data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یوری ایوننری
اسرائیلی بائیں بازو کے صحافی یوری ایوننری کا یہ کالم ۲۰۰۷ میں یعنی آج سے اٹھارہ سال قبل شائع ہوا؛ اٹھارہ سال پرانا تجزیہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر گیا ہے۔ دنیا کیا سے کیا ہو گئی ہے لیکن اس کے کچھ حصے اب بھی ریلیونٹ ہیں۔ اس وقت بھی امریکا اور اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کے لیے اتنے ہی بے تاب تھے۔ ایران پر حملے اور رجیم چینج کی گفتگو پرو اسرائیل امریکا میں کبھی ختم ہی نہیں ہوئی۔ ان کا کالم تزین فرید کی وال سے لے کر قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
………
ایک معزز امریکی اخبار نے اس ہفتے ایک بڑی خبر شائع کی: نائب صدر ڈک چینی، جو جنگ کے سب سے بڑے حامی سمجھے جاتے ہیں، نے ایران پر حملے کے لیے ایک مکاری پر مبنی منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس منصوبے کا مرکزی نکتہ یہ ہے: اسرائیل سب سے پہلے ایران کی کسی جوہری تنصیب پر بمباری کرے گا، ایران اس کے ردعمل میں اسرائیل پر میزائل برسائے گا اور یہ حملہ امریکا کے لیے ایران پر حملے کا بہانہ بنے گا۔ کیا یہ منصوبہ ناقابلِ یقین ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ 1956 میں پیش آنے والے واقعے جیسا ہی ہے۔ اْس وقت فرانس، اسرائیل اور برطانیہ نے خفیہ طور پر مصر پر حملے کی منصوبہ بندی کی تاکہ جمال عبد الناصر کو اقتدار سے ہٹایا جا سکے (آج کی زبان میں ’’ریجیم چینج‘‘)۔ طے پایا کہ اسرائیلی پیراٹروپرز سوئز کینال کے قریب اُتارے جائیں گے، اور پیدا ہونے والا تنازع فرانسیسیوں اور برطانویوں کو کینال کے علاقے پر قبضہ کرنے کا موقع دے گا تاکہ وہ اس آبی گزرگاہ کو ’’محفوظ‘‘ کر سکیں۔ یہ منصوبہ عمل میں آیا اور بری طرح ناکام ہوا۔ اگر ہم چینی کے اس منصوبے پر عمل کریں تو ہمارے ساتھ کیا ہوگا؟ ہمارے پائلٹس کو ایران کی سختی سے محفوظ جوہری تنصیبات پر حملہ کرنا پڑے گا، جان کا خطرہ مول لیتے ہوئے۔ اس کے بعد ایرانی میزائل ہمارے شہروں پر برسیں گے۔ سیکڑوں، شاید ہزاروں، افراد ہلاک ہوں گے۔ یہ سب کچھ صرف اس لیے کہ امریکا کو جنگ کا جواز مل سکے۔ کیا یہ جواز کافی ہوتا؟ دوسرے الفاظ میں، کیا امریکا کو ہمارے ساتھ جنگ میں شامل ہونا لازم ہے، چاہے ہم ہی اس جنگ کا باعث بنے ہوں؟ نظریاتی طور پر، جواب ہاں ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے درمیان موجودہ معاہدوں کے مطابق، امریکا کو کسی بھی جنگ میں اسرائیل کی مدد کرنا ہے۔ چاہے جنگ کسی نے شروع کی ہو۔
کیا اس خبر میں کوئی صداقت ہے؟ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اس سے یہ شک ضرور مضبوط ہوتا ہے کہ ایران پر حملہ توقع سے زیادہ قریب ہو سکتا ہے۔ کیا بش، ڈک چینی اور ان کے ساتھی واقعی ایران پر حملے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ مجھے یقین نہیں، لیکن یہ شک ضرور بڑھ رہا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ جارج بش کی مدتِ صدارت اپنے اختتام کے قریب ہے۔ اگر یہ دور ویسے ہی ختم ہوا جیسے ابھی حالات ہیں، تو وہ امریکا کے بدترین بلکہ شاید سب سے بدترین صدر کے طور پر یاد کیے جائیں گے۔ ان کی صدارت کا آغاز ٹوئن ٹاورز کے سانحے سے ہوا، جو خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کا عکاس تھا، اور اس کا اختتام عراق کی ہولناک تباہی پر ہو گا۔ اب صرف ایک سال باقی ہے کچھ ’’قابل ِ فخر‘‘ کرنے کے لیے تاکہ تاریخ میں اپنا نام بچایا جا سکے۔ ایسے حالات میں، حکمران اکثر فوجی مہم جوئی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ اور بش کی شخصیت کو مد ِنظر رکھتے ہوئے، جنگ کا امکان واقعی خوفناک نظر آتا ہے۔ بے شک، امریکی فوج عراق اور افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ بش اور چینی جیسے لوگ بھی اس وقت ایک ایسے ملک پر حملہ کرنے کا خواب نہیں دیکھ سکتے جو رقبے میں عراق سے چار گنا اور آبادی میں تین گنا بڑا ہے۔ لیکن جنگ کے حامی بش کے کان میں سرگوشی کر سکتے ہیں: آپ کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ حملے کے لیے زمینی فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ صرف بمباری کافی ہے، جیسے ہم نے سربیا اور افغانستان پر کی۔ ہم اپنی جدید ترین بمباری اور میزائلوں سے دو ہزار کے قریب اہداف کو نشانہ بنائیں گے تاکہ نہ صرف ایران کی جوہری تنصیبات، بلکہ ان کی فوجی تنصیبات اور حکومتی دفاتر بھی تباہ ہو جائیں۔ جیسا کہ ایک امریکی جنرل نے ویتنام کے بارے میں کہا تھا: ’’ہم انہیں پتھر کے دور میں واپس پہنچا دیں گے‘‘ یا جیسا کہ اسرائیلی فضائیہ کے جنرل دان حلوتز نے لبنان کے بارے میں کہا: ’’ہم ان کی گھڑی بیس سال پیچھے کر دیں گے‘‘۔ یہ ایک پرکشش خیال ہو سکتا ہے۔ امریکا صرف اپنی فضائیہ، میزائلوں اور طاقتور طیارہ بردار بحری بیڑوں کو استعمال کرے گا، جو پہلے ہی خلیج فارس میں تعینات ہیں۔ یہ سب کچھ قلیل نوٹس پر متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ایک ناکام صدر کے لیے، جو اپنے دورِ اقتدار کے اختتام پر ہو، ایک آسان اور مختصر جنگ کا تصور بہت کشش رکھتا ہے۔ اور اس صدر نے پہلے ہی ثابت کیا ہے کہ وہ ایسے وسوسوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کیا یہ واقعی اتنا آسان منصوبہ ہوگا، جیسا کہ امریکی زبان میں کہا جاتا ہے، ’’پیس آف کیک‘‘؟
مجھے شک ہے۔ ’’اسمارٹ بمز‘‘ بھی انسانوں کو مارتے ہیں۔ ایرانی ایک باوقار، پْرعزم اور باہمت قوم ہیں۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ دو ہزار سال میں انہوں نے کبھی کسی دوسرے ملک پر حملہ نہیں کیا، لیکن ایران- عراق جنگ کے آٹھ سال میں انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ جب ان کے اپنے ملک پر حملہ ہو تو وہ اس کا دفاع کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتے ہیں۔
امریکی حملے کا ان کا پہلا ردِعمل خلیج فارس کے داخلی راستے آبنائے ہرمز کو بند کرنا ہو گا۔ یہ دنیا کی ایک بڑی تیل کی ترسیل کو روک دے گا اور عالمی سطح پر ایک بے مثال اقتصادی بحران پیدا کر دے گا۔ اس آبنائے کو دوبارہ کھولنے کے لیے (اگر ایسا ممکن بھی ہو) امریکی فوج کو ایران کے بڑے رقبے پر قبضہ کرنا پڑے گا۔ مختصر اور آسان جنگ ایک طویل اور مشکل جنگ میں بدل جائے گی۔ اس کا اسرائیل کے لیے کیا مطلب ہوگا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایران پر حملہ کیا گیا، تو وہ اپنے اعلان کے مطابق ردعمل دے گا: وہ ہمیں ان راکٹس سے نشانہ بنائے گا جو اس نے خاص اسی مقصد کے لیے تیار کیے ہیں۔ یہ اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ تو نہیں ہوگا، لیکن یہ خوشگوار بھی ہرگز نہیں ہوگا۔ اگر امریکی حملہ ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں تبدیل ہو گیا، اور اگر امریکی عوام اسے عراق کی طرح ایک اور تباہی سمجھنے لگے، تو کچھ لوگ لازماً اس کا الزام اسرائیل پر ڈالیں گے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ پرو اسرائیل لابی اور اس کے اتحادی، جن میں زیادہ تر یہودی نیو کنزرویٹو اور عیسائی صہیونی شامل ہیں امریکا کو اس جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں، بالکل جیسے انہوں نے عراق کی جنگ میں کیا تھا۔ اسرائیلی پالیسی کے لیے، اس جنگ سے جو متوقع فائدے ہیں، وہ بہت بڑے نقصانات میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ نہ صرف اسرائیل کے لیے، بلکہ امریکی یہودی برادری کے لیے بھی۔ اگر صدر محمود احمدی نژاد موجود نہ ہوتے، تو اسرائیلی حکومت کو انہیں ایجاد کرنا پڑتا۔ ان میں دشمن کے لیے وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جن کی کوئی تمنا کر سکتا ہے۔ وہ بہت زیادہ بولتے ہیں، بڑھکیں مارتے ہیں، جان بوجھ کر تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ وہ ہولوکاسٹ کے منکر ہیں۔ وہ یہ پیش گوئی کرتے ہیں کہ اسرائیل ’’نقشے سے مٹ جائے گا‘‘ (حالانکہ جیسا کہ غلط رپورٹ کیا گیا، انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ اسرائیل کو خود مٹا دیں گے)۔ اس ہفتے، پرو اسرائیل لابی نے ان کے نیویارک کے دورے کے خلاف بڑے مظاہرے منظم کیے۔ یہ مظاہرے دراصل احمدی نژاد کے لیے بہت بڑی کامیابی ثابت ہوئے۔ ان کا خواب پورا ہو گیا کہ وہ عالمی توجہ کا مرکز بنیں۔ انہیں یہ موقع ملا کہ وہ اسرائیل کے خلاف اپنے دلائل کچھ ناقابل ِ قبول، کچھ معقول؛ دنیا بھر کے سامعین کے سامنے پیش کریں۔ لیکن احمدی نژاد، ایران نہیں ہیں۔ بے شک، وہ عوامی انتخابات جیت چکے ہیں، لیکن ایران کی ساخت کچھ ایسی ہے جیسے اسرائیل کی مذہبی جماعتیں: وہاں سیاست دانوں کے بجائے علما (آیات) کی بات چلتی ہے۔ شیعہ مذہبی قیادت ہی فیصلے کرتی ہے اور فوج کی کمان بھی انہی کے ہاتھ میں ہے، اور یہ قیادت نہ تو لفاظی کرتی ہے، نہ بڑھکیں مارتی ہے، نہ ہی تنازعات میں الجھتی ہے۔ بلکہ وہ بہت محتاط انداز میں فیصلے کرتی ہے۔
اگر ایران واقعی ایٹم بم حاصل کرنے کے لیے اس قدر بے تاب ہوتا، تو وہ مکمل خاموشی اور رازداری سے کام لیتا اور خود کو منظر عام سے چھپا کر رکھتا (جیسے اسرائیل نے کیا تھا)۔ احمدی نژاد کی لاف زنی ایران کی ایٹمی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے، اس سے زیادہ جتنا ایران کا کوئی دشمن نہیں پہنچا سکتا۔ یہ خیال کافی ناپسندیدہ ہے کہ ایران (یا کسی بھی ملک) کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں۔ میری خواہش ہے کہ اسے روکا جا سکے یا ترغیب دے کر یا پابندیاں لگا کر۔ لیکن اگر یہ کوشش ناکام بھی ہو جائے، تو یہ نہ دنیا کا خاتمہ ہو گا، نہ اسرائیل کا۔ اس معاملے میں، اسرائیل کی دفاعی قوت بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ احمدی نژاد بھی ایسا رسک نہیں لے سکتے کہ ایران کی تباہی کے بدلے اسرائیل کی تباہی کو برداشت کریں یعنی ’’رانیوں کا تبادلہ‘‘۔
نپولین نے کہا تھا کہ اگر کسی ملک کی پالیسی سمجھنی ہو، تو اس کا نقشہ دیکھو۔ اگر ہم ایسا کریں تو دیکھیں گے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کی کوئی معروضی وجہ نہیں ہے۔ بلکہ، طویل عرصے تک یروشلم میں یہ سمجھا جاتا رہا کہ یہ دونوں ممالک قدرتی اتحادی ہیں۔
ڈیوڈ بن گوریان نے ’’سرحدی اتحاد‘‘ (Alliance of the Periphery) کا نظریہ پیش کیا تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ پوری عرب دنیا اسرائیل کی فطری دشمن ہے، لہٰذا اسرائیل کو اپنی سرحدوں سے باہر کے غیر عرب مسلم ممالک جیسے ترکی، ایران، ایتھوپیا، چاڈ وغیرہ سے اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ (انہوں نے عرب دنیا کے اندر بھی ان قوموں سے تعلقات قائم کیے جو سنّی عرب نہیں تھیں، جیسے مارونی، قبطی، کرد، شیعہ وغیرہ۔) شاہِ ایران کے دور میں ایران اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات تھے کچھ مثبت، کچھ منفی، اور کچھ سراسر خفیہ۔ شاہ نے ایلات سے اشکلون تک پائپ لائن تعمیر کروائی تاکہ ایرانی تیل کو سویز نہر سے بچا کر بحیرہ روم تک پہنچایا جا سکے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی (شاباک) نے ایران کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی (ساواک) کو تربیت دی۔ اسرائیلی اور ایرانی ایجنٹس نے عراق کے کردستان میں مل کر کام کیا تاکہ کردوں کو سنّی عرب حکمرانوں کے ظلم سے بچایا جا سکے۔ خمینی انقلاب نے ابتدا میں اس اتحاد کا خاتمہ نہیں کیا اسے صرف زیر ِ زمین کر دیا۔ ایران عراق جنگ کے دوران اسرائیل نے ایران کو اسلحہ فراہم کیا، اس بنیاد پر کہ ’’جو عربوں سے لڑتا ہے، وہ ہمارا دوست ہے‘‘۔ اسی وقت، امریکا نے صدام حسین کو اسلحہ فراہم کیا، جو واشنگٹن اور یروشلم کی پالیسیوں میں ایک نادر اختلاف تھا۔ بعد میں ’’ایران- کانٹرا اسکینڈل‘‘ کے ذریعے اس خلا کو پْر کیا گیا، جب امریکیوں نے اسرائیل کو آیت اللہ کو اسلحہ بیچنے میں مدد دی۔
آج دونوں ممالک کے درمیان ایک نظریاتی جنگ جاری ہے، لیکن یہ زیادہ تر بیان بازی اور عوامی اشتعال انگیزی کی سطح پر لڑی جا رہی ہے۔ میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ احمدی نژاد کو اسرائیل فلسطین تنازعے کی واقعی پروا نہیں۔ وہ اسے صرف عرب دنیا میں مقبولیت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اگر میں فلسطینی ہوتا تو میں ان پر انحصار نہ کرتا۔ جلد یا بدیر، جغرافیہ اپنا کردار ادا کرے گا، اور اسرائیل ایران تعلقات دوبارہ اسی نہج پر لوٹیں گے۔ امید ہے کہ زیادہ مثبت انداز میں۔ ایک بات میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں: جو کوئی بھی ایران کے خلاف جنگ کو ہوا دے رہا ہے، وہ ایک دن اس پر پچھتائے گا۔ کچھ مہم جوئیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں داخل ہونا آسان، لیکن نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آخری شخص جس نے یہ سبق سیکھا وہ صدام حسین تھا۔ اسے لگا کہ یہ ایک آسان جنگ ہو گی؛ آخرکار خمینی نے شاہ کی فوج کے زیادہ تر افسران اور خاص طور پر پائلٹس کو مار دیا تھا۔ اسے یقین تھا کہ عراق کا ایک تیز حملہ ایران کو گرا دے گا۔ اسے آٹھ طویل سال کی جنگ میں اس پر پچھتانا پڑا۔ ممکن ہے کہ ہم اور امریکی جلد ہی یہ محسوس کریں کہ عراق کی دلدل، ایران کے دلدل کے مقابلے میں مکھن جیسی تھی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایران پر حملے اور اسرائیل کرنے کے لیے احمدی نژاد کہ اسرائیل اسرائیل کے اسرائیل کی امریکا کو کے درمیان ایران کی ایران کے کہ ایران انہوں نے پر حملہ عراق کی جیسا کہ سکتا ہے اور اس ہیں کہ کے دور کی فوج جنگ کا جا سکے جنگ کے
پڑھیں:
عراق اور ایران کی ائیر لائنز کو پاکستان آنے کی اجازت دی جائے، قائمہ کمیٹی مذہبی امور
اسلام آباد:قومی اسمبلی قائمہ مذہبی امور نے کہا ہے کہ عراق اور ایران کی ائیر لائنوں کو پاکستان آنے کی اجازت دیں، پی آئی اے کو کہیں کہ کراچی سے بھی زیارات کیلئے پروازیں چلائے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور اور بین المذاہب ہم آہنگی کا اجلاس رکن کمیٹی شگفتہ جمانی کی صدارت میں ہوا۔ سیکرٹری کمیٹی نے قاعدہ 225 کے تحت تمام اراکین کی رائے سے شگفتہ جمانی کو اجلاس کی صدارت کی دعوت دی۔
شگفتہ جمانی نے کہا کہ کمیٹی کے چیئرمین ملک عامر ڈوگر عمرہ کی ادائیگی کے لیے بیرون ملک ہیں، گزشتہ اجلاس بھی سیلابی صورتحال کے باعث نہیں ہوسکا تھا۔
ایڈیشنل سیکرٹری وزارت مذہبی امور ساجد محمود نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور کہا کہ کمیٹی کی ہدایت پر جو عازمین گزشتہ حج پہ ادائیگی کے باوجود نہیں جا سکے انہیں ترجیح دی جا رہی ہے، اب تک 21 ہزار ایسے عازمین رجسٹرڈ ہوچکے ہیں جو گزشتہ برس نہیں جاسکے تھے۔
ایڈیشنل سیکرٹری مذہبی امور نے کہا کہ سعودی عرب نے ہدایت کی ہے صرف فضائی سفر کے ذریعے آنے کی اجازت دی ہے، اس کے باوجود ہم بحری سفر کے ذریعے سفر شروع کرنے کے معاملے پر کام کررہے ہیں، زیارات کیلئے بحری سفر کی کوشش کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ روڈ ٹو مکہ منصوبے میں لاہور کو بھی شامل کررہے ہیں، روڈ ٹو مکہ منصوبے کیلئے حاجیوں کی تعدادکم ازکم 40ہزار ہونی چاہیے۔
سکھوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ غیرممالک سے آئے سکھ زائرین کو ویزا آن ارائیول دیا جاتا ہے۔
وزیرمملکت کھیل داس کوہستانی نے کہا کہ بھارت نے کرکٹ میچ کھیلنے کی اجازت دی ہے لیکن سکھ یاتریوں کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں، بھارت کی جانب سے سکھ یاتریوں کو مذہبی رسومات سے روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، سکھ یاتری پہلے بڑی تعداد میں پاکستان آتے تھے، اس مرتبہ بھارت نے اجازت نہیں دی۔
اجلاس میں "اقلیتوں کیلئے قومی کمیشن کے قیام" کے بل پر بحث ہوئی۔ وزیر مملکت کھیل داس کوہستانی نے کہا کہ اسی طرح کا بل وزارت انسانی حقوق نے اسمبلی میں بھیجا تھا جو پاس بھی ہوچکا ہے، صدر نے اس بل پر اعتراضات لگا کر بھیجا ہے، یہ بل اب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پاس ہوگا۔
عامر جیوا نے کہا کہ جب اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہوگیا تھا تو اس کو مشترکہ اجلاس میں لانے کی ضرورت نہیں تھی، کمیٹی نے بل کو ڈسپوز آف کردیا۔
حکام وزارت مذہبی امور نے کہا کہ زیارات کیلئے 24 کمپنیوں کو وزارت نے این او سی دیا ہے۔
چئیرپرسن کمیٹی نے کہا کہ زیارات کے لیے جانے والی کمپنیوں میں سالار سسٹم چل رہے ہیں، زیارات کیلئے سالار زیادہ تر شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، آپ نے 24 کمپنیوں کو ہی کیوں چنا ہے؟ سالار سسٹم آپ ختم نہیں کرسکتے، سالار ختم کریں گے تو عمرہ والا حال ہوگا،سالار کا لفظ ختم نہ کریں۔
چئیرپرسن کمیٹی نے کہا کہ پہلے عراق میں لوگ بہت کم جاتے تھے لیکن اب بہت زیادہ لوگ جاتے ہیں، عراق اور ایران کی ائیر لائنوں کو پاکستان آنے کی اجازت دیں، پی آئی اے کو کہیں کہ کراچی سے بھی زیارات کیلئے پروازیں چلائیں۔
چیئرپرسن نے کہا کہ زائرین کو عراق لے جانے کے لیے عراقی ایئرلائن 280 ڈالر میں پاکستان سے عراق جانے کو تیار ہے۔
حکام وزارت مذہبی امور نے کہا کہ ہم عمرہ اور حج کیلئے ٹریننگ کا مرحلہ شروع کررہے ہیں، ہم وہاں موجود کیلئے وزارت کے کاؤنٹرز کو صرف حج کیلئے جنہیں عمرہ کیلئے کھولنے کی کوشش کررہے ہیں، پچھلے سال جس کمپنی کو حاجیوں کا 86ہزار کا کوٹا دیا گیا اس کی گنجائش سعودی عرب میں 10ہزار تھی۔
چئیرپرسن کمیٹی نے کہا کہ پچھلے سال آپ نے حاجیوں کو کھانے کا ٹھیکہ ایک بھارتی کمیٹی کو دیا یہ ٹھیکے سرعام نیلام کریں تاکہ مسابقت کا عمل بڑھے۔
رکن کمیٹی ایم این اے نیلسن عظیم نے کمیٹی میں اظہار خیال میں کہا کہ پورے پاکستان میں اقلیتوں کی ڈویلپمنٹ اسکیمز کیلئے صرف 4 کروڑ روپے رکھے جاتے ہیں،یونیورسٹیز، کالجوں میں داخلوں کیلئے حافظ قرآن کو 20نمبر ملتے ہیں، اقلیتوں کو نہیں ملتے، بطور اقلیتی رکن مجھے وزرات کی جانب سے 76 ہزار روپے اقلیتی لوگوں کو تقسیم کرنے کا کہا گیا، پانچ پانچ ہزار ایسٹر کرسمس سمیت دیگر تہواروں پر اقلیتوں لوگوں میں تقسیم کرنا بہت کم ہے۔
وزیر مملکت کھیل داس کوہستانی نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد اقلیتوں کے فنڈز سے متعلق صوبوں کا اختیار ہے، تمام صوبوں نے اقلیتوں کے لئے وافر فنڈز رکھے ہیں۔