Jasarat News:
2025-08-04@13:28:18 GMT

بڑھتی ہوئی کشیدگی کا محور

اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی ایک بار پھر ایسی شدت کے ساتھ بھڑک اٹھی ہے کہ پورا مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ جو تصادم کبھی صرف نظریاتی اور سرد جنگ کی شکل رکھتا تھا، وہ اب براہ راست، مسلح اور شدت آمیز تصادم میں بدل چکا ہے۔ ڈرونز سرحدیں عبور کر رہے ہیں، پراکسی ملیشیائیں میزائل داغ رہی ہیں، اور سیاسی بیانات میں شدید تندی آ چکی ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ جنگ ہوگی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کب اور کہاں یہ مکمل آگ کی صورت اختیار کرے گی۔ پاکستان کے لیے، جو مذہب، سیاست، اور سفارت کے کئی دھاگوں سے اس تنازع سے جڑا ہوا ہے، یہ معاملہ صرف نظریاتی نہیں، بلکہ حقیقی اور خطرناک ہے۔ اس دشمنی کی جڑیں کئی دہائیوں پر محیط ہیں، مگر اس کی جدید شکل 1979 کے ایرانی انقلاب سے شروع ہوئی، جب شاہ ایران کا اقتدار ختم ہوا اور آیت اللہ خمینی نے قیادت سنبھالی۔ ایران، جو کبھی اسرائیل کا قریبی اتحادی تھا، یکدم اس کا شدید مخالف بن گیا۔ اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دے کر ایران نے اپنی خارجہ پالیسی کو صہیونیت کے خلاف مزاحمت پر مبنی کر دیا۔ اس پالیسی کا عملی اظہار ایران کی جانب سے حزب اللہ، حماس اور حوثی باغیوں کی حمایت کی صورت میں ہوتا ہے، جنہیں اسرائیل اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
آج شام میں ایرانی ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے، لبنان میں حزب اللہ کی سرگرمیاں، اور بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملے ایک وسیع اور مربوط پالیسی کا حصہ ہیں۔ یہ تمام واقعات الگ الگ نہیں، بلکہ تہران کی طویل المدتی حکمت ِ عملی کے تحت اسرائیل کو گھیرنے کی کوششیں ہیں۔ دوسری طرف، اسرائیل نے نہ صرف ایرانی اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے بلکہ کئی ایرانی جوہری سائنسدانوں کو بھی قتل کیا اور ساتھ ہی سفارتی محاذ پر عرب ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں سعودی عرب کا کردار سب سے نازک ہے۔ ایران کے خلاف ایک روایتی توازن کے طور پر سامنے آنے والا ملک، 2023 میں چین کی ثالثی کے تحت تہران سے تعلقات بحال کر کے دنیا کو حیران کر گیا۔ لیکن یہ صلح محض ظاہری ہے، کیونکہ سعودی عرب اب بھی یمن اور عراق میں ایرانی پراکسیوں سے پریشان ہے۔ اگرچہ سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، مگر اس کے ساتھ انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون خفیہ طور پر بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے مشرق وسطیٰ کے منظرنامے کو تبدیل کر دیا۔ انہوں نے ایران نیوکلیئر ڈیل سے علٰیحدگی اختیار کی، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، اور عرب ریاستوں کو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی ترغیب دی۔ ان اقدامات نے اسرائیل کو مزید جرأت بخشی اور ایران کو چین و روس کی طرف دھکیل دیا۔ ساتھ ہی ساتھ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا تصور اب محض ایک خواب نہیں، بلکہ ایک فعال سیاسی نظریہ بنتا جا رہا ہے۔
’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا نظریہ، جو کچھ عرصہ پہلے تک ایک انتہا پسند تصور سمجھا جاتا تھا، اب اسرائیل کی شدت پسند جماعتوں میں مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ تورات کی بنیاد پر اسرائیل کی سرحدوں کو نیل سے فرات تک بڑھانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگرچہ سرکاری سطح پر اسرائیل اس نظریے کی تردید کرتا ہے، مگر زمین پر بستیوں کی توسیع، مسجد اقصیٰ پر کشیدگی، اور الحاق کی پالیسیوں نے اس خواب کو ایک قدم قریب کر دیا ہے۔
یہ تنازع جتنا سیاسی ہے، اتنا ہی مذہبی بھی ہے۔ ایران کی قیادت مہدوی عقائد سے متاثر ہو کر اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو دینی فریضہ سمجھتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر کچھ طبقات مسجد اقصیٰ کی جگہ تیسرا ہیکل بنانے اور مسیحا کی آمد کو ایک قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جب مذہبی نظریے عسکری حکمت عملی میں ضم ہو جائیں، تو تصادم کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
عالمی طاقتیں بھی اس کھیل سے باہر نہیں ہیں۔ روس اور چین مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر رسوخ کے لیے ایران کی بقا میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکا، اسرائیل کا دیرینہ اور سخت اتحادی، اب بھی ہر ممکن مدد فراہم کرتا ہے۔

یورپ، جو توانائی اور تجارتی راستوں پر انحصار کرتا ہے، بھی اس کشیدگی سے خوفزدہ ہے۔ اگر ایران نے ہرمز آبنائے بند کی یا اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، تو عالمی معیشت ہل کر رہ جائے گی۔ ایسے میں پاکستان ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ براہ راست فریق نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے اس تنازع کے اثرات نہایت شدید ہو سکتے ہیں۔ عوامی سطح پر فلسطینیوں سے ہمدردی ہے، جبکہ ایران کے ساتھ سرحدی اور مذہبی تعلقات، اور سعودی عرب سے مالیاتی انحصار— یہ سب مل کر ایک پیچیدہ صورتحال بناتے ہیں۔ پاکستان اگر کسی ایک جانب جھکاؤ دکھاتا ہے، تو فرقہ وارانہ فسادات، سفارتی دباؤ، اور بیرونی مداخلت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی بیانیہ بھی بہت طاقتور ہے۔ امام مہدی کی آمد، غزوۂ ہند، اور دجال سے متعلق پیش گوئیاں عام ہیں۔ یہ بیانیہ عوامی جذبات کو ابھارتا ہے، مگر ریاستی پالیسی کو اس جذباتیت سے الگ رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ ہم مذہبی جذبات میں فیصلے کر کے ریاست کو عدم استحکام میں جھونک سکتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب پاکستان کو حکمت اور تدبر سے کام لینا ہوگا۔ اس بحران کی ماقبل آخری سطر یقینا ایمان، شہادت اور انصاف کے جذبات سے جڑی ہے۔ لیکن آخری سطر صرف اور صرف ریاستی تدبر اور تزویراتی حکمت کے نام ہونی چاہیے۔ پاکستان کو جذبات کے بجائے غیرجانبداری، ثالثی، اور سفارتی مہارت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایران اور سعودی عرب دونوں سے تعلقات برقرار رکھنا، فلسطینیوں کی حمایت عالمی فورمز پر جاری رکھنا، اور اندرونی ہم آہنگی قائم رکھنا ہی پاکستان کا اصل امتحان ہے۔
اسرائیل اور ایران کا یہ تنازع صرف ایک بحران نہیں، بلکہ ایک آزمائش ہے— جس میں پاکستان کی خودمختاری، سفارت کاری، اور تدبر کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر ہم ہوش سے کام لیں، تو ہم نہ صرف اس آگ سے بچ سکتے ہیں بلکہ شاید اس آگ میں ایک روشنی کی کرن بن کر ابھریں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اسرائیل کو ایران کی کے ساتھ بھی اس کے لیے

پڑھیں:

کاراباخ کے متنازع نام پر آذربائیجان اور روس میں نئی کشیدگی

آذربائیجان نے روسی ریاستی خبر رساں ایجنسی TASS کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے نگورنو کاراباخ کے دارالحکومت کے لیے آرمینیائی نام ’اسٹیپاناکیٹ‘ کا استعمال بند نہ کیا تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:ایران پر حملے کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال نہیں کرنے دینگے، آذربائیجان

آذربائیجانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان آیخان حاجی زادہ نے ایک بیان میں کہا کہ TASS کا ’خنکندی‘ کے بجائے ’اسٹیپاناکیٹ‘ کہنا آذربائیجان کی توہین اور عدم احترام کے مترادف ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ یہ طرز عمل ملک کی خودمختاری کے منافی ہے۔

ترجمان کے مطابق یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب TASS نے ایک رپورٹ میں آرمینیائی نژاد روسی مصور ایوان آیوازووسکی کے مجسمے کی تنصیب کو ’روسی امن فورسز کا اقدام‘ قرار دیا۔

حاجی زادہ نے کہا کہ یہ مجسمہ غیر قانونی طور پر نصب کیا گیا تھا، جو آذربائیجان کے لیے ’واضح توہین‘ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ترکیہ، پاکستان اور آذربائیجان 3 ریاستیں مگر ایک قوم ہیں: رجب طیب اردوان

انہوں نے کہا ہم TASS سے معذرت اور رپورٹ کی درستگی کی توقع رکھتے ہیں۔ بصورت دیگر، ملکی قانون کے تحت اس کی آذربائیجان میں سرگرمیوں پر اقدامات کیے جائیں گے۔

جمعے کی دوپہر تک TASS نے اپنی رپورٹ میں ’اسٹیپاناکیٹ‘ کا ذکر حذف کر کے اسے ’نگورنو کاراباخ‘ سے بدل دیا، مگر اس تبدیلی کا کوئی نوٹس شائع نہیں کیا۔

یہ تناؤ ایسے وقت میں بڑھ رہا ہے جب جون کے آخر میں روسی شہر یکاتیرنبرگ میں 2 آذربائیجانی شہریوں کی دورانِ حراست ہلاکت کے بعد آذربائیجان نے روسی پولیس پر تشدد اور قتل کے الزامات عائد کیے تھے۔

اس واقعے کے بعد باکو نے روس سے منسلک ثقافتی تقریبات منسوخ کر دیں، کریملن کے حمایت یافتہ ’سپوتنک‘ نیٹ ورک کے مقامی دفاتر پر چھاپے مارے اور روسی شہریوں کو منظم جرائم کے الزام میں گرفتار کیا۔

روسی حکام نے تاحال آذربائیجان کے بیان پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

TASS آذربائیجان اسٹیپاناکیٹ روس روسی میڈیا کاراباخ

متعلقہ مضامین

  • تم کو ’امجد‘ بھی یاد آتا ہے
  • تعلیم کو محور اور امن کی ذمہ دار حکومت بنانا چاہتے ہیں ، حافظ نعیم الرحمن
  • موضوع: بلوچستان۔۔۔۔۔ پاکستان ایران دوستی کا پُل
  • موضوع: بلوچستان....... پاکستان ایران دوستی کا پُل
  • اسرائیلی حملے کا خطرہ برقرار ہے، ایرانی آرمی چیف
  • نواز شریف سے ایرانی صدر پزشکیان کی ملاقات، دونوں رہنماؤں میں کیا گفتگو ہوئی؟
  • خلا کی فتح، زمین کی محرومی
  • بارشیں اورسیلاب: قدرتی آفات میں تیزی
  • حالیہ علاقائی کشیدگی میں چین نے پاکستان کی غیر مشروط حمایت جاری رکھی، احسن اقبال
  • کاراباخ کے متنازع نام پر آذربائیجان اور روس میں نئی کشیدگی