اب امن ہوگا یا پھر ایران کے لیے سانحہ ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو ردعمل کی صورت میں مزید مہلک حملوں کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب یا تو امن ہوگا یا پھر ایران کے لیے سانحہ ہوگا۔
واشنگٹن میں اپنے خطاب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ حملوں میں ایران کی فردو، نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکا کا مقصد ایران کی جوہری افزودگی کی صلاحیت کو ختم کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کی تنصیبات ختم کردی گئی ہیں، ایران کو اب امن قائم کرنا چاہیے، امن قائم نہ کرنے کی صورت میں مستقبل کے حملے بہت زیادہ شدید ہوں گے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران پر حملے کے لیے نیتن یاہو کے ساتھ ٹیم کے طور پر کام کیا، اب یا تو امن ہوگا یا پھر ایران کے لیے سانحہ ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آج رات کے اہداف سب سے مشکل تھے، بہت سے اہداف رہ گئے ہیں، امن نہ ہوا تو درستگی کے ساتھ دیگر اہداف کے پیچھےجائیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکی فوجی حکام اتوار کو پنٹاگون میں پریس کانفرنس کریں گے۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے
پڑھیں:
افغان عوام نے کبھی غیر ملکی فوجی موجودگی قبول نہیں کی، افغان وزارت خارجہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کابل: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغانستان میں بگرام ایئربیس واپس لینے کے اعلان پر افغان وزارت خارجہ کے سیکنڈ پولیٹیکل ڈائریکٹر ذاکر جلالی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغان عوام اپنی سرزمین پر کسی غیر ملکی فوجی موجودگی کو قبول نہیں کریں گے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان حکومت کے وزارت خارجہ کے سیکنڈ پولیٹیکل ڈائریکٹر ذاکر جلالی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بلگرام بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہاکہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک کامیاب تاجر اور مذاکرات کار کی حیثیت سے معاہدے کے ذریعے ایئربیس واپس لینے کی بات کر رہے ہیں، افغانستان اور امریکا کو اپنے تعلقات صرف فوجی موجودگی تک محدود رکھنے کے بجائے باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی اقتصادی اور سیاسی بنیادوں پر استوار کرنے چاہئیں۔
ذاکر جلالی نے واضح کیا کہ افغان عوام نے تاریخ میں کبھی بھی اپنی سرزمین پر غیر ملکی افواج کی موجودگی کو قبول نہیں کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر امریکا افغانستان کے ساتھ مضبوط تعلقات چاہتا ہے تو اس کی بنیاد عسکری نہیں بلکہ سیاسی، اقتصادی اور سفارتی تعاون ہونا چاہیے، بگرام ایئربیس کے حوالے سے کسی بھی قسم کی یکطرفہ کارروائی افغان عوام کے جذبات اور خودمختاری کے منافی ہوگی۔
واضح رہے کہ دوحہ معاہدے کے دوران بھی اس امکان کو یکسر مسترد کر دیا گیا تھا اور یہ بات ایک بار پھر دہرانا ضروری ہے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ افغان عوام خود کریں گے۔
خیال رہےکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم نے طالبان کو بگرام ایئربیس مفت میں دے دی لیکن اب ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ شاید ایک بریکنگ نیوز ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہم اس بیس کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ بگرام ایئربیس کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ اس مقام سے صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے۔