امکانی طویل جنگ اور مسئلہ فلسطین کا حل
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطی میں امریکہ کے اتحادی بھی ایران کی اس طرح کی شکست کے حامی نہیں ہو سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں ایران کو ’’ایٹمی پاور‘‘ بنتے نہیں دیکھنا چاہتی ہیں مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتی ہیں کہ ایران کا وجود ختم ہو جائے یا خطے میں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ قائم ہو۔
اس مقصد کو حاصل کرنے کے دوران مغرب، امریکہ اور اسرائیل کے خلاف خطے میں نفرت اور شدت پھیلے گی،مغرب کو یہاں اس سے کئی گنا زیادہ پیسہ لگانا پڑے گا جتنا اس نے افغانستان میں لگایا تھا لیکن یہاں سے مغرب ویسی آسانی سے نکل بھی نہیں پائے گا جیسے وہ افغانستان سے نکلا تھا، کیونکہ روس اور چین نکلنے ہی نہیں دیں گے۔ گزشتہ روز چین نے بھی جنگ میں ایران کی مدد کرنے کا واضح اعلان کر دیا۔ خدانخواستہ کوئی انہونی ہوتی ہے تو مغربی ٹارگٹس میں وہ تباہی پھیلے گی کہ دنیا وہ دہشت گردی بھول جائے گی جو اس نے گزشتہ پچیس سال کے دوران بھگتی ہے۔ ایسا نہ بھی ہوا تو ہم اگلی کئی دہائیوں تک مغرب اور مڈل ایسٹ میں ایسی بدامنی ہو گی کہ اس سارے ماحول میں سب سے زیادہ نقصان اسرائیلیوں کا ہو گا، کوئی اسرائیلی دنیا میں کسی ایک بھی جگہ محفوظ نہیں ہوگا۔
یہ جنگ میرے خیال میں ہفتہ یا دو ہفتہ کے بعد بند نہیں ہو گی بلکہ یہ جنگ عالمی جنگ میں نہ بھی بدلی تو یہ جنگ جتنی دیر بھی رہی اس سے فلسطین اسرائیل کے تنازعہ کے حل کا موقع ضرور پیدا ہو گا کیونکہ اس جنگ کی بنیادی وجہ میں ایران کا حماس اور حزب اللہ کی فوجی اور اخلاقی حمایت کرنا سرفہرست ہے۔ جیسا کہ سعودی عرب نے ایران اسرائیل جنگ کے بعد’’یو ٹرن‘‘ لیا ہے، اس سے مشرق وسطی میں کم از کم’’سٹرٹیجک پارٹنرشپ‘‘ کی نئی صف بندی کا بھی آغاز ہو گا جس میں چین اور روس بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اسرائیل نے اپنے قیام سے اب تک ایک غاصب ریاست کا کردار ادا کیا ہے جس پر گرتے میزائل اور راکٹ دنیا بھر میں مسلمانوں کی نا صرف اجتماعی تسکین بن رہے ہیں بلکہ وہ تصور بھی بدل رہے ہیں جو ان ممالک کو ناقابل شکست اور ناقابل تسخیر پیش کرتا تھا.
ایران کی لیڈرشپ مسلم عوام کو اس لئے پسند ہیں کہ یہ غیرت مند ہیں، اپنی قوم کے وفادار اور ہمدرد ہیں، دلیر اور بہادر ہیں، سامراج کے آلہ کار، ایجنٹ اور ٹائوٹ نہیں ہیں، آزادی پسند ہیں اور خود مختار ہیں، مظلوم کے حمایتی اور ظالم کے دشمن ہیں۔ جبکہ باقی شہادتیں، تکالیف، مشکلات، کمزوریاں اور پابندیاں خود دار اقوام کی حیات میں آتی رہتی ہیں۔ ایرانی قوم کے عقائد سے مسلم دنیا کا کوئی لینا دینا نہیں، مسلمان سامراج دشمنی کے مداح ہیں اور ہمیشہ اسے سراہتے ہیں۔ اہم بات یاد رکھنے کی یہ ہے کہ اسرائیل کا بنیادی مقصد ایران کی نیوکلیئر صلاحیت کا خاتمہ تھا، باوجود تمام تر کامیابیوں کے اسرائیل اب تک یہ ہدف حاصل نہیں کر سکا ہے۔
ابتدائی طور پر گو یہ جنگ ایران اور اسرائیل کے درمیان ہے مگر اس وقت پورا مڈل ایسٹ نشانے پر ہے۔ صرف ایران ڈی سٹیبلائز نہیں ہو گا بلکہ اثرات پورے خطے پر پڑیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کی جنگ کا آغاز تو اپنی مرضی و منشا سے کیا گیا ہے لیکن اس کے نتائج پر ان کا کنٹرول نہیں وہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہوں گے۔
ایران کو طویل جنگ لڑنے کا تجربہ ہے جس نے عراق سے 8سالہ تک جنگ میں اپنے اعصاب پر مکمل قابو رکھا تھا اور وہ جنگ بھی امریکی ایما پر عراق نے ایران پر حملے میں پہل کر کے مسلط کی تھی، جیسا کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے میں پہل کی ہے۔ جنگ عظیم دوم میں بھی جاپان نے امریکہ کی پرل ہاربور پر حملے کی پہل کی تھی جس کے بعد ناگا ساقی اور ہیروشیما پر امریکہ نے ایٹم بم گرائے تھے۔ امریکہ نے شائد جنگی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ہے کہ وہ ایران کو دھمکانے کے بعد آج اسرائیل جیسے جارح ملک کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ امریکہ اور مغرب اگر دنیا میں امن چاہتے ہیں تو یہ موقع ہے کہ وہ مشرق وسطی میں مستقل اور پائیدار امن قائم کرنے کے لئے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیئے اسرائیل کی جنگ میں مدد کرنے کی بجائے مذاکرات کی میز پر لے آئیں۔ چونکہ مشرق وسطی دنیا بھر میں امن کی بحالی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ جنگ بندی کرانے کے بعد مسئلہ فلسطین کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں، ورنہ یہ جنگ وقتی طور پر بند بھی ہو جائے تو جہاں لانگ ٹرم امن قائم نہیں ہو گا وہاں خطے میں دوبارہ کھلی جنگ اور گوریلا وار پیچیدگی کے امکان میں مزید اضافہ گا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اسرائیل کے ایران کی نہیں ہو یہ جنگ کے بعد
پڑھیں:
مسئلہ کشمیر پر بھارت نے کبھی ثالثی قبول نہیں کی، نہ آئندہ کرے گا، مودی کا ٹرمپ کو جواب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی: بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو واضح طور پر بتا دیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مئی میں ہونے والی چار روزہ کشیدگی کے بعد جنگ بندی براہ راست دونوں ممالک کی افواج کے درمیان مذاکرات سے ممکن ہوئی نہ کہ امریکا کی کسی ثالثی سے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے یہ دو ٹوک مؤقف جی 7 سمٹ کے موقع پر کینیڈا میں ہونے والی فون کال کے دوران پیش کیا گیا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار وکرم مسری کے مطابق وزیر اعظم مودی نے صدر ٹرمپ کو واضح کیا کہ پاکستان کی جنگ بندی کے دوران نہ تو بھارت امریکا تجارتی معاہدے پر کوئی بات ہوئی اور نہ ہی کسی بھی مرحلے پر امریکا کی ثالثی کا کردار تھا۔
وزیر اعظم مودی نے کہاکہ بھارت نے کبھی بھی کسی تیسرے فریق کی ثالثی کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی آئندہ کرے گا۔
وزیر خارجہ وکرم مسری کا کہنا تھا کہ جنگ بندی سے متعلق تمام بات چیت بھارت اور پاکستان کی افواج کے مابین براہ راست، پہلے سے موجود فوجی روابط کے ذریعے ہوئی اور اس کی ابتدا پاکستان کی جانب سے کی گئی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ دعویٰ کیا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی امریکی کوششوں کے نتیجے میں ممکن ہوئی اور انہوں نے دونوں ممالک کو جنگ کے بجائے تجارت پر توجہ دینے کا مشورہ دیا تھا، بھارت نے اس دعوے کی فوری تردید کر دی تھی۔
واضح رہے کہ 7 تا 10 مئی 2025 کے درمیان بھارت اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول پر شدید گولہ باری اور فضائی کشیدگی دیکھنے میں آئی تھی، جس کے بعد دونوں ممالک کی افواج نے ایک عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔