ایران کے پاس ایٹم بم بنانے کےلیے تمام ضروری سامان موجود ہے،ترجمان وائٹ ہاؤس
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
ایران کے پاس ایٹم بم بنانے کےلیے تمام ضروری سامان موجود ہے،ترجمان وائٹ ہاؤس WhatsAppFacebookTwitter 0 20 June, 2025 سب نیوز
واشنگٹن: ترجمان وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس ایٹم بم بنانے کےلیے تمام ضروری سامان موجود ہے۔
میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان وائٹ ہاؤس نے کہا کہ ایران کو ایٹم بم بنانے کےلیے صرف رہبرِاعلیٰ کے ایک فیصلے کی ضرورت ہے۔ ایٹمی ہتھیار کی تیاری مکمل ہونے میں چند ہفتے لگیں گے۔
ترجمان نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اگلے دوہفتے میں ایران سے متعلق فیصلہ کریں گے ۔ ایران معاہدہ کرے ورنہ نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کی ایران جنگ میں فوجی مداخلت کاکوئی ثبوت نہیں ملا۔
دوسری جانب ایران کے فردو ایٹمی پلانٹ پر حملے کے لیے امریکی انتظامیہ میں بحث جاری ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ کا کہنا ہے امریکا کو اُس وقت ہی حملہ کرنا چاہیے جب بنکر بسٹر بم فردو پلانٹ کو مکمل تباہ کرسکے۔ امریکی دفاعی حکام کے مطابق فردو پلانٹ تباہ کرنے کیلئے صرف ایک ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار کافی ہوسکتا ہے۔
اسرائیلی انٹیلی جنس کا اندازہ ہے فردو پلانٹ زمین کے نیچے 300 فٹ گہرائی میں ہے، تباہ کرنے کیلئے پہلے روایتی بموں سے زمین کو نرم کرنا پڑے گا ۔ اس کے بعد بی ٹو بمبار کے ذریعے ٹیکٹیکل جوہری حملہ کرنا پڑے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرایران اسرائیل کشیدگی: امریکا کا جنگ میں فوری شامل نہ ہونے کا اشارہ، ٹرمپ دو ہفتوں میں فیصلہ کریں گے ایران اسرائیل کشیدگی: امریکا کا جنگ میں فوری شامل نہ ہونے کا اشارہ، ٹرمپ دو ہفتوں میں فیصلہ کریں گے ٹرمپ کا ایران پر حملہ کرنے کا فیصلہ مؤخر کرنے کی وجہ سامنے آگئی سپریم لیڈر نے پاسداران انقلاب کی بری فورس کا نیا کمانڈر تعینات کردیا ٹرمپ نے ایران پر حملے کے منصوبے کی منظوری کی خبرکو مستردکر دیا ایران پر اسرائیلی جارحیت کیخلاف امریکا میں احتجاج، مظاہرین کا ٹرمپ سے جنگ میں نہ الجھنے کا مطالبہ اسرائیلی وزیر دفاع کی ہسپتال پر حملے کے بعد آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کرنے کی دھمکیCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ترجمان وائٹ ہاؤس ایران کے کرنے کی
پڑھیں:
سندھ حکومت اور وفاق ایک پیج پر، گندم کی درآمد روکنے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد میں وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان اہم ملاقات میں گندم کی پیداوار بڑھانے اور کسی بھی صورت گندم درآمد نہ کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
یہ ملاقات وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی رانا تنویر کے درمیان ہوئی جس میں چیف سیکرٹری سندھ آصف حیدر شاہ اور معاون خصوصی برائے خوراک جبار خان بھی شریک تھے۔ اس موقع پر فیصلہ کیا گیا کہ درآمد پر انحصار کرنے کے بجائے مقامی کاشتکاروں کی بھرپور حوصلہ افزائی اور معاونت کی جائے گی تاکہ ملک میں گندم کی پیداوار میں اضافہ ہو۔ ساتھ ہی اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ گندم کے حوالے سے ایک نیشنل پالیسی صوبوں کی مشاورت سے تشکیل دی جائے گی۔
اجلاس کے دوران بتایا گیا کہ اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 3300 سے 4000 روپے کے درمیان ہے، اس لیے ایسی پالیسی بنانی ہوگی جس سے براہ راست کاشتکار کو فائدہ ہو، نہ کہ بیچ میں موجود مڈل مین کو۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو پہلے ہی فوڈ سکیورٹی کے خطرات کی نشاندہی کر چکے ہیں، اس لیے کاشتکاروں کو بہتر سپورٹ پرائس دینا ناگزیر ہے۔ گزشتہ سال گندم کی بوائی میں 6 فیصد کمی واقع ہوئی تھی، اگر کسانوں کو اچھی قیمت دی جائے تو وہ گندم اگانے پر راغب ہوں گے۔
مراد علی شاہ نے مزید کہا کہ سندھ میں سالانہ تقریباً 34 لاکھ 52 ہزار میٹرک ٹن گندم کی پیداوار ہوتی ہے جبکہ اس وقت صوبے کے پاس 13 لاکھ 85 ہزار میٹرک ٹن ذخائر موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ مختلف اجلاسوں میں سندھ اور بلوچستان کی ضروریات اور ذخائر کا جائزہ لیا گیا ہے، اور اندازوں کے مطابق نئی فصل آنے تک گندم کے ذخائر موجود رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال سب سے بڑی غلطی سپورٹ پرائس مقرر نہ کرنا تھی جس سے کاشتکاروں کو بھاری نقصان ہوا اور کئی کسان اپنی زمینیں بیچنے پر مجبور ہوگئے۔
وفاقی وزیر رانا تنویر نے ملاقات میں کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر وہ گندم کے معاملے پر صوبوں سے بات کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اس بات کی خواہاں ہے کہ اسٹریٹیجک گندم کے ذخائر ہر حال میں موجود ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سے بھی اس حوالے سے بات ہوچکی ہے اور جلد ہی ایک مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا تاکہ ملک میں فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔