data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتی ہوئی دشمنی ایک بار پھر ایسی شدت کے ساتھ بھڑک اٹھی ہے کہ پورا مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ جو تصادم کبھی صرف نظریاتی اور سرد جنگ کی شکل رکھتا تھا، وہ اب براہ راست، مسلح اور شدت آمیز تصادم میں بدل چکا ہے۔ ڈرونز سرحدیں عبور کر رہے ہیں، پراکسی ملیشیائیں میزائل داغ رہی ہیں، اور سیاسی بیانات میں شدید تندی آ چکی ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ جنگ ہوگی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ کب اور کہاں یہ مکمل آگ کی صورت اختیار کرے گی۔ پاکستان کے لیے، جو مذہب، سیاست، اور سفارت کے کئی دھاگوں سے اس تنازع سے جڑا ہوا ہے، یہ معاملہ صرف نظریاتی نہیں، بلکہ حقیقی اور خطرناک ہے۔ اس دشمنی کی جڑیں کئی دہائیوں پر محیط ہیں، مگر اس کی جدید شکل 1979 کے ایرانی انقلاب سے شروع ہوئی، جب شاہ ایران کا اقتدار ختم ہوا اور آیت اللہ خمینی نے قیادت سنبھالی۔ ایران، جو کبھی اسرائیل کا قریبی اتحادی تھا، یکدم اس کا شدید مخالف بن گیا۔ اسرائیل کو ناجائز ریاست قرار دے کر ایران نے اپنی خارجہ پالیسی کو صہیونیت کے خلاف مزاحمت پر مبنی کر دیا۔ اس پالیسی کا عملی اظہار ایران کی جانب سے حزب اللہ، حماس اور حوثی باغیوں کی حمایت کی صورت میں ہوتا ہے، جنہیں اسرائیل اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔
 آج شام میں ایرانی ٹھکانوں پر اسرائیلی حملے، لبنان میں حزب اللہ کی سرگرمیاں، اور بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملے ایک وسیع اور مربوط پالیسی کا حصہ ہیں۔ یہ تمام واقعات الگ الگ نہیں، بلکہ تہران کی طویل المدتی حکمت ِ عملی کے تحت اسرائیل کو گھیرنے کی کوششیں ہیں۔ دوسری طرف، اسرائیل نے نہ صرف ایرانی اہلکاروں کو نشانہ بنایا ہے بلکہ کئی ایرانی جوہری سائنسدانوں کو بھی قتل کیا اور ساتھ ہی سفارتی محاذ پر عرب ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال میں سعودی عرب کا کردار سب سے نازک ہے۔ ایران کے خلاف ایک روایتی توازن کے طور پر سامنے آنے والا ملک، 2023 میں چین کی ثالثی کے تحت تہران سے تعلقات بحال کر کے دنیا کو حیران کر گیا۔ لیکن یہ صلح محض ظاہری ہے، کیونکہ سعودی عرب اب بھی یمن اور عراق میں ایرانی پراکسیوں سے پریشان ہے۔ اگرچہ سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، مگر اس کے ساتھ انٹیلی جنس اور دفاعی تعاون خفیہ طور پر بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے مشرق وسطیٰ کے منظرنامے کو تبدیل کر دیا۔ انہوں نے ایران نیوکلیئر ڈیل سے علٰیحدگی اختیار کی، یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا، اور عرب ریاستوں کو اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کی ترغیب دی۔ ان اقدامات نے اسرائیل کو مزید جرأت بخشی اور ایران کو چین و روس کی طرف دھکیل دیا۔ ساتھ ہی ساتھ ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا تصور اب محض ایک خواب نہیں، بلکہ ایک فعال سیاسی نظریہ بنتا جا رہا ہے۔
 ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا نظریہ، جو کچھ عرصہ پہلے تک ایک انتہا پسند تصور سمجھا جاتا تھا، اب اسرائیل کی شدت پسند جماعتوں میں مقبول ہوتا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ تورات کی بنیاد پر اسرائیل کی سرحدوں کو نیل سے فرات تک بڑھانے کی خواہش رکھتا ہے۔ اگرچہ سرکاری سطح پر اسرائیل اس نظریے کی تردید کرتا ہے، مگر زمین پر بستیوں کی توسیع، مسجد اقصیٰ پر کشیدگی، اور الحاق کی پالیسیوں نے اس خواب کو ایک قدم قریب کر دیا ہے۔
 یہ تنازع جتنا سیاسی ہے، اتنا ہی مذہبی بھی ہے۔ ایران کی قیادت مہدوی عقائد سے متاثر ہو کر اسرائیل کے خلاف مزاحمت کو دینی فریضہ سمجھتی ہے۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر کچھ طبقات مسجد اقصیٰ کی جگہ تیسرا ہیکل بنانے اور مسیحا کی آمد کو ایک قومی فریضہ سمجھتے ہیں۔ جب مذہبی نظریے عسکری حکمت عملی میں ضم ہو جائیں، تو تصادم کی شدت بڑھ جاتی ہے۔
 عالمی طاقتیں بھی اس کھیل سے باہر نہیں ہیں۔ روس اور چین مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر رسوخ کے لیے ایران کی بقا میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکا، اسرائیل کا دیرینہ اور سخت اتحادی، اب بھی ہر ممکن مدد فراہم کرتا ہے۔
یورپ، جو توانائی اور تجارتی راستوں پر انحصار کرتا ہے، بھی اس کشیدگی سے خوفزدہ ہے۔ اگر ایران نے ہرمز آبنائے بند کی یا اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا، تو عالمی معیشت ہل کر رہ جائے گی۔ ایسے میں پاکستان ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے۔ براہ راست فریق نہ ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے اس تنازع کے اثرات نہایت شدید ہو سکتے ہیں۔ عوامی سطح پر فلسطینیوں سے ہمدردی ہے، جبکہ ایران کے ساتھ سرحدی اور مذہبی تعلقات، اور سعودی عرب سے مالیاتی انحصار— یہ سب مل کر ایک پیچیدہ صورتحال بناتے ہیں۔ پاکستان اگر کسی ایک جانب جھکاؤ دکھاتا ہے، تو فرقہ وارانہ فسادات، سفارتی دباؤ، اور بیرونی مداخلت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
 پاکستان میں مذہبی بیانیہ بھی بہت طاقتور ہے۔ امام مہدی کی آمد، غزوۂ ہند، اور دجال سے متعلق پیش گوئیاں عام ہیں۔ یہ بیانیہ عوامی جذبات کو ابھارتا ہے، مگر ریاستی پالیسی کو اس جذباتیت سے الگ رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ ہم مذہبی جذبات میں فیصلے کر کے ریاست کو عدم استحکام میں جھونک سکتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب پاکستان کو حکمت اور تدبر سے کام لینا ہوگا۔ اس بحران کی ماقبل آخری سطر یقینا ایمان، شہادت اور انصاف کے جذبات سے جڑی ہے۔ لیکن آخری سطر صرف اور صرف ریاستی تدبر اور تزویراتی حکمت کے نام ہونی چاہیے۔ پاکستان کو جذبات کے بجائے غیرجانبداری، ثالثی، اور سفارتی مہارت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایران اور سعودی عرب دونوں سے تعلقات برقرار رکھنا، فلسطینیوں کی حمایت عالمی فورمز پر جاری رکھنا، اور اندرونی ہم آہنگی قائم رکھنا ہی پاکستان کا اصل امتحان ہے۔
 اسرائیل اور ایران کا یہ تنازع صرف ایک بحران نہیں، بلکہ ایک آزمائش ہے— جس میں پاکستان کی خودمختاری، سفارت کاری، اور تدبر کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر ہم ہوش سے کام لیں، تو ہم نہ صرف اس آگ سے بچ سکتے ہیں بلکہ شاید اس آگ میں ایک روشنی کی کرن بن کر ابھریں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اسرائیل کو ایران کی کے ساتھ بھی اس کے لیے
پڑھیں:
امریکا جب تک اسرائیل کی حمایت جاری رکھےگا تو اس کے ساتھ تعاون ممکن نہیں؛سپریم لیڈر ایران
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکا کے ساتھ اس وقت تک تعاون ممکن نہیں، جب تک واشنگٹن اسرائیل کی حمایت جاری رکھنے کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ کے معاملات میں مداخلت کرے گا اور خطے میں اس کے فوجی اڈے قائم رہیں گے۔
سرکاری میڈیا کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر نے کہا کہ امریکی کبھی کبھار کہتے ہیں کہ وہ تہران کے ساتھ تعاون کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس وقت تک ممکن نہیں ہے، جب تک امریکا صیہونی حکومت کی حمایت جاری رکھے، خطے میں اپنے فوجی اڈے برقرار رکھے اور مداخلت کرتا رہے،
خامنہ ای کے یہ ریمارکس ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ ایران پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ امریکا ایران کے ساتھ معاہدہ کرنے کے لیے تیار ہے، جب تہران اس کے لیے تیار ہوگا۔
دونوں ممالک کے درمیان جوہری مذاکرات کے پانچ دور ہو چکے ہیں، جو جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ سے قبل ہوئے تھے، جس میں واشنگٹن نے بھی اہم ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے حصہ لیا تھا۔