاہ ہیں.. یہاں، اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس طرح کے رویّے کے جواز کا مسئلہ واضح طور پر سامنے آتا ہے! دیمتری میدویدیف نے مزید کہا کہ علاوہ ازیں پوری صورتحال انتہائی پیچیدہ تھی کیونکہ اس تنازعے کا موضوع جوہری مسائل تھے جبکہ قدرتی طور پر یہ اَمر تمام ہمسایہ ممالک کے لئے بھی ایک خطرناک مسئلہ تھا۔ 

متعلقہ مضامین

  • کیا غزہ میں جاری جرائم کی مذمت کافی ہے؟
  • حماس نے ہتھیار ڈالنے کو فلسطین کی آزادی سے مشروط کردیا
  • فلسطینی ریاست کے لیے پیش رفت، خوش آیند
  • فلسطین لبریشن آرگنائزیشن پر امریکی پابندیاں حیران کن ہیں، چینی وزارت خارجہ
  • غزہ کی صورت حال پر پوری دنیا کو بیدار ہونا پڑے گا، حاجی حنیف طیب
  • امریکہ کا ٹیرف اور پابندیاں لگانے کا اصل ہدف دنیا سے اسرائیل کو منوانا ہے، علامہ جواد نقوی
  • امریکا نے فلسطین اتھارٹی اور پی ایل او پر پابندیاں عائد کردیں
  • ایران کیخلاف امریکی و اسرائیلی اقدامات کی روس کیجانب سے شدید مذمت
  • اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کے لیے ’نیو یارک اعلامیہ‘ جاری
  • فرانس کا فلسطین پرنیاموقف