عمران خان معافی مانگ لیں تب بھی اقتدار نہیں ملے گا ، خواجہ آصف
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (صباح نیوز) وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اگر معافی مانگ لیں تب بھی اب انہیں کبھی اقتدار نہیں ملے گا۔ عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں نام نہاد ہائبرڈ نظام ناکام رہا کیونکہ اس وقت سیاسی اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی کا فقدان تھا۔خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حکومت اور عسکری ادارے باہم مشاورت اور ہم آہنگی سے ملک کو بحران سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے نہ صرف ریاستی اداروں کے خلاف جرائم کیے بلکہ اب وہ معافی مانگنے کے باوجود دوبارہ اقتدار میں آنے کے قابل نہیں رہے۔ انہوں نے کہا اگر وہ معافی مانگیں تب بھی انہیں دوبارہ اقتدار نہیں ملے گا، کیونکہ انہوں نے نہ صرف سیاسی بلکہ قومی سلامتی کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا پاکستان میں موجودہ ہائبرڈ ماڈل ایک عارضی بندوبست ہے جو معاشی اور حکومتی مسائل کے حل تک نافذ العمل رہے گا، تاہم یہ ماڈل آئینی طور پر رائج نہیں بلکہ عارضی حل ہے۔ خواجہ آصف سے سوال کیا گیا کہ کیا اس ماڈل کو اس لیے قبول کیا گیا ہے تاکہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کے درمیان ٹکرئوا سے بچا جا سکے؟ تو انہوں نے کہا جب تک ہم مسائل سے باہر نہیں نکل جاتے، یہ ماڈل رہے گا۔ انہوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ اس ہائبرڈ ماڈل میں اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ طاقت حاصل ہے اور وضاحت کی کہ یہ ایک مشترکہ نظام ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کی شراکت داری ہے، ہم اقتدار کے ڈھانچے میں شریک ہیں۔ دزیردفاع نے آرمی چیف کی امریکی صدر سے ملاقات کو ایک اہم سنگِ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی 78 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی امریکی صدر نے پاکستانی فوجی سربراہ کو مدعو کیا اور ملاقات کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ معاشی بحالی اور بھارت کی شکست وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل (جنرل) عاصم منیر کی قیادت کی بدولت ممکن ہوئی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کشیدگی میں کمی کیلئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنماؤں اور سابق رہنماؤں کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے باوجود پارٹی کی تصادم کی راہ پر چلنے کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس میں رکاوٹ خود عمران خان بنے ہوئے ہیں جن کے سمجھوتہ نہ کرنے کے موقف کی وجہ سے مصالحت کے جانب بڑھنے میں رکاوٹیں پیش آ رہی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی میں (جیل کے اندر اور باہر موجود) سینئر شخصیات خاموشی کے ساتھ سیاسی مذاکرات کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، دلیل دے رہے ہیں کہ تصادم کی پالیسی نے صرف پارٹی کو تنہا کیا ہے اور اس کیلئے امکانات کو معدوم کیا ہے۔ تاہم، ان کی کوششوں کو کوئی کامیابی نہیں مل رہی کیونکہ عمران خان حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے حوالے سے دوٹوک موقف رکھتے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے سینئر رہنماؤں کی جانب سے کھل کر حکمران سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کرنے کے چند روز بعد ہی عمران خان نے اڈیالہ جیل سے سخت الفاظ پر مشتمل ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ 8؍ جولائی کے بیان میں عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’مذاکرات کا وقت ختم ہو چکا ہے‘‘ اور ساتھ ہی رواں سال اگست میں ملک بھر احتجاجی مہم کا اعلان کیا۔ عمران خان کے پیغام نے موثر انداز سے ان کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر رہنماؤں (بشمول شاہ محمود قریشی اور دیگر) مصالحتی سوچ کو مسترد کردیا ہے۔ یہ لوگ حالات کو معمول پر لانے کیلئے منطقی سوچ اختیار کرنے پر زور دے رہے تھے۔ سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ جب تک عمران خان اپنے تصادم پر مبنی لب و لجہے (خصوصاً فوجی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف) پر قائم رہیں گے اس وقت تک پی ٹی آئی کیلئے سیاسی میدان میں واپس آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ پی ٹی آئی کے اپنے لوگ بھی نجی محفلوں میں اعتراف کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی چیئرمین اور پارٹی کا سوشل میڈیا جب تک فوج کو ہدف بنانا بند نہیں کرے گا تب تک بامعنی مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔ تاہم، اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا لہجہ نرم بھی کر لے تو فوجی اسٹیبلشمنٹ کا عمران خان پر عدم اعتماد بہت گہرا ہے۔ گزشتہ تین برسوں میں فوج کی قیادت پر ان کی مسلسل تنقید نے نہ صرف موجودہ کمان بلکہ ادارے کی اعلیٰ قیادت کے بڑے حصے کو بھی ناراض کر دیا ہے۔ اگرچہ عمران خان پی ٹی آئی کی سب سے زیادہ مقبول اور مرکزی شخصیت ہیں، لیکن ذاتی حیثیت میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کی ساکھ خراب ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی بحالی کا انحصار بالآخر متبادل قیادت پر ہو سکتا ہے مثلاً شاہ محمود قریشی یا چوہدری پرویز الٰہی جیسے افراد، جو مقتدر حلقوں کیلئے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی سیاست عمران خان کے ہاتھوں یرغمال ہے، مذاکرات پر غور سے ان کے انکار کی وجہ سے سیاسی حالات نارمل کرنے کیلئے گنجائش بہت کم ہے، اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحت کے معاملے میں تو اس سے بھی کم گنجائش ہے۔ عمران خان کے آگے چوائس بہت واضح ہے: تصادم اور تنہائی کی سیاست جاری رکھیں، یا ایک عملی تبدیلی کی اجازت دیں جو پی ٹی آئی کی سیاسی جگہ بحال کر سکے۔ اس وقت، فواد چوہدری اور عمران اسماعیل کی تازہ ترین کوششوں کے باوجود، تمام اشارے اول الذکر چوائس کی طرف نظر آ رہے ہیں۔
انصار عباسی