طاقت کا مظاہرہ : امریکا نے مشرق وسطیٰ کیجانب دوسرا طیارہ بردار بحری بیڑا روانہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT
امریکا نے مشرق وسطیٰ میں اپنے بحری جنگی اثاثے مضبوط کرتے ہوئے طیارہ بردار بحری جہاز ’یو ایس ایس نیمٹز‘ کو خطے کی طرف روانہ کر دیا ہے، جو پہلے سے موجود ’یو ایس ایس کارل ونسن‘ کے ساتھ کچھ وقت کے لیے کام کرے گا۔
امریکی حکام کے مطابق یہ تعیناتی پہلے سے منصوبہ بندی کا حصہ تھی، تاہم ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی کے باعث اس میں تیزی لائی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سپرسونک کروز میزائلوں سے لیس بھارتی بحری بیڑہ کراچی کے قریب پہنچ گیا
موجودہ صورت حال میں دونوں امریکی بحری جہاز کچھ وقت کے لیے بیک وقت مشرق وسطیٰ میں موجود رہیں گے تاکہ علاقے میں امریکی موجودگی برقرار رہے اور کسی ممکنہ جارحیت کو روکا جا سکے۔ اس کے بعد ’یو ایس ایس کارل ونسن‘ واپس روانہ ہو جائے گا۔
امریکی اقدام کو خطے میں ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ممکنہ فوجی تصادم کے تناظر میں ایک دفاعی تدبیر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا امریکی بحری بیڑا ایران مشرق وسطیٰ یو ایس ایس کارل ونسن یو ایس ایس نیمٹز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا ایران یو ایس ایس کارل ونسن یو ایس ایس نیمٹز یو ایس ایس
پڑھیں:
مودی کیلیے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چُھوٹ واپس لے لی
امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنیٰ ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔
بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنیٰ ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔
چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔
ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔
کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنیٰ رکھا تھا۔
تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دباؤ برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنیٰ ختم کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو "غیر قانونی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دباؤ کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔
تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔