Express News:
2025-06-21@01:39:35 GMT

ججز تبادلہ کیس کا فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تبادلہ کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ججز کے تبادلہ کو آئینی اور قانون کے مطابق قرار دے دیا ہے۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سنیارٹی کا معاملہ طے ہونے تک بطور چیف جسٹس کام جاری رکھنے کا بھی کہا ہے۔

تاہم سنیارٹی کا معاملہ طے کرنے کے لیے صدر مملکت کو کہا گیا ہے۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی سنیارٹی کا معاملہ واپس صدر مملکت کے پاس چلا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے خود یہ معاملہ طے نہیں کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ تبادلہ کو نئی تعیناتی نہیں کہا جاسکتا ۔

یہ فیصلہ دو تین کے تناسب سے آیا ہے۔ تین ججز نے تبادلہ کو درست قرار دیا ہے۔ جب کہ دو ججز نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا ہے اور اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ تین ججز نے ججز کے تبادلے کے نوٹفکیشن کو آئینی قرار دیا ہے۔ جب کہ دو ججز نے نوٹفکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا کہا ہے۔

صدر مملکت کا ججز کے تبادلے کا اختیار آئین میں موجود ہے۔ اسی لیے اکثریتی ججز نے قرار دیا ہے کہ آئین میں دیے گئے اختیارات کو کوئی قانون ختم نہیں کر سکتا۔ یہ سادہ بات ہے کہ آئین کو قانون پر ترجیح حاصل ہے۔ اگر آئین وقانون میں اختلاف ہو تو آئین کی جیت ہوگی۔قانون کی آئین کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے صدر مملکت کے آئینی اختیار کو نہ تو کوئی عدالت ختم کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی قانون ختم کر سکتا ہے۔

یہ کیس اس لیے بھی دلچسپ تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ججز کی تعیناتی کا اختیار جیوڈیشل کمیشن کو حاصل ہے۔ اس لیے عدالت کے سامنے یہ نقطہ بھی تھا کہ ججز کے تبادلے کا اختیار جیوڈیشل کمیشن کو حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کیا ججز کے تبادلے بھی جیوڈیشل کمیشن کے پاس نہیں ہونے چاہیے۔ ان تبادلوں کی توثیق جیوڈیشل کمیشن سے ہونی چاہیے۔ لیکن اب یہ آئین کی دو الگ الگ شقیں ہیں۔ تبادلے کا اختیار صدر کو بھی آئین نے دیا ہے۔ جب کہ نئے ججز کی تعیناتی کا اختیار بھی صدر مملکت کو آئین نے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے دنوں شقوں کو درست قرار دیا ہے۔

یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ جن کا موقف تھا کہ یہ تبادلے غیر آئینی ہیں اور ان ججز کا موقف تھا کہ جب ایک جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ ہوتا ہے تو اسے نئی تعیناتی قرار دیا جائے۔ اسے نیا حلف لینا چاہیے۔ اس کی پرانے ہائی کورٹ کی سنیارٹی ختم تصور کی جائے اور تبادلے کے بعد نئے ہائی کورٹ میں نئی سنیارٹی اور نئی تعیناتی قرار دی جائے۔ اب یہ منطق قابل فہم نہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ججز بھی ریاست کے ملازم ہیں۔ ان کی خود مختاری انھیں نہ تو آئین سے بالا بناتی ہے اور نہ ہی قانون سے بالا بناتی ہے۔ ججز آئین وقانون کے ماتحت ہی ہیں۔ انھیں کام بھی آئین وقانون کے دائرے میں ہی کرنا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہم ججز کی ایک یونین بھی دیکھتے ہیں۔ پہلے چھ ججز نے ایک خط لکھا۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہائی کورٹ کے جج کے پاس عدلیہ کے نظام میں مداخلت روکنے کے تمام اختیارات موجود ہیں۔ اسے کسی سے مدد مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی بیرونی مداخلت تھی تو جج خود روک سکتے تھے۔

اب دوسری طرف کی یہ دلیل بھی ہے کہ جب بانی تحریک انصاف کے مقدمات کے لیے تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ اسلام آباد ہائی کورٹ اکٹھے ہوتے ہیں، چیف جسٹس کے سیکریٹری کو ملتے ہیں، رجسٹرار کو ملتے ہیں تو کیا یہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں۔ کیا صرف اسٹبلشمنٹ کا دباؤ ڈالنا غلط ہے اور تحریک انصاف کا دباؤ ڈالنا جائز ہے۔ کیا اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی خط لکھ دینا چاہیے۔ نہیں میں خطوں کو سیاسی خط سمجھتا تھا۔ اور سمجھتا ہوں۔

بہر حال میں سمجھتا ہوں اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے ججز جس مقصد کے لیے سپریم کورٹ گئے تھے انھیں وہ حاصل نہیں ہوا بلکہ الٹا کافی نقصان ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو تا حکم ثانی چیف جسٹس کے عہدہ پر برقرا ر رہنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اب وہ جیوڈیشل کمیشن کی توثیق کے بھی محتاج نہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پہلے صدر مملکت سنیارٹی کا معاملہ طے کریں گے۔ پھر کچھ ہو گا۔

اس میں کچھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ صدر مملکت کو کوئی طاقت بھی فوری فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ کوئی عدالتی فیصلہ بھی صدر مملکت کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ آپ فوری فیصلہ کریں۔ صدر مملکت کو عدالتی استثناء بھی حاصل ہے۔ اس لیے صدر مملکت کوئی جلدی میں نہیں ہونگے۔ اور پھر جب تک وہ فیصلہ نہیں کرتے جسٹس سرفراز ڈوگر نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے طور پر کام کرتے رہنا ہے۔ اس لیے صورتحال کافی کنٹرول میں ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جسٹس ڈوگر جسٹس محسن اختر کیانی سے چھ ماہ پہلے جج بنے۔ اس لیے بطور جج وہ سینئر ہیں۔ وہ پہلے جج بنے اس میں کوئی ابہام نہیں۔

جہاں تک جسٹس محسن اختر کیانی کا تعلق ہے۔ اس کیس کے فیصلہ سے انھیں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اگر ججز کے تبادلہ کو غیر آئینی قرار دے دیا جاتا تو جسٹس محسن اختر کیانی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کی راہ ہموار ہوجاتی۔اب وہ راستہ بند ہو گیا ہے۔ اب انھیں صرف بطور جج ہی کام کرنا ہے اور وہ بھی جسٹس ڈوگر کے ماتحت کام کرنا ہے۔ کیا وہ اب مستعفی ہونگے یا وہ کام جاری رکھیں گے۔ ان کے مستعفیٰ ہونے کا بھی اسٹبلشمنٹ کو فائدہ ہوگا۔ جیوڈیشل کمیشن سے نئی تعیناتی ہو جائے گی۔ ویسے بھی عدلیہ میں اب اگر آپ سپر سیڈ ہو جائیں تو مستعفیٰ ہونے کا کلچر نہیں۔ اب یہی کلچر ہے کہ کام جاری رکھیں اور وقت کا انتظار کریں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائی کورٹ کے سنیارٹی کا معاملہ سپریم کورٹ نے ججز کے تبادلے ہائی کورٹ میں صدر مملکت کو نئی تعیناتی قرار دیا ہے معاملہ طے کا اختیار تبادلہ کو چیف جسٹس ہے اور تھا کہ اس لیے ججز کی

پڑھیں:

اسلام آباد ہائی کورٹ: گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق ترامیم چیلنج، حکومت سے جواب طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ: گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق ترامیم چیلنج، حکومت سے جواب طلب WhatsAppFacebookTwitter 0 18 June, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (آئی پی ایس) اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہائی پاور سلیکشن بورڈ کے ذریعے گریڈ 22 میں ترقی کے فیصلوں کی آئینی و قانونی حیثیت کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے اس معاملے پر ابتدائی دلائل مکمل ہونے کے بعد حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔

کیس کی سماعت جسٹس انعام امین منہاس نے کی۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی، شعیب شاہین، قمر افضل اور دیگر وکلا پیش ہوئے۔ سابق سیکریٹری اطلاعات سہیل علی خان، سابق آئی جی عامر ذوالفقار سمیت متعدد افسران عدالت میں موجود تھے۔

درخواست گزاروں کے وکلاء نے مؤقف اختیار کیا کہ گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق اسٹبلشمنٹ رولز میں اچانک ترمیم کی گئی، جو مبینہ طور پر مخصوص افسران کو نشانہ بنانے کے لیے کی گئی۔ انہوں نے مزید مؤقف اپنایا کہ ہائی پاور سنٹرل سلیکشن بورڈ کے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم کے بجائے نائب وزیر اعظم نے کی، جو غیر معمولی اقدام ہے۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے ان ترامیم کے دفاع میں تفصیلی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 2 جولائی تک ملتوی کر دی۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرلوگوں کو انصاف دلائیں گے، پہلی ترجیح عوامی شکایات دُور کرنا ہے: چیف جسٹس لوگوں کو انصاف دلائیں گے، پہلی ترجیح عوامی شکایات دُور کرنا ہے: چیف جسٹس راولپنڈی: نان کسٹم سگریٹ کے خلاف کارروائی، ایف بی آر ٹیم پر جان لیوا حملہ، مقدمہ درج پاکستان نے غزہ کی صورتحال کو انسانیت کے ضمیر پر دھبہ قرار دے دیا ایران میں اسرائیلی حملے سے شہادتوں کی تعداد 585 تک جا پہنچی، 1326 زخمی مودی نے ٹرمپ سے کہا ہے بھارت پاکستان سے تنازع پر کبھی ثالثی قبول نہیں کریگا، وکرم مسری ہم صیہونیوں پر کوئی رحم نہیں کریں گے: ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • جوڈیشل کمیشن نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی مدت 30 نومبر تک بڑھادی
  • سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ:’’صدر کو اختیار حاصل ہے‘‘ ججز ٹرانسفر آئین و قانون کے مطابق قرار
  • ججز تبادلہ کیس کا فیصلہ: جسٹس نعیم اور جسٹس شکیل نے اختلافی نوٹ میں کیا لکھا؟
  • سپریم کورٹ: آئینی بینچ نے 3 ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دے دیا
  • ججز تبادلہ غیر آئینی نہیں، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا
  • ’’جوڈیشل کمیشن کے پاس تبادلے کا اختیار نہیں‘‘ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ
  • سپریم کورٹ آئینی بینچ: ججز ٹرانسفر کیس کا فیصلہ محفوظ، آج ہی سنایا جائے گا
  • ججز سینیارٹی،ٹرانسفر کیس میں کئی اہم سوالات اٹھ گئے
  • اسلام آباد ہائی کورٹ: گریڈ 22 میں ترقی سے متعلق ترامیم چیلنج، حکومت سے جواب طلب