ایران میں عدم استحکام سے پاکستانی سرحد پر عسکریت پسندی میں اضافے کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 جون 2025ء) ایران کے خلاف اسرائیل کے مسلسل حملوں کے درمیان اسرائیلی عہدیدار بار بار اس بات کا اشارہ کرچکے ہیں کہ ان کا مقصد ایرانی حکومت کو غیر مستحکم کرنا یا اسے گرانا ہے۔
ان خدشات کا بھی اظہار کیا جارہا ہے کہ ایران میں جاری افراتفری اطراف کے ملکوں میں بھی پھیل سکتی ہے۔ پاکستان کو اسرائیل کی جانب سے کسی دوسرے ملک کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی قائم کی گئی نظیر پر تشویش ہے۔
مئی میں ہی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس حریف پاکستان اور بھارت کے درمیان چار دنوں تک تصادم کا سلسلہ جاری رہا۔پاک ایران سرحدی علاقوں میں بڑھتی کشیدگی، وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان کے آرمی چیف، فیلڈ مارشل عاصم منیر، کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں بدھ کو لنچ کے بعد صدر ٹرمپ نے اسرائیل ایران تنازعہ پر پاکستان کے موقف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "وہ کسی چیز سے خوش نہیں ہیں۔
(جاری ہے)
"پاکستان کی فوج نے جمعرات کو کہا کہ دونوں رہنماؤں نے ایران کے تنازع پر بات چیت کی اور دونوں نے تنازع کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
ایران اسرائیل تنازع پر پاکستان کا موقفپاکستان نے ایران پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی ہے۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو کہا کہ "پاکستان ایران پر غیر منصفانہ اسرائیلی حملے کی مذمت کرتا ہے۔
ایران ایک قریبی دوست اور ہمسایہ ہے جو ہم بارہا کہہ چکے ہیں۔ ایران میں رجیم چینج ایک مفروضہ ہے اس پر بات نہیں کریں گے۔"اسرائیل ایران تصادم: پاکستان کے اندرونی مسائل پس منظر میں چلے گئے؟
انہوں نے کہا، "عالمی برادری کو فی الفور جنگ بندی کروانی چاہیے۔ ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے ہمارے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے اس سے پورے علاقے کا امن خطرے میں پڑ گیا ہے۔
"خیال رہے کہ ایران مخالف اور پاکستان مخالف تنظیمیں دونوں طرف کے 900 کلومیٹر طویل سرحد پر سرگرم ہیں۔
عسکریت پسند موجودہ حالات سے خوشسرحد پر سرگرم کچھ عسکریت پسند گروپوں نے موجودہ صورت حال کا خیر مقدم کیا ہے۔
نسلی بلوچ اور سنی مسلم اقلیتوں پر مشتمل ایک ایرانی جہادی گروپ، جیش العدل، جو پاکستان سے اپنی سرگرمیاں چلاتا ہے، نے کہا کہ ایران کے ساتھ اسرائیل کا تنازعہ ان کے لیے بہت شاندار موقع ہے۔
گروپ نے تیرہ جون کو ایک بیان میں کہا، "جیش العدل ایران کے تمام لوگوں کے ساتھ بھائی چارے اور دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اور تمام لوگ بالخصوص بلوچستان کے عوام اور مسلح افواج بھی مزاحمت کی صفوں میں شامل ہوں۔"
ایران کو پاکستانی فوجی امداد کی خبریں ’جعلی اور من گھڑت‘، اسحاق ڈار
پاکستان کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ اس کی اپنی بلوچ اقلیت، جو ایران میں مقیم ہیں، بھی حملوں کو تیز کرنے کے لئے اس موقع کا استعمال کرسکتے ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا، "اس بات کا خدشہ ہے کہ جن جگہوں پر حکومت کا کنٹرول نہیں ہے وہ دہشت گرد گروپوں کے لیے زرخیز زمین بن سکتے ہیں۔"
پاکستان کی غیر مستحکم سرحدیں طالبان کے زیر انتظام افغانستان کے ساتھ ساتھ روایتی حریف بھارت کے ساتھ بھی لگتی ہیں۔ اور وہ ایران کے ساتھ اپنی سرحدوں پر ایک اور ناموافق صورت حال نہیں چاہتا۔
ایران اور پاکستان دونوں کے سرحدی علاقے میں نسلی اقلیتی بلوچ آباد ہیں۔ ان کی دیرینہ شکایت ہے کہ ان کے ساتھ تفریقی سلوک کیا جاتا ہے۔ انہوں نے علیحدگی پسندی کی تحریکیں چلا رکھی ہیں۔ پاکستان کے طرف یہ صوبہ بلوچستان کہلاتا ہے جبکہ ایران کی طرف سیستان بلوچستان۔
بدلتے حالاتایران پر اسرائیل کی بمباری تک تہران پاکستان کے سخت حریف بھارت کے قریب تر تھا۔
حتیٰ کہ ایران اور پاکستان نے ایک دوسرے پر بلوچوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتے ہوئے گزشتہ سال فضائی حملے بھی کئے۔ لیکن ایران پر اسرائیل کے حملے نے اتحاد کو نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت نے اسرائیل کی بمباری کی مذمت نہیں کی ہے۔چین نے بھی کہا کہ اسے بلوچستان میں سکیورٹی کی صورتحال کے بارے میں گہری تشویش ہے۔ چین اس علاقے میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، جس کا مرکز گوادر بندرگاہ ہے۔
پاکستان میں بلوچ عسکریت پسند گروپوں نے ماضی میں چینی اہلکاروں اور منصوبوں کو نشانہ بنایا ہے۔سرحد کے ایرانی جانب، تہران نے مختلف اوقات میں پاکستان، خلیجی ممالک، اسرائیل اور امریکہ پر ایران مخالف بلوچ گروپوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا ہے۔
اسلام آباد میں مقیم ایک تجزیہ کار سنبل خان کا خیال ہے کہ مختلف بلوچ گروپ ایک "عظیم تر بلوچستان" میں تبدیل ہو سکتے ہیں، جو پاکستان اور ایران کے بلوچ علاقوں پر مشتمل ایک نیا ملک بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
سنبل خان کا کہنا تھا کہ اگر"ایسا موقع آیا تو یہ سب سب مل کر لڑیں گے۔"
ادارت: صلاح الدین زین
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان کے ان کے ساتھ ایران میں ایران کے کہ ایران ایران پر کہا کہ
پڑھیں:
اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو کیسے شہید کیا؟ ایران نے حیران کن تفصیلات جاری کردیں
ایران کی پاسداران انقلاب نے انکشاف کیا ہے کہ حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو ان کے موبائل فون کے سگنلز کو ٹریس کرکے میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق پاسداران انقلاب کے ترجمان علی محمد نائینی نے بتایا کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل میں کسی اندرونی سازش یا تخریب کاری کا کوئی عنصر شامل نہیں تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ میزائل ایک خاص فاصلے سے داغا گیا، جو کھڑکی سے سیدھا اندر داخل ہوا اور اس وقت اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا جب وہ فون پر بات کر رہے تھے۔
علی محمد نائینی نے ایسی تمام صحافتی تحقیقاتی رپورٹس کو غلط قرار دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ بم کمرے تک کسی ایرانی شہری کے ذریعے پہنچایا گیا تھا یا یہ ایک بیرونی میزائل حملہ تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس نیو یارک ٹائمز نے دعویٰ کیا تھا کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت ایک خفیہ طور پر نصب کیے گئے ریموٹ کنٹرول بم سے ہوئی تھی۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ خفیہ ریموٹ کنٹرول بم اسماعیل ہنیہ کے اس کمرے میں قیام سے مہینوں قبل مہمان خانے میں نصب کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ اسماعیل ہنیہ 31 جولائی 2024 کو تہران میں اس وقت شہید کیا گیا تھا جب وہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے بعد دارالحکومت کے ایک مہمان خانے میں رات قیام کے لیے پہنچے تھے۔
یہ مہمان خانہ تہران کے حساس ترین علاقے میں واقع ہے جس کی نگرانی پاسداران انقلاب کے پاس ہے۔ اس لیے اس مقام کو محفوظ ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔
ایران نے قتل کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی تھی لیکن ابتدا میں خاموشی کے 6 ماہ بعد اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گالانٹ نے تسلیم کیا کہ یہ کارروائی اسرائیل نے انجام دی۔
واقعے کے بعد ایران نے فوری ردِعمل نہیں دیا، تاہم دو ماہ بعد، یکم اکتوبر 2024 کو ایران نے اسرائیل پر تقریباً 80 بیلسٹک میزائل داغے۔
ایران نے اس حملے کو اسماعیل ہنیہ، حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور آئی آر جی سی جنرل عباس نیلفروشان کی ہلاکتوں کا بدلہ قرار دیا۔
پاسدران انقلاب کے ترجمان کے بقول ایران کی قومی سلامتی کونسل نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کے فوری بعد فیصلہ کیا تھا کہ جوابی کارروائی لازمی ہوگی لیکن وقت کا تعین عسکری قیادت پر چھوڑا گیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ شہادت کے بعد ایران کی پہلی براہِ راست کارروائی اپریل 2024 کے بعد پیدا ہونے والی عسکری مشکلات کے باعث تاخیر ہوئی لیکن حملے کا فیصلہ برقرار رہا۔
ایران کے اس میزائل حملے سے اسرائیل میں لاکھوں افراد کو پناہ گاہوں میں جانا پڑا ایک فلسطینی ہلاک اور دو اسرائیلی زخمی ہوئے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق حملے سے تقریباً 46 سے 61 ملین ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔
بعد ازاں 26 اکتوبر 2024 کو اسرائیل نے ایران میں ڈرون اور میزائل سازی کے مراکز کو نشانہ بنایا، جسے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافہ ہوا جو تاحال برقرار ہے۔