آبنائے ہرمز کی کیا اہمیت ہے اور عالمی معیشت پر اس کی ممکنہ بندش سے کیا اثر پڑے گا؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
آبنائے ہرمز دنیا کی توانائی رسد کا ایک انتہائی اہم اور حساس راستہ ہے، جس سے روزانہ تقریباً 21 ملین بیرل تیل سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات اور کویت سے دنیا بھر کے ممالک بشمول پاکستان، چین، جاپان، جنوبی کوریا، یورپ اور شمالی امریکا کو برآمد کیا جاتا ہے۔
یہ بحری گزرگاہ مشرق وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک کو ایشیا، یورپ، شمالی امریکا اور دیگر خطوں سے جوڑتی ہے۔ آبنائے ہرمز کے ایک جانب ایران جبکہ دوسری طرف امریکا کے اتحادی خلیجی عرب ممالک موجود ہیں۔
دنیا کے کل تیل کا تقریباً 20 فیصد اور قدرتی گیس کا 30 فیصد اسی راستے سے گزرتا ہے۔ یہاں سے روزانہ قریب 90 اور سالانہ 33 ہزار سے زائد بحری جہاز گزرتے ہیں۔ 33 کلومیٹر چوڑی اس آبی پٹی میں دو مخصوص شپنگ لینز ہیں، جن کی ہر ایک کی چوڑائی تین کلومیٹر ہے، اور یہ بڑے آئل ٹینکرز کے گزرنے کا بنیادی راستہ ہیں۔
قطر، جو دنیا میں سب سے زیادہ ایل این جی (مائع قدرتی گیس) برآمد کرتا ہے، بھی اپنی برآمدات کے لیے اسی آبی راستے پر انحصار کرتا ہے۔
آبنائے ہرمز کے ایک طرف خلیج فارس جبکہ دوسری طرف خلیج عمان واقع ہے۔ خلیج فارس کے اردگرد آٹھ ممالک — ایران، عراق، کویت، سعودی عرب، بحرین، قطر، متحدہ عرب امارات اور عمان — واقع ہیں۔
چین، جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے، اپنی توانائی کی ضروریات کا تقریباً نصف حصہ خلیج سے اسی راستے سے درآمد کرتا ہے، جبکہ جاپان اپنی 95 فیصد اور جنوبی کوریا اپنی 71 فیصد تیل کی درآمدات اسی آبنائے کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ یہی راستہ خلیجی ممالک تک گاڑیاں اور الیکٹرانک مصنوعات کی برآمدات کا بھی ذریعہ ہے۔
عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ شدت اختیار کرتی ہے یا امریکا کی جانب سے مزید حملے ہوتے ہیں، تو ایران آبنائے ہرمز کو ایک “ٹرمپ کارڈ” کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ ایران یہاں بارودی سرنگیں بچھا سکتا ہے، آبدوزیں، اینٹی شپ میزائل اور جنگی کشتیاں تعینات کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر تیل کی شدید قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر 130 ڈالر فی بیرل تک جا سکتی ہیں۔
دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق آبنائے ہرمز نہ صرف ایران کے لیے ایک اہم اسٹریٹیجک پوائنٹ ہے بلکہ یہ عالمی معیشت کے لیے بھی ایک لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ آبی راستہ بند ہوتا ہے تو اس کے اثرات ایران سمیت پوری دنیا کے لیے سنگین ہو سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
امریکا اور بھارت کے دفاعی معاہدے کی کیا اہمیت ہے؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-03-6
وجیہ احمد صدیقی
امریکا اور بھارت نے 31 اکتوبر 2025 کو ایک اہم 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستاویزی شکل میں دستخط کیے ہیں، جو کہ ان کے درمیان دفاعی تعاون کی نئی دہائی کی شروعات کا اعلان ہے۔ یہ معاہدہ ملائیشیا کے شہر کوالالمپور میں ASEAN Defense Ministers Meeting-Plus کے دوران بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیٹ کے مابین ہوا۔ اس دفاعی فریم ورک کا مقصد اگلے دس سال میں فوجی تعاون کو بڑھانا، ٹیکنالوجی کے تبادلے کو فروغ دینا، اور مشترکہ فوجی مشقوں کو وسعت دینا ہے۔ معاہدے میں خصوصاً ’’Make in India, Make for the World‘‘ کے لیے دفاعی صنعتوں کی مشترکہ پیداوار اور ترقی پر زور دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، اطلاعات اور انٹیلی جنس کے تبادلے کو مضبوط بنانے، سائبر اور بحری تحفظ جیسے عسکری چیلنجز سے نمٹنے، اور علاقائی استحکام کے لیے ایک آزاد اور قوانین پر مبنی انڈو- پیسفک خطے کو قائم رکھنے کی ذمے داریوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اسے ’’دوسری دہائی کے لیے ایک متحد دفاعی حکمت عملی‘‘ قرار دیا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان اسٹرٹیجک شراکت مضبوط ہوگی۔ امریکی وزیر دفاع نے بھی اس کو دونوں ممالک کے درمیان ایک ادارہ جاتی اور وسیع تعاون کا اہم سنگ میل قرار دیا، جو خاص طور پر چین کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں کے پیش نظر انڈو- پیسفک خطے میں امریکا کے حق میں توازن قائم رکھنے کی کوشش ہے۔
یہ معاہدہ گزشتہ برسوں کے دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کرتا ہے، جس میں بھارت کو امریکا سے جدید ہتھیاروں اور تکنیکی معاونت حاصل کرنے، اور مشترکہ دفاعی پیداوار کو فروغ دینے کے مواقع شامل ہیں۔ خلاصہ کے طور پر، امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والا یہ 10 سالہ دفاعی معاہدہ علاقائی سلامتی، دفاعی صنعتوں کی ترقی، اور فوجی تعاون کو نئی بلندیوں تک لے جانے والا ایک کلیدی اقدام ہے، جو دونوں ملکوں کے تعلقات کی گہرائی اور اسٹرٹیجک مفادات کا عکاس ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس معاہدے کا علم ہونے کے باوجود بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے آسیان اجلاس میں شرکت نہیں کی اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کا موقع کھو دیا۔
امریکا نے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ دفاعی معاہدے کیے ہیں جن میں جاپان، جرمنی، برطانیہ، اسرائیل، ترکیہ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، سعودی عرب، قطر اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان کئی دفاعی معاہدے ہوئے ہیں، جن میں جدید میزائل پروگرام میں پاکستان کی شمولیت بھی شامل ہے۔ پاکستان امریکا کے اس عالمی میزائل پروگرام میں 30 ممالک کی فہرست میں شامل ہوا ہے جہاں جدید میزائل خریدے جاتے ہیں، اور پاکستان نے اپنے ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لیے امریکی تعاون حاصل کیا ہے۔ یہ معاہدے پاکستان کے ساتھ بڑھتے ہوئے فوجی اور اقتصادی تعلقات کی عکاسی کرتے ہیں۔
امریکا نے بھارت کے ساتھ کسی جنگ میں ساتھ دینے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا، تاہم دفاعی معاہدوں کے ذریعے علاقائی سیکورٹی تعاون کو فروغ دیا جارہا ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکا نے متعدد دفاعی معاہدے کیے ہیں جن کے تحت جدید ہتھیاروں اور میزائلوں کی فراہمی، فوجی تربیت اور اسٹرٹیجک تعاون شامل ہیں، لیکن پاکستان اور امریکا کے درمیان جنگ کی صورت میں براہ راست حمایت کا کوئی معاہدہ نہیں۔
یہ معاہدے علاقائی سیکورٹی کے تناظر میں امریکا کی عسکری اور سفارتی پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں جو پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مختلف انداز میں سنوارتے ہیں۔ مزید تفصیلات معاہدوں کی نوعیت، تاریخ اور اثرات پر مزید تحقیق اور دستاویزی مواد کے ذریعے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح امریکا نے دفاعی معاہدات کے ذریعے خطے میں اپنی سیاسی اور فوجی حکمت عملی کو بروئے کار لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
امریکا کے بین الاقوامی دفاعی معاہدوں کی مکمل فہرست تیار کرنا ایک وسیع موضوع ہے کیونکہ امریکا نے دنیا کے کئی ممالک کے ساتھ مختلف دوروں میں متعدد دفاعی معاہدے کیے ہیں۔ تاہم، موجودہ معتبر ذرائع کی بنیاد پر امریکا کے چند نمایاں اور اہم بین الاقوامی دفاعی معاہدات سال وار ترتیب میں یہ ہیں۔
2017: جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کا معاہدہ؛ جو نیوکلیئر ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے قانونی اور بین الاقوامی معاہدہ ہے۔
2020: دوحا امن معاہدہ؛ امریکا اور طالبان کے درمیان افغانستان میں جنگ بندی کے لیے۔
2020: نگورنو کاراباخ جنگ بندی معاہدہ؛ جس نے 2020 کی ناگورنو کاراباخ جنگ ختم کی۔
2025: امریکا نے پاکستان کو جدید درمیانی فاصلے کے میزائل پروگرام میں شامل کیا، جس میں ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن بھی شامل ہے۔
2025: امریکا اور بھارت نے 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کیے، جس کے تحت دفاعی تعاون، حساس ڈیٹا کا تبادلہ، اور تکنیکی شراکت داری کو فروغ دیا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں بھارت کو امریکی فوجی سیٹلائٹ سے حساس معلومات کی رسائی بھی دی گئی ہے۔ امریکا کے ساتھ دیگر ممالک کے بھی دفاعی معاہدات ہیں جن میں مختلف فوجی مشقیں، ہتھیاروں کی فراہمی، اور اسٹرٹیجک تعاون شامل ہیں۔ یہ فہرست جامع تو نہیں لیکن اہم اور تازہ ترین معاہدات کی نمائندگی کرتی ہے جو امریکا کی عالمی دفاعی حکمت عملی کے بنیادی ستون ہیں۔ تفصیلی معاہدات کی مکمل فہرست عالمی دفاعی اور سفارتی اداروں کی دستاویزات میں دستیاب ہوتی ہے۔ امریکی بین الاقوامی دفاعی معاہدوں کے کلیدی شرائط اور فریقین درج ذیل ہیں، جن کا خلاصہ اہم معاہدوں کی بنیاد پر پیش کیا جا رہا ہے۔
امریکا، بھارت 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدہ (2025) فریقین: امریکا اور بھارت۔ کلیدی شرائط: دفاعی تعاون، حساس فوجی معلومات کی باہمی فراہمی، مشترکہ فوجی مشقیں، دفاعی ٹیکنالوجی کی منتقلی، دہشت گردی کے خلاف اشتراک عمل۔ مقصد: علاقائی استحکام اور دفاعی شراکت داری کو مضبوط کرنا۔
امریکا، پاکستان جدید میزائل پروگرام میں شمولیت (2025): فریقین: امریکا اور پاکستان۔ کلیدی شرائط: پاکستان کے جدید درمیانی فاصلے کے میزائل پروگرام میں شمولیت، ایف-16 طیاروں کی اپ گریڈیشن، فوجی ہتھیاروں کی فراہمی، مشترکہ دفاعی تربیت۔ مقصد: پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو جدید بنانا اور دو طرفہ تعلقات کو تقویت دینا۔
دوحا امن معاہدہ (2020): فریقین: امریکا اور طالبان۔ کلیدی شرائط: لڑائی بند کرنا، افغان حکومت سے بات چیت شروع کرنا، غیر ملکی افواج کا انخلا، طالبان کی طرف سے دہشت گردی کی حمایت ختم کرنا۔ مقصد: افغانستان میں پائیدار امن قائم کرنا۔
جوہری ہتھیاروں کی ممانعت کے معاہدات (متعدد برسوں میں) فریقین: امریکا اور دیگر عالمی ممالک۔ کلیدی شرائط: نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری، جانچ اور استعمال کی روک تھام، نیوکلیئر تکنیکی معلومات کی از سر نو جانچ اور کنٹرول۔ مقصد: عالمی نیوکلیئر استحکام اور ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنا۔ یہ معاہدے تمام شرائط میں قانونی، فنی اور سیاسی پہلوؤں پر مبنی ہوتے ہیں، جن میں فریقین کی ذمے داریوں، تعاون کی حدود، مدت، سیکورٹی تصدیق، اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار کی تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔ یہ فریقین کے درمیان اعتماد قائم کرنے، دفاعی تعاون مضبوط بنانے، اور علاقائی اور عالمی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ مزید تفصیلی شرائط ہر معاہدے کی سرکاری دستاویزات یا متعلقہ حکومتی و عالمی اداروں کے مواد میں موجود ہوتی ہیں۔