پارلیمینٹیرینز کافی کارنر: قومی اسمبلی میں روایت اور جدت کا امتزاج WhatsAppFacebookTwitter 0 20 June, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

پارلیمانی عمارت کی خاموش عظمت میں کچھ خیالات محض ایوان میں ہونے والی بحث سے نہیں، بلکہ ان درمیانی خلاؤں میں جنم لیتے ہیں—جہاں آوازیں بغیر مائیکروفون کے گونجتی ہیں اور خیالات رسمی حدود کے بغیر بہتے ہیں۔ قومی اسمبلی پاکستان میں ایک ایسا ہی بامعنی اور دل آویز قدم اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر قیادت اٹھایا گیا ہے۔ تین بار منتخب ہونے والے یہ اسپیکر صرف تجربہ کار پارلیمنٹیرین ہی نہیں بلکہ بصیرت، تدبر اور ترقی پسند سوچ کے حامل رہنما ہیں۔ ان کی قیادت میں پارلیمنٹ صرف قانون سازی کا مرکز نہیں رہی بلکہ مکالمے، شائستگی اور شمولیت کے اقدار کا امین ادارہ بنتا جا رہا ہے۔

اسپیکر کی اصلاحات میں—پارلیمنٹ کی چھت اور پارکنگ پر شمسی توانائی کے پینلز کی تنصیب، پائیدار ترقی کے اہداف کے لیے سیکرٹریٹ کا قیام، خواتین پارلیمنٹرینز اور عملے کے بچوں کے لیے ڈے کیئر سینٹر کا آغاز—ایک اور انقلابی قدم پارلیمنٹیرینز کے لیے ‘کافی کارنر’ کا قیام ہے۔ بظاہر یہ ایک سادہ سی سہولت لگتی ہے، مگر درحقیقت یہ ایک گہرا پیغام لیے ہوئے ہے؛ کہ خیالات ہمیشہ تصادم سے نہیں، اکثر مکالمے سے جنم لیتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ کافی اور چائے خانوں نے ہمیشہ فکر و دانش، مکالمے اور حتیٰ کہ انقلابات کو جنم دیا ہے۔ سترہویں صدی کے انگلینڈ میں کافی ہاؤسز کو “پینی یونیورسیٹیز” کہا جاتا تھا، جہاں صرف ایک پینی کی چائے سے کوئی بھی دانشوروں، تاجروں، ادیبوں اور مفکرین سے تبادلہ خیال کر سکتا تھا۔ فرانس میں پیرس کے معروف کیفے جیسے ‘کافے دے فلور’ اور ‘لے دو میگو’ ژاں پال سارتر اور سِمون دی بوواغ کی فکری نشستوں کے امین تھے۔ ویانا کے کیفے ہاؤسز سگمنڈ فرائڈ، لیون ٹراٹسکی اور وٹگنسٹائن جیسے اذہان کی غیر رسمی گفتگو سے علم و فکر کی تحریکوں کی بنیاد بنے۔ برطانیہ کی دارالعوام میں ممبران ‘پارلیمنٹری ٹی روم’ کا رخ کرتے ہیں، جہاں جماعتی اختلاف سے بالاتر ہو کر غیر رسمی تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ امریکی کیپیٹل ہِل میں بھی کیفے اور لاؤنجز وہ جگہیں ہیں جہاں دو طرفہ اتفاق رائے کی پہلی چنگاری اکثر خاموش گفتگو سے جنم لیتی ہے۔

قومی اسمبلی میں کافی کارنر کا قیام اسی عالمی روایت کی توسیع ہے۔ جب سیاست تناؤ، تقسیم اور شور و غوغا سے بھرپور ہو جائے، تو ایسی جگہیں جہاں ممبرانِ پارلیمنٹ بغیر کیمروں، بغیر نوٹسز اور بغیر دباؤ کے آمنے سامنے بیٹھ سکیں، وہ محض سہولت نہیں بلکہ جمہوری تقاضا بن جاتی ہیں۔ ایسی فضا میں شائستگی پروان چڑھتی ہے، فہم پیدا ہوتا ہے، اور خاموشی میں سننے کی سفارتکاری پنپتی ہے۔ وہ وقت شاید دور نہیں جب قومی فیصلوں پر اتفاق رائے کسی زوردار تقریر سے نہیں بلکہ ایک پیالی چائے کے ساتھ ہونے والی سرگوشیوں سے جنم لے۔

پاکستان کا اپنا تاریخی ورثہ بھی اس روایت سے جڑا ہے۔ لاہور کا ‘پاک ٹی ہاؤس’، جو کبھی فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو اور حبیب جالب کی آماجگاہ تھا، محض چائے کا مرکز نہیں، مزاحمت اور ذہانت کا گہوارہ تھا۔ ‘شیزان’ ریستوران بھی ایک ایسا مقام تھا جہاں اعلیٰ ذوق، فکری گفتگو اور تہذیب ملتی تھی۔ کراچی کے ایرانی کیفے، کوئٹہ اور پشاور کے حجرے اور چائے خانے، سب ایسی ہی فضا کے حامل تھے—جہاں عنوانات کے بغیر دانش اُگتی تھی، اور غیر رسمی فیصلے مقامی روایتوں کو جنم دیتے تھے۔

سردار ایاز صادق جو کچھ پارلیمنٹ کے اندر کرنا چاہتے ہیں، وہ سیاست میں ایک بھولی بسری نفاست کی بحالی ہے؛ ایک ایسا مکالمہ جو ہنگامے سے نہیں، سکون سے مزین ہو۔ کافی کارنر محض چائے یا ایسپریسو کی جگہ نہیں، بلکہ غور و فکر کی ایک گہری علامت ہے۔ یہ نہ صرف پارلیمنٹرینز کو سیراب کرتا ہے بلکہ جمہوری روح کو یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ پارلیمنٹ کی اصل طاقت اس کی عمارت میں نہیں بلکہ اس تعلق میں ہے جو وہ اپنے ممبران کے مابین قائم کرتی ہے۔

اسپیکر کی دیگر اصلاحات بھی اسی خیال کا تسلسل ہیں—نگہداشت، ترقی اور شمولیت کی اقدار کو آگے بڑھاتے ہوئے۔ شمسی توانائی کا منصوبہ ماحولیاتی ذمہ داری کا مظہر ہی نہیں بلکہ خود انحصاری کا پیغام بھی ہے۔ ایس ڈی جیز سیکرٹریٹ پاکستان کی مقننہ کو عالمی ترقیاتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔ ڈے کیئر سینٹر اس بات کی دلیل ہے کہ ماں بننا کسی خاتون کی عوامی خدمت میں رکاوٹ نہیں بلکہ ایک قیمتی اثاثہ ہے۔

تاہم ان تمام اقدامات میں کافی کارنر ایک نادیدہ دھاگہ ہے—انسانی ربط کا دھاگہ—جو اگر بخوبی بُنا جائے، تو پارلیمانی شائستگی کی چادر بن جاتا ہے۔ جب دنیا شور میں ڈوب جائے، اور تقسیم مزید گہری ہو جائے، تو ایسے سکون کے مقامات بیش قیمت بن جاتے ہیں۔ سردار ایاز صادق نے پارلیمنٹ کے قلب میں ایسا مقام تراش کر ثابت کیا کہ قیادت صرف حکم دینے کا نام نہیں بلکہ ایسی فضا تشکیل دینے کا نام ہے جہاں دوسروں کو سوچنے، بولنے اور اختلاف کرنے کا حق میسر ہو—شائستگی کے ساتھ۔

آخر میں، جس طرح پاک ٹی ہاؤس کے شاعروں کا ماننا تھا کہ “ایک مکالمہ دنیا بدل سکتا ہے”، ویسے ہی قومی اسمبلی کے نئے کافی کارنر میں ہونے والی کوئی گفتگو جمہوریت کو صرف کارآمد ہی نہیں بلکہ باوقار بھی بنا سکتی ہے۔ کیونکہ جب ارکانِ پارلیمنٹ صرف مباحثہ نہیں بلکہ سننا بھی سیکھتے ہیں، تو پھر وہ بہتر حکمرانی بھی کرتے ہیں۔ اور یہی—کسی بھی زبان میں—ترقی کی اصل خوشبو ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرامریکہ تاریخ کے دریئچہ میں امریکہ تاریخ کے دریئچہ میں دنیا کی جنگیں: پاکستانی کسان کا مقام بمقابلہ بھارتی کسان میدان جنگ سے سفارت کاری تک: پاکستان کی منفرد فتح تاریخ اور تلخیاں دو تنازعات، ایک ایجنڈا: مسلم خودمختاری پر مشترکہ جارحیت مذہبی جنونی رہبر دنیا کے امن کیلئے سنگین خطرہ بن گئے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: قومی اسمبلی کافی کارنر

پڑھیں:

بھارت میں بیٹی کو بوجھ سمجھنے کی روایت ایک اور معصوم پر بھاری

بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کے ضلع شاہجہانپور میں زندہ دفن کی گئی 20 دن کی نومولود بچی کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے، جہاں وہ نازک حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔

یہ دلخراش واقعہ اس وقت سامنے آیا جب ایک چرواہے نے بکریاں چَراتے ہوئے زمین کے نیچے سے رونے کی مدہم آواز سنی۔ قریب جانے پر اس نے مٹی میں سے ایک ننھا ہاتھ باہر نکلا دیکھا۔ اطلاع ملنے پر گاؤں والے اور پولیس پہنچی اور بچی کو مٹی سے نکالا۔

بچی کو سرکاری میڈیکل کالج اسپتال کے نوزائیدہ بچوں کے آئی سی یو میں داخل کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے نومولود بچی کو شاپر میں بند کر کے سڑک کنارے چھوڑ دیا گیا، ویڈیو وائرل

اسپتال کے پرنسپل ڈاکٹر راجیش کمار کے مطابق جب بچی کو لایا گیا تو وہ مٹی سے لتھڑی ہوئی تھی، اس کے منہ اور ناک میں مٹی بھری تھی اور سانس لینے میں دشواری تھی۔ جسم پر کیڑوں اور کسی جانور کے کاٹنے کے نشانات بھی تھے۔

ڈاکٹر کے مطابق ابتدا میں معمولی بہتری آئی، لیکن بعد ازاں بچی کی حالت بگڑ گئی اور انفیکشن ہو گیا۔ انہوں نے بتایا کہ حالات تشویشناک ہیں، لیکن ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ بچی کی جان بچائی جا سکے۔

پولیس کے مطابق اب تک بچی کے والدین یا ملزمان کا سراغ نہیں مل سکا۔ بچی کو چائلڈ ہیلپ لائن کے حوالے بھی کر دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 20 لاوارث بچوں کا سہارا بننے والی ٹنڈو محمد خان کی مدر ٹریسا کون ہے؟

بھارت میں نومولود بچیوں کو زندہ دفن کرنے یا چھوڑ دینے کے واقعات کوئی نئے نہیں۔

ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ بیٹے کی خواہش اور بیٹی کو بوجھ سمجھنے کا رویہ ہے، جو ملک میں بگڑے ہوئے جنس کے تناسب (Gender Ratio) کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بھارت نومولود دفن

متعلقہ مضامین

  • البانیہ میں تاریخ رقم: دنیا کے پہلے اے آئی وزیر کا پارلیمنٹ میں خطاب
  • مصنوعی ذہانت سیاست میں داخل، البانیہ کے وزیر کا پارلیمنٹ سے پہلا خطاب
  • بھارت میں بیٹی کو بوجھ سمجھنے کی روایت ایک اور معصوم پر بھاری
  • سپیکر قومی اسمبلی کا حریت رہنما پروفیسر عبدالغنی بھٹ کے انتقال پر اظہار تعزیت
  • پاکستان امت مسلمہ کی واحد امید ہے، اسپیکر قومی اسمبلی
  • تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے شہبازشریف حکومت کی خارجہ پالیسی کی تعریف کردی
  • مالدیپ کے سپیکر کی سربراہی میں وفد کی ایاز صادق سے ملاقات
  • پی ٹی آئی کا قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ
  • کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری