بلدیاتی انتخابات سے مسلسل گریز
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ پنجاب اور اسلام آباد میں اب بھی بلدیاتی انتخابات نہ ہوئے تو وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو بلا سکتے ہیں اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے آرڈر کر دیا تو سبکی کا باعث ہوگا۔ کیا پنجاب حکومت پنجاب میں اور وفاقی حکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کروانے میں دلچسپی نہیں رکھتیں اور پنجاب حکومت نے دیگر صوبوں کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات کرانے میں تین سال کی تاخیر کر دی ہے۔
الیکشن کمیشن، پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے پر اس بار اتنا برہم ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کو کہنا پڑا کہ باقی تین صوبوں نے بلدیاتی انتخابات پہلے ہی کرا دیے تھے مگر بار بار کی ہدایات کے باوجود پنجاب اور اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے۔ ہم اس سلسلے میں اب آرڈر پاس کریں گے کہ جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کے عمل کو مکمل کیا جائے۔ اب الیکشن کمیشن آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھ سکتا۔
اسلام آباد وفاقی اور پنجاب صوبائی حکومت کے ماتحت ہے اور وہاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ سب سے پہلے کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے وہاں جب بلدیاتی انتخابات کرائے تھے اس وقت وفاق میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت تھی۔ کے پی میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں جے یو آئی کو زیادہ کامیابی ملی تھی اور پشاور تک میں پی ٹی آئی اپنا میئر نہ لا سکی تھی اور اسے بعض دیگر اضلاع میں ناکامی ہوئی تھی جس پر دوسرے مرحلے میں وزیراعظم نے بلدیاتی انتخابات میں ذاتی مداخلت کا الزام لگا اور دونوں حکومتوں کی وجہ سے دوسرے مرحلے میں پی ٹی آئی کو کامیابی ملی تھی اور وہاں بلدیاتی انتخابات کو تین سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور ان کی مدت بھی پوری ہونے والی ہے۔
سندھ میں پیپلز پارٹی نے دو سال قبل بلدیاتی الیکشن کرا دیے تھے جن میں ایم کیو ایم نے حصہ نہیں لیا تھا اور پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت کے باعث بھرپور کامیابی حاصل کر لی تھی اور سندھ حکومت پہلی بار کراچی اور حیدرآباد میں اپنے میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی تھی اور کراچی کے ٹاؤنز جو 26 ہوگئے تھے وہاں 9 میں جماعت اسلامی نے اپنے چیئرمین منتخب کرا لیے تھے اور باقی ٹاؤنز اور یوسیز میں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے چیئرمین منتخب ہوئے تھے اور کے پی میں پی ٹی آئی نے اپنی مرضی اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے اپنی مرضی کا بے اختیار کمزور بلدیاتی نظام منظور کرایا تھا جو آئین کے برعکس ہے۔
الیکشن کمیشن کے اجلاس میں بتایا گیا کہ 2019 سے لے کر اب تک پنجاب میں 5 مرتبہ مقامی حکومتی قوانین تبدیل ہوئے اور اب چھٹی بار بلدیاتی قوانین میں تبدیلی کی جا رہی ہے جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ میں اس سلسلے میں خود سپریم کورٹ میں پیش ہو چکا ہوں یہ نہیں ہو سکتا کہ پنجاب حکومت بلدیاتی قانون سازی نہ کرے اور پانچ سال بلدیاتی الیکشن ہی نہ ہوں اور الیکشن کمیشن یہ سب کچھ دیکھتا رہے اور کچھ نہ کرے ہم اس سلسلے میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کو بلا سکتے ہیں اور آرڈر کرنا ہوگا۔
پنجاب کی طرح اسلام آباد میں بھی بلدیاتی انتخابات وفاقی حکومت نہیں کرا رہی۔ پہلی بار اسلام آباد میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، اس میں مسلم لیگ (ن) کا میئر منتخب ہوا تھا جس کے بعد وفاق اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت آگئی تھی جس نے (ن) لیگ کی دشمنی میں (ن) لیگی میئر کو دو بار غیر قانونی طور پر برطرف کیا تھا جنھیں عدلیہ نے دونوں بار بحال کیا تھا اور مدت پوری ہو سکی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی کے بعد (ن) لیگی وزیر اعظم بھی اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرا رہے۔
شہباز شریف 2018 سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو وہاں بھی سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جن میں (ن) لیگی امیدواروں نے بھرپور کامیابی حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی بری طرح ہاری تھی جس کا انتقام پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت نے لے کر پنجاب کے بلدیاتی انتخابات آتے ہی توڑ دیے تھے جس کے خلاف لارڈ میئر لاہور و دیگر میئرز نے لاہور ہائی کورٹ میں پنجاب حکومت کا فیصلہ چیلنج کیا تھا اور یہ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا جہاں پنجاب حکومت کا فیصلہ غیر قانونی قرار دیا گیا اور بلدیاتی اداروں کی بحالی کا حکم دیا گیا تھا مگر پی ٹی آئی کی حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر بھی ادارے بحال نہیں کیے تھے کیونکہ وزیر اعظم (ن) لیگی بلدیاتی اداروں کی بحالی نہیں چاہتے تھے جو ان کی فسطائیت تھی اور انھوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہونے دیا تھا جس کے خلاف معزول میئرز دوبارہ سپریم کورٹ گئے جس کے حکم پر بلدیاتی ادارے اس وقت بحال کیے گئے تھے جب ان کی مدت ختم ہونے والی تھی۔ اس سے قبل پی ٹی آئی کے وزیراعظم نے پنجاب حکومت کے ذریعے پنجاب کے تمام بلدیاتی عہدیداروں کے مالی اختیارات سلب کرائے تھے۔
پی ٹی آئی حکومت نے 2021 تک کے پی میں بلدیاتی انتخابات کرائے مگر مقبولیت ختم ہو چکی تھی اسی خوف سے پنجاب میں بلدیاتی انتخابات دس سال میں صرف (ن) لیگی حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے تھے اور مسلم لیگ (ن) بھی پیپلز پارٹی کی طرح بلدیاتی انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن کے مطابق واقعی دلچسپی نہیں رکھتی جس کا ثبوت واضح ہے کہ اسلام آباد اور پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جا رہے حالانکہ پنجاب اور وفاق میں مسلم لیگ (ن) کیرہنما سوا سال سے ہیں مگر بلدیاتی انتخابات کو اہمیت نہیں دی جا رہی اور وہ اپنے اپنے ارکان کو کچھ اہمیت دیتے ہیں اور انھیں ہی ترقیاتی فنڈز دیتے ہیں جو غیر قانونی اقدام ہے کیونکہ ترقیاتی فنڈز صرف بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق دیے جا سکتے ہیں مگر تینوں بڑی پارٹیاں ارکان اسمبلی کو رشوت کے طور پر ترقیاتی فنڈز دیتی آ رہی ہیں جو غیر قانونی اقدام ہے۔ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں مقبولیت کا دعویٰ بھی کرتی ہے اور بلدیاتی انتخابات سے خوفزدہ بھی ہے اس لیے اسلام آباد اور پنجاب میں غیر آئینی طور بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے جا رہے۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کو اس آئینی خلاف ورزی پر کوئی فیصلہ دینا چاہیے اور بلدیاتی اداروں کو آئینی اختیارات بھی دلانے چاہئیں تاکہ صوبائی حکومتوں کی آمریت ختم ہو سکے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات بلدیاتی انتخابات نہ پی ٹی آئی کی حکومت بلدیاتی اداروں بلدیاتی الیکشن سپریم کورٹ کے الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی پنجاب حکومت اور بلدیاتی پیپلز پارٹی اور پنجاب پنجاب اور کے پی میں کے حکم پر مسلم لیگ حکومت نے نہیں کرا ہیں اور تھی اور کی تھی تھی جس
پڑھیں:
پیوٹن کا ایران اسرائیل تنازع پر محتاط ردعمل، خامنہ ای پر حملے سے متعلق تبصرے سے گریز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای پر ممکنہ حملے کے حوالے سے قیاس آرائیوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کا سیاسی حل نکالنے پر زور دیا ہے۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق سینٹ پیٹرز برگ انٹرنیشنل اکنامک فورم کے موقع پر بین الاقوامی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پیوٹن نے واضح کیا کہ وہ خامنہ ای پر حملے سے متعلق سوال پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتے۔
روسی صدر کا کہنا تھا کہ ایران کی عوام اپنے سیاسی نظام کے پیچھے متحد ہے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایران میں تمام تر اندرونی سیاسی پیچیدگیوں کے باوجود عوام اپنے ملک کی قیادت کے گرد متحد ہے۔
خیال رہےکہ روسی صدر حالیہ دنوں میں ایران اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے آئے ہیں، لیکن ان کی کوششوں کو امریکا سمیت کئی عالمی رہنماؤں نے مسترد کیا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ روس اور ایران کے قریبی تعلقات ہیں۔
پیوٹن نے کہا کہ روس نے تاحال ایران کو کوئی ہتھیار فراہم نہیں کیے، اگرچہ رواں سال جنوری میں دونوں ممالک کے درمیان ایک اسٹریٹیجک شراکت داری پر دستخط ہوئے تھے، روس، ایران کے سول نیوکلیئر پروگرام میں معاونت جاری رکھے ہوئے ہے۔
پیوٹن نے کہا کہ اسرائیلی فضائی حملوں کے باوجود ایران کا جوہری پروگرام زیرزمین تنصیبات میں بدستور جاری ہے،یہ زیر زمین فیکٹریاں موجود ہیں، ان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ ایران کے جنوبی شہر بوشہر میں قائم روسی تعمیر کردہ جوہری پاور پلانٹ میں 200 سے زائد روسی ماہرین کام کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے رواں ہفتے کہا تھا کہ جاری تنازع ایران میں حکومت کی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے، اسرائیلی حملوں میں اب تک ایران میں 585 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں 239 عام شہری شامل ہیں، یہ اعدادوشمار امریکا میں قائم ایک ایرانی انسانی حقوق تنظیم نے جاری کیے ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ واشنگٹن ایرانی رہنما خامنہ ای کے مقام سے آگاہ ہے، فی الحال کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتے، اگرچہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ مل کر حملے کے امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کیا۔