Jasarat News:
2025-11-05@02:07:50 GMT

عمران خان کی سیاسی تنہائی کی وجوہ؟

اشاعت کی تاریخ: 21st, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وقت کی عجب چال ہے، جو کبھی خلقت کا محبوب ہوتا ہے، وہی ایک دن تنہائی کا مارا، تردیدوں کا نشانہ اور ماضی کی کتاب کا ایک صفحہ بن جاتا ہے۔ عمران خان، جس نے کرکٹ کی دنیا سے سیاست کے میدان تک کا سفر طوفانی انداز میں طے کیا، آج تنہائی کے ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں نہ پرانے ساتھی ساتھ ہیں، نہ اتحادی جماعتیں، نہ عوامی مقبولیت کا وہ شور جو کبھی سونامی کہلاتا تھا۔

یہ کہانی فقط عمران خان کی نہیں، بلکہ ہر اْس انا پرست شخصیت کی ہے جو اختلافِ رائے کو غداری، مشورے کو سازش، اور تنقید کو دشمنی سمجھ بیٹھے۔ عمران خان کا سیاسی قافلہ جن مخلص و نظریاتی ساتھیوں کے ساتھ شروع ہوا، ان میں کئی ایسے نام تھے جو آج نہ صرف ان سے دور ہو چکے ہیں بلکہ ان کے نظریے سے بھی مایوس ہو کر مدمقابل کھڑے ہیں۔ اکبر ایس بابر، جنہوں نے پارٹی کے ابتدائی خاکے میں ہاتھ بٹایا، جب پارٹی فنڈنگ پر سوالات اٹھائے تو انہیں نکال دیا گیا۔ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد نے پی ٹی آئی کی اندرونی بدعنوانی پر انگلی اٹھائی، تو وہ بھی پارٹی بدر ہوئے۔ حامد خان ایڈووکیٹ، ایک آئینی ماہر اور بانی رکن نے غیر جمہوری طرزِ قیادت پر اختلاف کیا تو کنارے لگا دیے گئے۔ جہانگیر ترین اور علیم خان، جنہوں نے عمران خان کی سیاست کو زمین پر اُتارا، وہی آج اپنی علٰیحدہ جماعتوں کے ذریعے میدان میں ہیں۔ یہ لوگ دشمن نہیں تھے، مگر وہ احترام، وہ رواداری، وہ ربط جو سیاسی تحریک کا حسن ہوتا ہے، وہ خان صاحب کے آمرانہ مزاج میں کہیں کھو گیا۔

عمران خان کا سیاسی سفر تنہا نہیں تھا۔ کئی جماعتیں، شخصیات اور گروہ اس کارواں میں شامل تھے۔ جماعت اسلامی نے نظریاتی ہم آہنگی کے تحت ساتھ دیا، مگر جلد ہی کپتان کے کارکنوں کے گالی گلوچ، اخلاق باختہ سوشل میڈیا کی غلیظ مہمات، اور خان صاحب کے دوغلے بیانیے سے تنگ آ کر خود کو دور کر لیا۔ شیخ رشید، جو عمران خان کے سب سے پرانے اتحادیوں میں سے تھے، آج خاموشی کے پردے میں جا چکے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) نے 2022 میں اس وقت مکمل علٰیحدگی اختیار کر لی جب عمران خان نے اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اپنائی۔ بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) اور ایم کیو ایم بھی وقتی مفادات کے تحت ساتھ آئیں، مگر مستقل رویے اور بدکلامی کی سیاست نے انہیں بھی الگ کر دیا۔ اب المیہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنان کی ایک خاص پہچان بن گئی ہے، یعنی بدزبانی، بدکلامی، اور دوسروں کی کردار کشی۔ کاش کوئی ان کو سمجھا سکتا کہ یہ سیاست نہیں، افترا ہے۔ جب جماعت اسلامی جیسی نظریاتی تنظیم کے خلاف بھی سوشل میڈیا پر غلیظ مہمات چلائی گئیں، تو بھلا وہ کس بنیاد پر ساتھ کھڑی رہتی؟ سیاست میں اختلافِ رائے فطری ہے، مگر عمران خان کی تحریک میں یہ گناہ کبیرہ بن گیا۔ جو اختلاف کرے وہ ’’لفافہ‘‘، ’’غدار‘‘، یا ’’اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ‘‘۔ ایسے ماحول میں نہ اتحاد پنپ سکتا ہے، نہ تحریک۔

کسی دانا کا قول ہے: ’’سمجھدار آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنے دوستوں میں اضافہ کرے، اور بیوقوف وہ جو دشمن بناتا جائے اور دوست کم کرتا جائے‘‘۔ ایک اور صاحبِ علم نے فرمایا: ’’دوست چاہے ہزار ہوں کم ہیں، دشمن ایک بھی ہو تو بہت ہے‘‘۔ اگر ہم اس کسوٹی پر عمران خان کی سیاست، ان کے رویے، اور ان کے کارکنان کے طرزِ گفتگو کو پرکھیں تو ایک افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ تحریک دوستوں کی افزائش سے زیادہ دشمنوں کے اضافے میں مصروف رہی۔ مشورے کو دشمنی سمجھا گیا، تنقید کرنے والوں کو رسوا کیا گیا، اور جنہوں نے خدمت کی، وہ کنارے لگا دیے گئے۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے گرد ایک ہجوم تو ہے، مگر قافلہ کمزور ہے، اور قافلہ سالار تنہا۔

پھر اس جماعت کے تضادات اتنے زیادہ ہیں کہ انہیں شمار کرنا مشکل ہے۔ ادھر ملکی سیاست میں عمران خان ایک ایک کر کے اپنے اتحادیوں کو کھو بیٹھے، اور ان کی یہ تنہائی صرف اقتدار کی تبدیلی یا کسی سازش کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ ان کی اپنی طرزِ سیاست، کارکنان کی بدتہذیبی، اور پارٹی کے اندرونی کلچر کا شاخسانہ ہے۔ سوشل میڈیا پر جو گالیوں اور طعنوں کا بازار پی ٹی آئی کے حامیوں نے گرم رکھا ہے، اس نے ان کے لیے ہمدردی کا ہر دروازہ بند کر دیا۔ دوسری طرف، وہی عمران خان جو برسوں تک امریکا کو ’’رجیم چینج‘‘ کا ماسٹر مائنڈ، سازشی قوت اور (بجا طور پر) پاکستان کے دشمن کے طور پر پیش کرتا رہا، آج اسی امریکا کے سامنے اپنی رہائی کی بھیک مانگ رہا ہے اور اْس غاصب ملک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کام کے لیے وہاں امریکا میں باقاعدہ لابنگ کی جا رہی ہے، چندے جمع کر کے بے شمار ڈالرز ٹرمپ کی ٹیم کو خوش کرنے کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ’’کیا ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا پرکشش نعرہ لگانے والا آج غزہ میں ساٹھ ہزار سے زائد شہادتوں، ایک لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کے زخمی ہونے اور ایران پر اسرائیلی حملے کو جو امریکی پشت پناہی سے ہوئے — ان سب کے باوجود نہ امریکا کی مذمت کرتا ہے، نہ اسرائیل کے خلاف کوئی دوٹوک موقف اپناتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ان کی بہنوں سے سوال ہوا تو وہ کہہ چکیں کہ ’’عمران حالات سے بخوبی آگاہ ہے‘‘ لیکن پھر بھی ان کی زبان سے نہ مظلوموں کے لیے دعا نکلی، نہ ظالموں کے خلاف جملہ۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان کی تنہائی کے اسباب کیا ہیں؟

1۔ انا پرستی: ہر معاملے میں ’’میری بات ہی حرفِ آخر ہے‘‘ کا رویہ۔ 2۔ عدم برداشت: اختلافِ رائے پر شدید ردِعمل، چاہے وہ کارکن ہو یا ساتھی رہنما۔ 3۔ اداروں سے ٹکراؤ: فوج، عدلیہ، الیکشن کمیشن، حتیٰ کہ عالمی طاقتوں سے بھی محاذ آرائی۔ 4۔ بند دروازے کی سیاست: مشاورت کے دروازے بند، چاپلوسوں کا راج۔ 5۔ دوغلی خارجہ پالیسی: اندرونی طور پر امریکا کو للکارنا، بیرونی طور پر اسے منانے کی کوشش۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: عمران خان کی کی سیاست کے لیے

پڑھیں:

کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-03-7
میر بابر مشتاق
سنتے تھے کہ طوائف اپنی عزت بیچ کر اپنے گرو کا پیٹ بھرتی ہے۔ اب یہ مثال سیاست پر فٹ کر کے دیکھ لیجیے؛ آج تحریک انصاف کے ارکان وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو طوائف ادا کرتی ہے، اور پیپلزپارٹی وہ گرو ہے جو ہر وقت اپنی ’’مانگ‘‘ بھروانے کے لیے ان ارکان کو بلا لیتی ہے۔ جب گرو یعنی پیپلزپارٹی کو ووٹوں کی ضرورت پڑی، تحریک انصاف کے ارکان حاضری دینے پہنچ گئے۔ سینیٹ الیکشن میں زرداری صاحب کے نامزد امیدواروں کو مدد درکار تھی؟ کپتان کے کھمبے دوڑ پڑے۔ کراچی کے میئر کے لیے 32 ووٹ کم تھے؟ پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین خدمت کے لیے پیش ہو گئے۔ آزاد کشمیر میں حکومت سازی کے لیے 6 ووٹ درکار تھے؟ تحریک انصاف نے سخاوت میں 9 ارکان زرداری کی جھولی میں ڈال دیے۔ کسی نے سچ کہا تھا، ’’تم پی ٹی آئی کو ووٹ دو، ووٹ زرداری کی جیب میں ملے گا!‘‘

اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کیوں ہوتا ہے؟ وجہ سادہ ہے: عوام اپنے نمائندوں کو نمائندہ نہیں، کپتان کا کھمبا سمجھتے ہیں۔ انہیں کہہ دیا جاتا ہے کہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں، تم صرف کپتان کے کھڑے کیے گئے آدمی ہو۔ کپتان چاہے جس پر ہاتھ رکھ دے، وہ چور بھی سر آنکھوں پر، اور جسے رد کر دے، وہ حاجی بھی بھاڑ میں جائے۔ اب سوچو! جب ایک نمائندہ جانتا ہے کہ وہ عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ ’’کپتان کے کرشمے‘‘ سے آیا ہے، تو وہ تمہارے لیے کیوں کھڑا ہوگا؟ جہاں زیادہ مفاد اور اقتدار دکھائی دے گا، وہ وہیں جا لگے گا۔ ویسے بھی کپتان صاحب نے آج تک ’’بہتر مردم شناسی‘‘ کا ثبوت کب دیا ہے؟ محمود خان سے بزدار تک، گنڈاپور سے موجودہ مراد سعید کی سستی نقل تک، ہر مثال بتاتی ہے کہ عمران خان کی ٹیم چننے کی صلاحیت کسی تجربہ گاہ میں ناکام تجربے سے زیادہ کچھ نہیں۔ کپتان کھمبے کھڑا کرتا ہے، زرداری کی کرین آکر اٹھا لے جاتی ہے۔ بس یہی ہے پوری سیاست کی تلخ سچائی۔

اب آتے ہیں اس کھیل کے دوسرے منظر پر؛ جہاں نظریہ کی موت کو ’’سیاسی حکمت ِ عملی‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ جب تک عمران خان ہے، زرداری چاروں صوبوں میں حکومت بنائے گا۔ سینیٹ الیکشن؟ عمران زرداری کے جیب میں۔ رجیم چینج؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کراچی میئر الیکشن؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ کشمیر حکومت سازی؟ عمران زرداری کی جیب میں۔ یعنی عمران کو ووٹ دو، زرداری کو اقتدار دو۔ ’’کپتان کھیلتا کہیں ہے، جیتتا زرداری ہے!‘‘ اللہ بخشے عمران خان کو، فرمایا کرتے تھے کہ ’’لوگ میرے نظریے پر اکٹھے ہو رہے ہیں‘‘۔ واقعی اکٹھے ہوئے تھے لاکھوں کی تعداد میں نوجوان، خواتین، بزرگ۔ مگر اب لگتا ہے وہ سب نظریے کے گرد نہیں، اقتدار کے گرد جمع ہوئے تھے۔

آزاد کشمیر کی سیاست نے تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ تحریک انصاف کے نو وزراء ایک ایک کر کے پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے وہی چہرے جو کل تک ’’نیا کشمیر‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے، آج ’’پرانے پاکستان‘‘ کی کرسیوں پر بیٹھے مسکرا رہے ہیں۔ زرداری ہاؤس میں شمولیت کی تقریب ایسے منعقد ہوئی جیسے نظریہ نہیں، بلکہ سیاسی وفاداری کا جنازہ پڑھا جا رہا ہو۔ ظفر اقبال، عبدالماجد، اکبر ابراہیم اور دیگر وہ نام ہیں جو کبھی خود کو انقلاب کا سپاہی سمجھتے تھے، آج وہ اقتدار کے غلام بن گئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر نظریہ کہاں گیا؟ کیا تحریک انصاف واقعی تبدیلی کی علامت تھی؟ یا وہ صرف ایک سیاسی پروجیکٹ تھا جو اپنا کام مکمل کر چکا؟ کہتے ہیں زرداری سیاست نہیں کھیلتے، وہ کھیل بناتے ہیں۔ کراچی، کشمیر، یا سینیٹ۔ ہر جگہ پیپلز پارٹی کا جادو چل رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کپتان کی ’’ٹیم‘‘ دراصل زرداری کی ’’ریزرو فورس‘‘ ہے۔ جہاں اسے ضرورت پڑتی ہے، وہاں یہ فورس پہنچ جاتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو ’’سیاسی چالاکی‘‘ کا ماسٹر کہا جاتا ہے، مگر تحریک انصاف نے تو ’’سیاسی نادانی‘‘ میں بھی نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ نظریہ بیچ کر وزارتیں خریدنے والوں کا قافلہ روز لمبا ہوتا جا رہا ہے۔

یہ المیہ صرف تحریک انصاف کا نہیں، یہ پورے سیاسی نظام کا عکاس ہے۔ یہاں جماعتیں نظریے سے نہیں، اقتدار کی ہوا کے رُخ سے چلتی ہیں۔ جب اقتدار کا موسم بدلتا ہے تو نظریہ بھی نئی سمت اُڑ جاتا ہے۔ وفاداریاں وزارتوں اور وعدوں کے بدلے فروخت ہوتی ہیں، اور عوام سوچتے رہ جاتے ہیں۔ کیا واقعی یہ وہی ’’تبدیلی‘‘ تھی جس کا خواب انہیں دکھایا گیا تھا؟ عمران خان کہا کرتے تھے: ’’ہم پرانے پاکستان کی سیاست ختم کرنے آئے ہیں‘‘۔ افسوس! آج لگتا ہے کہ پرانے پاکستان کی سیاست نے تحریک انصاف کو ہی ختم کر دیا ہے۔ زرداری ہاؤس میں جشن کا سماں ہے۔ فریال تالپور مسکرا رہی ہیں۔ جن لوگوں نے کل ’’کرپشن مافیا‘‘ کے خلاف نعرے لگائے تھے، آج وہی ہاتھ بڑھا کر اسی مافیا کے ساتھ سیلفیاں لے رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، تماشا ہے تماشائی عوام ہیں، اور اداکار وہ رہنما جو نظریے کو لباس کی طرح بدل لیتے ہیں۔ قیام پاکستان نظریے کی بنیاد پر ہوا، مگر اس ملک کی سیاست ہمیشہ مفاد کی بنیاد پر چلی۔ آج تحریک انصاف کے ٹوٹتے دھاگے دراصل نظریہ سیاست کی تدفین ہیں۔ یہ محض وفاداریوں کی تبدیلی نہیں، یہ اخلاقیات، شرافت اور امید کے جنازے کا منظر ہے۔

سوال یہ نہیں کہ یہ وزراء کیوں گئے، سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف میں ایسا کیا باقی نہیں رہا کہ وہ لوگ رُکے نہیں؟ کیا خان صاحب کا نظریہ صرف جیل کی دیواروں میں قید ہو گیا ہے؟ یا یہ جماعت ایک ایسی کشتی بن چکی ہے جس کے ملاح اب اپنے اپنے کنارے ڈھونڈ رہے ہیں؟ پاکستان میں اگر تبدیلی آنی ہے تو پہلے سیاسی کلچر بدلنا ہوگا۔ ضرورت ہے کہ: 1۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندرونی جمہوری نظام کو مضبوط کریں۔ 2۔ شفافیت کو سیاست کا حصہ بنائیں۔ 3۔ نظریاتی تربیت کو لازم کریں۔ 4۔ وفاداری بدلنے والوں کے لیے واضح قانون بنائیں۔ 5۔ عوام نمائندوں سے کارکردگی کا حساب لیں۔ ورنہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا۔ کپتان کھمبے کھڑا کرے گا، زرداری کرین لے جائے گا۔ عوام نظریے کا نعرہ لگائیں گے، اور اقتدار والے مفاد کا جشن منائیں گے۔

شاید اصل سوال اب یہ نہیں کہ کپتان کی ٹیم ناکام ہوئی یا زرداری کامیاب، بلکہ یہ ہے کہ کیا پاکستان میں کبھی نظریہ جیتے گا؟ یا یہاں ہمیشہ مفاد ہی بادشاہ رہے گا؟ فی الحال تو لگتا ہے کہ نظریہ قبر میں ہے، اور اس کی قبر پر سیاست دان پھول نہیں۔ بیان بازی کے پتھر رکھ رہے ہیں۔ یہ سیاست نہیں، ایک کھیل ہے۔ جس میں کھلاڑی بدلتے رہتے ہیں، مگر کھیل وہی رہتا ہے۔

(یہ کالم کسی مخصوص جماعت کے حق یا مخالفت میں نہیں بلکہ پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے طنزیہ رویوں پر ایک فکری تبصرہ ہے۔)

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • کپتان کی مردم شناسی اور زرداری کا جادو!
  • آزاد کشمیر کی سیاست میں غیر یقینی صورتحال برقرار، 72 گھنٹے اہم
  • پاکستان کے خیرخواہ مفاہمت کی سیاست اپنائیں، محمود مولوی
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کرے گی:ڈی جی آئی ایس پی آر
  • عمران خان کی ہٹ دھرمی، اسٹیبلشمنٹ کا عدم اعتماد، پی ٹی آئی کا راستہ بند
  • سلمان اکرم راجا کی اسپتال میں زیرعلاج شاہ محمود قریشی سے ملاقات، اہم مشاورت کی
  • ہم پی ٹی آئی میں کسی ’مائنس فارمولے‘ کے مشن پر نہیں،عمران اسمٰعیل
  • عمران خان کی رہائی کے لیے ایک اور کوشش ،سابق رہنماؤں نے اہم فیصلہ کرلیا ۔
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • پی ٹی آ ئی کی پرانی قیادت ’’ریلیز عمران خان‘‘ تحریک چلانے کیلیے تیار،حکومتی وسیاسی قیادت سے ملاقاتوں کا فیصلہ