امریکہ اسرائیل کا کہاں تک ساتھ دے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 20th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: ایران نے جس طرح کی اپنی میزائل پاور دکھائی وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ وہ امریکہ جس سے اسرائیل کی ساری امیدیں وابستہ تھیں، اسرائیل کی دیرینہ خواہش کے باوجود فوری طور پر ایران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکا بلکہ اس کی بجائے ٹرمپ نے اب یہ کہا ہے کہ وہ اس جنگ میں داخل ہونے کا فیصلہ دو ہفتے کے بعد کرے گا۔ ایک ہفتے میں اسرائیل کا جو حشر ہوا ہے گویا اگر یہی رفتار رہی تو دو ہفتے کے بعد اسرائیل کی حالت موجودہ حالت سے تین گنا زیادہ خراب ہوگی۔ تحریر: سید تنویر حیدر
امریکہ اپنی دوستی کی بجائے اپنی دشمنی سے زیادہ پہچانا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں اگر کسی کو کسی کی خالص دشمنی کا ذائقہ چکھنا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ امریکہ کی ذلف گرہ گیر کا اثیر ہو جائے۔ امریکہ اپنے چاہنے والوں سے جس طرح کا سلوک کرتا ہے، منیر نیازی کا یہ مصرعہ اس سلوک کی خوب ترجمانی کرتا ہے:
میں جس سے پیار کرتا ہوں
اسی کو مار دیتا ہوں
امریکہ کے اس دام الفت سے جڑی بہت سی کہانیاں ”انٹرنیشنل ریلیشنز“ پڑھنے والے طلباء کو فرفر یاد ہیں۔ امریکہ کی بے وفائی کی ان تمام داستانوں کو جاننے کے باوجود امریکی مدد سے لیلئ اقتدار کو حاصل کرنے والوں کو یہ گماں رہتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے امریکہ کی ذلفوں کے سایے تلے رہیں گے۔ ایسے خوش گمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ پر اپنا تن من دھن سب کچھ نچھاور کرکے اس کی محبت خرید لیں گے لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ جس امریکی بیڑے سے مدد کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ آپ کو طوفانی لہروں سے بچانے کے لیے نہیں بلکہ اس کا کام محض آپ کے دریا برد ہونے کا تماشا دیکھنا ہے۔
ہم یہاں امریکہ کو اپنی امیدوں کا مرکز سمجھنے والے ان مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں، سیاسی جماعتوں یا شخصیات کا ذکر نہیں کرتے جو امریکہ کی بے وفائی کا شکار ہوئے بلکہ اس کا ذکر کرتے ہیں جو امریکہ کی جان سمجھا جاتا ہے اور جو امریکہ سے ہے اور امریکہ اس سے ہے۔ ہماری مراد امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل سے ہے۔ اسرائیل کو امید تھی کہ جب بھی اس پر کوئی حملہ آور ہوا امریکہ فوراً آگے آکر اس کی ڈھال بن جائے گا۔ اسرائیل نے جب ایران پر حملہ کیا تو امریکہ نے اس قسم کے بیانات دیئے جس سے یہ ظاہر ہوا کہ امریکہ بس ایران کے خلاف جنگ میں کودا کہ کودا۔
یہ خیال تب تک پختہ تھا جب تک ایران نے پلٹ کر وار نہیں کیا لیکن ایران کے جوابی حملے کے بعد گویا ”این خیال است محال است و جنون“۔ ایران نے جس طرح کی اپنی میزائل پاور دکھائی وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ وہ امریکہ جس سے اسرائیل کی ساری امیدیں وابستہ تھیں، اسرائیل کی دیرینہ خواہش کے باوجود فوری طور پر ایران کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر سکا بلکہ اس کی بجائے ٹرمپ نے اب یہ کہا ہے کہ وہ اس جنگ میں داخل ہونے کا فیصلہ دو ہفتے کے بعد کرے گا۔
ایک ہفتے میں اسرائیل کا جو حشر ہوا ہے گویا اگر یہی رفتار رہی تو دو ہفتے کے بعد اسرائیل کی حالت موجودہ حالت سے تین گنا زیادہ خراب ہوگی لیکن اگر اسی دوران جنگ کی شدت میں مزید اضافہ ہوا تو پھر اس وقت تک پلوں پر سے بہت سا پانی بہ چکا ہوگا۔ البتہ یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ امریکہ آئندہ کسی مرحلے پر اس جنگ میں شامل نہیں ہوگا۔ آئندہ آنے والے حالات امریکہ کے کردار کو واضح کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: دو ہفتے کے بعد اسرائیل کی وہ امریکہ امریکہ کی ایران کے بلکہ اس
پڑھیں:
ایران کے ساتھ کوئی نیا فوجی تعاون نہیں ہوا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 19 جون2025ء) وزیر دفاع نے ایران کو عسکری مدد فراہم کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ کوئی نیا فوجی تعاون نہیں ہوا، ایران کے ساتھ 13 جون کے بعد کسی نئے دفاعی معاہدے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی، ایران کے ساتھ بارڈر سیکیورٹی کے حوالے سے معمول کے رابطے جاری ہیں۔ تفصیلات کے مطابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے عرب نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں ایران اسرائیل کشیدگی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے ساتھ کوئی نیا فوجی تعاون نہیں ہوا اور 13 جون کے بعد کسی نئے دفاعی معاہدے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی۔ ایران کے ساتھ بارڈر سیکیورٹی کے حوالے سے معمول کے رابطے جاری ہیں، جبکہ اسرائیل اور ایران کی کشیدگی پر امریکا سے کسی مخصوص بات چیت نہیں ہوئی۔(جاری ہے)
پاکستان کی خارجہ پالیسی کی توجہ چین اور مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات پر مرکوز ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ موجودہ تنازع پورے خطے کو تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے، اسی لیے پاکستان خطے کے ممالک کو امن کے لیے متحرک کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر اسرائیل ایران تنازع طول پکڑتا ہے تو پاکستان کو اپنی سرحدی سیکیورٹی پر زیادہ توجہ دینا ہوگی، لیکن پاکستان کی اولین ترجیح امن کی کوششیں ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا کہ تصادم بڑھنے کی صورت میں عالمی توانائی کی سپلائی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر محفوظ اور مضبوط حفاظتی انتظامات کے تحت ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ فی الحال اسرائیل سے کسی فوری خطرے کا امکان نہیں، اور پاکستان اپنی جوہری تنصیبات کے تحفظ پر مکمل اطمینان رکھتا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے پاکستان کو ایران سے جوڑنے والے بیانات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہر ممکنہ خطرے پر چوکنا ہے۔ مسلح افواج بھارت کے ساتھ حالیہ جھڑپوں کے بعد مسلسل ہائی الرٹ پر ہیں۔ خواجہ آصف نے اسرائیل کو توسیع پسند ریاست قرار دیتے ہوئے کہا کہ غزہ اور ایران پر اسرائیلی جارحیت خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی میں جوہری اثاثے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، جبکہ عالمی رائے عامہ بھی اب اسرائیلی پالیسیوں کے خلاف ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ جنگ میں پاکستان نے بھارت کے خلاف اپنی عسکری برتری بھی ثابت کی ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ پاکستان کی دفاعی صلاحیت اسرائیل کو کسی بھی مہم جوئی سے روکنے کے لیے کافی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ نیتن یاہو یا اسرائیلی حکومت پاکستان سے ٹکرانے کا سوچ سکتی ہے۔