عمران خان کی سیاسی تنہائی کی وجوہ؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وقت کی عجب چال ہے، جو کبھی خلقت کا محبوب ہوتا ہے، وہی ایک دن تنہائی کا مارا، تردیدوں کا نشانہ اور ماضی کی کتاب کا ایک صفحہ بن جاتا ہے۔ عمران خان، جس نے کرکٹ کی دنیا سے سیاست کے میدان تک کا سفر طوفانی انداز میں طے کیا، آج تنہائی کے ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں نہ پرانے ساتھی ساتھ ہیں، نہ اتحادی جماعتیں، نہ عوامی مقبولیت کا وہ شور جو کبھی سونامی کہلاتا تھا۔
یہ کہانی فقط عمران خان کی نہیں، بلکہ ہر اْس انا پرست شخصیت کی ہے جو اختلافِ رائے کو غداری، مشورے کو سازش، اور تنقید کو دشمنی سمجھ بیٹھے۔ عمران خان کا سیاسی قافلہ جن مخلص و نظریاتی ساتھیوں کے ساتھ شروع ہوا، ان میں کئی ایسے نام تھے جو آج نہ صرف ان سے دور ہو چکے ہیں بلکہ ان کے نظریے سے بھی مایوس ہو کر مدمقابل کھڑے ہیں۔ اکبر ایس بابر، جنہوں نے پارٹی کے ابتدائی خاکے میں ہاتھ بٹایا، جب پارٹی فنڈنگ پر سوالات اٹھائے تو انہیں نکال دیا گیا۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے پی ٹی آئی کی اندرونی بدعنوانی پر انگلی اٹھائی، تو وہ بھی پارٹی بدر ہوئے۔ حامد خان ایڈووکیٹ، ایک آئینی ماہر اور بانی رکن نے غیر جمہوری طرزِ قیادت پر اختلاف کیا تو کنارے لگا دیے گئے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان، جنہوں نے عمران خان کی سیاست کو زمین پر اُتارا، وہی آج اپنی علٰیحدہ جماعتوں کے ذریعے میدان میں ہیں۔ یہ لوگ دشمن نہیں تھے، مگر وہ احترام، وہ رواداری، وہ ربط جو سیاسی تحریک کا حسن ہوتا ہے، وہ خان صاحب کے آمرانہ مزاج میں کہیں کھو گیا۔
عمران خان کا سیاسی سفر تنہا نہیں تھا۔ کئی جماعتیں، شخصیات اور گروہ اس کارواں میں شامل تھے۔ جماعت اسلامی نے نظریاتی ہم آہنگی کے تحت ساتھ دیا، مگر جلد ہی کپتان کے کارکنوں کے گالی گلوچ، اخلاق باختہ سوشل میڈیا کی غلیظ مہمات، اور خان صاحب کے دوغلے بیانیے سے تنگ آ کر خود کو دور کر لیا۔ شیخ رشید، جو عمران خان کے سب سے پرانے اتحادیوں میں سے تھے، آج خاموشی کے پردے میں جا چکے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) نے 2022 میں اس وقت مکمل علٰیحدگی اختیار کر لی جب عمران خان نے اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی۔ بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) اور ایم کیو ایم بھی وقتی مفادات کے تحت ساتھ آئیں، مگر مستقل رویے اور بدکلامی کی سیاست نے انہیں بھی الگ کر دیا۔ اب المیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان کی ایک خاص پہچان بن گئی ہے، یعنی بدزبانی، بدکلامی، اور دوسروں کی کردار کشی۔ کاش کوئی ان کو سمجھا سکتا کہ یہ سیاست نہیں، افترا ہے۔ جب جماعت اسلامی جیسی نظریاتی تنظیم کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر غلیظ مہمات چلائی گئیں، تو بھلا وہ کس بنیاد پر ساتھ کھڑی رہتی؟ سیاست میں اختلافِ رائے فطری ہے، مگر عمران خان کی تحریک میں یہ گناہ کبیرہ بن گیا۔ جو اختلاف کرے وہ ’’لفافہ‘‘، ’’غدار‘‘، یا ’’اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ‘‘۔ ایسے ماحول میں نہ اتحاد پنپ سکتا ہے، نہ تحریک۔
کسی دانا کا قول ہے: ’’سمجھدار آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے دوستوں میں اضافہ کرے، اور بیوقوف وہ جو دشمن بناتا جائے اور دوست کم کرتا جائے‘‘۔ ایک اور صاحبِ علم نے فرمایا: ’’دوست چاہے ہزار ہوں کم ہیں، دشمن ایک بھی ہو تو بہت ہے‘‘۔ اگر ہم اس کسوٹی پر عمران خان کی سیاست، ان کے رویے، اور ان کے کارکنان کے طرزِ گفتگو کو پرکھیں تو ایک افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ تحریک دوستوں کی افزائش سے زیادہ دشمنوں کے اضافے میں مصروف رہی۔ مشورے کو دشمنی سمجھا گیا، تنقید کرنے والوں کو رسوا کیا گیا، اور جنہوں نے خدمت کی، وہ کنارے لگا دیے گئے۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے گرد ایک ہجوم تو ہے، مگر قافلہ کمزور ہے، اور قافلہ سالار تنہا۔
پھر اس جماعت کے تضادات اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں شمار کرنا مشکل ہے۔ ادھر ملکی سیاست میں عمران خان ایک ایک کر کے اپنے اتحادیوں کو کھو بیٹھے، اور ان کی یہ تنہائی صرف اقتدار کی تبدیلی یا کسی سازش کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ ان کی اپنی طرزِ سیاست، کارکنان کی بدتہذیبی، اور پارٹی کے اندرونی کلچر کا شاخسانہ ہے۔ سوشل میڈیا پر جو گالیوں اور طعنوں کا بازار پی ٹی آئی کے حامیوں نے گرم رکھا ہے، اس نے ان کے لیے ہمدردی کا ہر دروازہ بند کر دیا۔ دوسری طرف، وہی عمران خان جو برسوں تک امریکا کو ’’رجیم چینج‘‘ کا ماسٹر مائنڈ، سازشی قوت اور (بجا طور پر) پاکستان کے دشمن کے طور پر پیش کرتا رہا، آج اسی امریکا کے سامنے اپنی رہائی کی بھیک مانگ رہا ہے اور اْس غاصب ملک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کام کے لیے وہاں امریکا میں باقاعدہ لابنگ کی جا رہی ہے، چندے جمع کر کے بے شمار ڈالرز ٹرمپ کی ٹیم کو خوش کرنے کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ’’کیا ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا پرکشش نعرہ لگانے والا آج غزہ میں ساٹھ ہزار سے زائد شہادتوں، ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کے زخمی ہونے اور ایران پر اسرائیلی حملے کو جو امریکی پشت پناہی سے ہوئے — ان سب کے باوجود نہ امریکا کی مذمت کرتا ہے، نہ اسرائیل کے خلاف کوئی دوٹوک موقف اپناتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ان کی بہنوں سے سوال ہوا تو وہ کہہ چکیں کہ ’’عمران حالات سے بخوبی آگاہ ہے‘‘ لیکن پھر بھی ان کی زبان سے نہ مظلوموں کے لیے دعا نکلی، نہ ظالموں کے خلاف جملہ۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی تنہائی کے اسباب کیا ہیں؟
1۔ انا پرستی: ہر معاملے میں ’’میری بات ہی حرفِ آخر ہے‘‘ کا رویہ۔ 2۔ عدم برداشت: اختلافِ رائے پر شدید ردِعمل، چاہے وہ کارکن ہو یا ساتھی رہنما۔ 3۔ اداروں سے ٹکراؤ: فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن، حتیٰ کہ عالمی طاقتوں سے بھی محاذ آرائی۔ 4۔ بند دروازے کی سیاست: مشاورت کے دروازے بند، چاپلوسوں کا راج۔ 5۔ دوغلی خارجہ پالیسی: اندرونی طور پر امریکا کو للکارنا، بیرونی طور پر اسے منانے کی کوشش۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: عمران خان کی کی سیاست کے لیے
پڑھیں:
عمران خان کی رہائی کی راہ میں کون رکاوٹ بنا، مشاہد حسین سید نے بھید کھول دیا
سینیٹر مشاہد حسین سید نے نجی ٹیلیویژن پر ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ 5 نومبر 2024 کو ٹرمپ کے اقتدار میں واپس آنے کے فورا بعد 10-11 نومبر کو اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ان کی رہائی کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز ہو گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان سیاسی قیدی ہیں انہیں رہا کیا جائے، ن لیگی سینیٹر مشاہد حسین سید
انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ 20 یا 21 نومبر کو ان کی رہائی کی بات ہوگئی تھی، مگر ان کے نادان دستوں نے 26 نومبر کو دھرنے کا اعلان کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی رہائی ان کے نادان دوستوں کی وجہ سے نہیں ہوسکی، ورنہ وہ نومبر میں آزاد ہوتے۔
مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ بات میں آن ریکارڈ کہہ رہا ہوں، آپ ان کے سورسز سے چیک بھی کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے پاس ایک موقع تھا، اور سیاست میں تو درست انتخاب ہی اہم ہوتا ہے، ان کے پاس ایک ونڈو تھی، جو کھلی تھی، جس کی راستے عمران خان باہر آسکتے تھے۔ مگر ان کے دوستوں نے کہا کہ ہم اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ کریں گے، انقلاب لے آئیں گے، تو رزلٹ پھر آپ کے سامنے ہے۔
یہ بھی پڑھیں:ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ صرف اورصرف نوازشریف کا تھا: مشاہد حسین
اس سوال کے جواب میں کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد عمران خان کی رہائی کا امکان کس قدر ہے، مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں تو یہ ہوا ہے کہ وہ تمام عناصر جنہوں نے فیلڈ مارشل کے دورہ امریکا کیخلاف پروپیگنڈا کیا ہے، اور یہ ایک افسوسناک بات ہے۔
انہوں نے کہا فیلڈ مارشل کے دورہ امریکا کیخلاف کیمپین قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔ لہٰذا اس موقع پر نادان دوست کے زیادہ خطرناک ہونے کی مثال صادق آتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں