سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ:’’صدر کو اختیار حاصل ہے‘‘ ججز ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق قرار
اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:سپریم کورٹ آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 3ججز کے تبادلے سے متعلق تاریخی مقدمے کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا ہے کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کا تبادلہ مکمل طور پر آئین اور قانون کے مطابق کیا گیا۔
عدالت عظمیٰ کے اکثریتی فیصلے میں عدالت نے واضح کیا کہ ججز کے تبادلے کو کسی طور پر نئی تقرری نہیں سمجھا جا سکتا اور نہ ہی اس پر اعتراض کی کوئی قانونی گنجائش موجود ہے۔ عدالت کا یہ فیصلہ ایک طویل قانونی بحث کے بعد سامنے آیا ہے جس میں عدالتی خودمختاری، آئینی اختیارات اور ججز کی سنیارٹی جیسے اہم نکات زیر غور آئے۔
سپریم کورٹ نے اپنے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس آصف اور جسٹس خادم حسین سومرو کے تبادلے کے نوٹیفکیشنز کو کالعدم قرار نہیں دیا جا رہا۔ اس کے ساتھ ہی سنیارٹی سے متعلق معاملات صدر مملکت کو بھیج دیے گئے ہیں تاکہ وہ جلد از جلد اس معاملے کو نمٹا سکیں۔ جب تک سنیارٹی کا فیصلہ نہیں ہوتا، جسٹس سرفراز ڈوگر قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔
فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 200 کو بنیادی حوالہ بنایا گیا ہے، جس کے تحت صدر پاکستان کو ججز کو ایک ہائی کورٹ سے دوسری میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ عدالت نے کہا کہ یہ اختیار مکمل طور پر آزاد ہے اور کسی قانون کے تحت اس پر قدغن نہیں لگائی جا سکتی۔ آرٹیکل 200 کے تحت دیا گیا تبادلے کا میکانزم جج کی رضا مندی سے مشروط ہے اور اس کے بعد متعلقہ دونوں ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت لازمی ہے۔
عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اگر جج تبادلے کے لیے رضامند نہ ہو تو یہ عمل وہیں رک جاتا ہے۔ جب جج آمادہ ہو جائے تو تبادلہ ممکن ہے، لیکن اس کے باوجود چیف جسٹس آف پاکستان اور دونوں متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی رائے ضروری ہے تاکہ عدالتی مفاد، انتظامی ضروریات اور عوامی بھلائی کو مدنظر رکھا جا سکے۔
عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کر دیا کہ جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلہ نئی تقرری کے مترادف ہوتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تقرری اور تبادلہ آئینی طور پر 2الگ معاملات ہیں اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا دائرہ کار صرف تقرریوں تک محدود ہے۔ اس کے برعکس، تبادلے کا اختیار آئینی طور پر صدر کو حاصل ہے، جو جوڈیشل کمیشن کے دائرہ کار میں نہیں آتا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ ایکٹ 2010 کی دفعہ 3 کے تحت ججز کی زیادہ سے زیادہ تعداد کا تعین ضرور کیا گیا ہے، تاہم عدالت نے قرار دیا کہ یہ قانون آئینی اختیارات کو محدود نہیں کر سکتا۔ یعنی صدر کے پاس تبادلے کے جو اختیارات ہیں، وہ اس ایکٹ کی کسی شق سے مشروط یا محدود نہیں ہو سکتے۔
دوسری جانب جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے رائے دی کہ ججز کے تبادلے کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کے مترادف ہے اور اسے آئینی دائرہ کار سے تجاوز تصور کیا جانا چاہیے۔ اختلافی فیصلے میں اس مؤقف کو بھی تقویت دی گئی کہ ججز کو سزا کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ منتقل کیا گیا، جو عدالتی آزادی پر حملہ ہے۔
جسٹس افغان نے اختلافی رائے سناتے ہوئے ایک شعر بھی پڑھا:
امن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
واضح رہے کہ یہ فیصلہ اس وقت سنایا گیا جب سپریم کورٹ نے طویل سماعتوں کے بعد آج کیس کا فیصلہ محفوظ کیاتھا۔ سماعت کے دوران وکیل ادریس اشرف نے آئین کے آرٹیکل 175 اور 200 میں ہم آہنگی کی درخواست کی، جب کہ اٹارنی جنرل نے واضح کیا کہ ججز کے تبادلے کا مکمل طریقہ آئین میں دیا گیا ہے اور وزیر اعظم یا صدر کا کردار محدود نوعیت کا ہے۔
دلائل کے دوران سابق اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت تبادلے کو نئی تقرری سے تعبیر نہ کرے،تاہم عدالت نے نشاندہی کی کہ ان کی پٹیشن میں ججز کو ڈیپوٹیشنسٹ کہا گیا ہے، جو آئینی طور پر غلط تصور کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5ججز نے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جن میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس اعجاز اسحاق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل تھے۔ اس کے علاوہ بانی پی ٹی آئی اور کراچی بار کی جانب سے بھی اس معاملے پر الگ الگ درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے تبادلے سپریم کورٹ تبادلے کا فیصلے میں عدالت نے چیف جسٹس کورٹ کے کیا گیا ہے اور گیا ہے کے تحت کہ ججز
پڑھیں:
فارن فنڈنگ کیس کو 3سال گزر گئے ،کسی کو سزا دی گئی نہ ہی فیصلہ نافذ ہوا،اکبر ایس بابر
فارن فنڈنگ کیس کو 3سال گزر گئے ،کسی کو سزا دی گئی نہ ہی فیصلہ نافذ ہوا،اکبر ایس بابر WhatsAppFacebookTwitter 0 3 August, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)پاکستان تحریک انصاف کے بانی رکن اور فارن فنڈنگ کیس کے مرکزی فریق اکبر ایس بابر نے ایک اہم پیغام میں یاد دہانی کرائی ہے کہ3 برس قبل، 2 اگست 2022 کو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی غیر قانونی فنڈنگ سے متعلق 70 صفحات پر مشتمل تفصیلی اور تاریخی فیصلہ سنایا تھا، جس پر تا حال کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ اکبر ایس بابر نے اس تاخیر کو ریاست، نظامِ قانون اور مقننہ کی بڑی ناکامی قرار دیا۔اکبر ایس بابر کے مطابق الیکشن کمیشن کے فیصلے میں واضح طور پر پی ٹی آئی کو غیر ملکی کمپنیوں اور افراد سے فنڈنگ، جعلی دستاویزات پیش کرنے، اور خفیہ بینک اکاونٹس چھپانے جیسے سنگین مالیاتی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا تھا۔
تاہم فیصلے کے باوجود 3 سال گزر چکے ہیں، نہ کسی کو سزا دی گئی اور نہ ہی فیصلہ نافذ ہوا۔اکبر ایس بابر نے سوال اٹھایا کہ اگر قانون پر عملدرآمد ہی نہ ہو تو کیا ایسی ریاست میں جمہوریت پنپ سکتی ہے؟ 2009 سے 2014 کے دوران پی ٹی آئی کو 7 ملین ڈالر زسے زائد غیر قانونی فنڈنگ موصول ہوئی، جس کے ناقابل تردید شواہد الیکشن کمیشن میں پیش کیے گئے لیکن جو سیاسی جماعتیں آج آل پارٹیز کانفرنسز میں آئین اور قانون کی پاسداری کا درس دے رہی ہیں، وہ خود آئین کی دھجیاں اڑا چکی ہیں۔ انہوں نے اے پی سی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آج تک پاکستان میں عوام کے حقوق کے تحفظ، معیاری تعلیم، بہتر صحت اور روزگار جیسے عوامی مسائل پر کوئی اے پی سی نہیں ہوئی۔ ملک میں آئین اور جمہوریت کی بحالی صرف اس لیے ممکن نہ ہو سکی کیونکہ قانون پر عمل نہیں کیا جاتا۔بانی رکن اکبر ایس بابر نے کہا کہ حکومت، ریاستی اداروں اور قانون نافذ کرنے والے حکام کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے فارن فنڈنگ کیس پر فوری عملدرآمد کرائیں تاکہ پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا راستہ ہموار ہو سکے۔
فارن فنڈنگ کیس کی مجموعی طور پر 200 سماعتیں ہوئیں اور پی ٹی آئی کی جانب سے 50 سے زائد مرتبہ التوا کی درخواستیں دائر کی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی فیصلے میں لکھا کہ پی ٹی آئی نے تاریخی تاخیری حربے اپنائے۔اکبر ایس بابر نے کہا کہ جو رہنما میڈیا پر آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، وہی پس پردہ اس مقدمے کو ایک دہائی تک لٹکانے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ کیس ذاتی مقدمہ نہیں بلکہ قومی مفاد کا معاملہ ہے کیونکہ جس ملک میں قانون کی عملداری نہ ہو، وہاں جمہوریت پنپ نہیں سکتی۔انہوں نے عالمی مثالوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فرانس میں فارن فنڈنگ کے باعث سب سے مقبول لیڈر کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکا گیا اور درجنوں سیاسی شخصیات کو سزائیں دی گئیں۔ رومانیہ میں روسی مداخلت کے الزام میں دو مقبول ترین لیڈروں کو نااہل قرار دیا گیا۔ اگر دنیا میں مقبولیت کو قانون پر فوقیت نہیں دی جاتی تو پاکستان میں کیوں مقبول لیڈروں کو قانون سے بالاتر سمجھا جا رہا ہے؟،اکبر ایس بابر نے اس امر پر زور دیا کہ اگر قانون میں کوئی سقم ہے تو پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اس میں اصلاحات کرے، لیکن موجودہ صورت حال میں فیصلہ نہ ماننا انصاف اور جمہوریت دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔انہوں نے کہا کہ فیٹف میں بھارت نے پی ٹی آئی رہنماوں کے بیانات بطور ثبوت جمع کرائے، جو قومی سلامتی کے تناظر میں تشویشناک ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرحکومت نے چینی درآمد کرنے کا ایک اور ٹینڈرجاری کردیا حکومت نے چینی درآمد کرنے کا ایک اور ٹینڈرجاری کردیا وانا ویلفیئر ایسوسی ایشن کے نمائندہ وفد کی زرعی یونیورسٹی ڈیرہ کے وی سی سے ملاقات عمران خان کی گنڈا پور کو عہدہ چھوڑنے کی ہدایت، ترجمان وزیر اعلی کے پی کا ردعمل سامنے آگیا پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کا 5اگست کو اسلام آباد نہ جانے کا فیصلہ حکومت کا غیر رجسٹرڈ عازمین سے بھی حج درخواستیں وصول کرنے کا فیصلہ ایرانی صدر سے اسحاق ڈار کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات مزید مضبوط بنانے کا اعادہCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم