تجربات کی بھینٹ چڑھتے انسان
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
جوابِ شکوہ
میں: تم کن انسانوں کی بات کر رہے ہو اور انہیں کن تجربات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے؟
وہ: یہ وہ انسان ہیں جن کے نصیب میں ازل سے ہی کبھی خدا کے نام پر قربان ہونا اور بتوں کی خوشنودی کے لیے بھینٹ چڑھنا لکھ دیا گیا ہے اورگزشتہ کچھ صدیوں سے خاص طور پر میڈیکل سائنس نے مظلوم اور لاچار انسانوں کو اپنے تجربات کی آزمائش گاہ بنا رکھا ہے۔ اور آج کے جدید دور میں طرح طرح کے خطرناک بم اور اسلحہ بارود کی حتمی جانچ کے لیے بھی انسان اسی قدیم اصول پر عمل پیرا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکا کی جانب سے ایٹم بم گرانا ہے، جس کا واضح مقصد ایٹم بم سے ہونے والے نقصانات اور اس کے مہلک اثرات کا اندازہ لگانے سے سوا کچھ اور نہ تھا۔ ورنہ امریکا کے لیے پرل ہاربر کا جواب ایک اور پرل ہاربر کی شکل میں دینا کیا مشکل تھا؟۔
میں: میرے خیال میں اس وقت امریکا ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پرخود کو منوانا چاہتا تھا، جس کے لیے ضروری تھا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ اسے برطانیہ کے بعد جنگل کا نیا بادشاہ بلاشرکت غیرے تسلیم کیا جائے لیکن اس مقصد کا حصول سوویت یونین یعنی روس جیسی طاقت کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا۔
وہ: یہ ایک علٰیحدہ بحث ہے اور اس کے تانے بانے سرد جنگ سے جڑے ہوئے ہیں جس میں بنیادی طور پر امریکا اور روس نے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے اور قبضہ جمانے کے لیے اپنے جنگی آلات اور کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا، جس کا پس پردہ مقصد عالمی منڈی میں اپنے اسلحہ وگولہ بارود کے لیے نئے گاہک تلاش کرنا تھا۔ اس دنیا میں بڑے بڑے امن کے ٹھیکیدار موجود ہیں جس کا سب سے بڑا دعوے دار خود امریکا ہے۔ آج تک کسی نام نہاد اقوام متحدہ یا کسی اور ملک نے عالمی عدالت یا کسی اور فورم پر جاپان پر ایٹم بم گرانے کی پاداش میں امریکا پر کوئی فرد ِ جرم عائد کرنے کی جسارت کی ہے؟ یا ویت نام، کیوبا، صومالیہ، سوڈان، افغانستان، عراق، فلسطین وغیرہ پر جو ظلم صرف اور صرف امریکا بہادر کے ایما پر ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے، کوئی ہے سوال کرنے والا؟ ہے کسی میں ہمت جو روس سے پوچھے کہ جنوبی ایشیا کے گرم پانیوں پر قبضے کی خواہش لیے آپ نے افغانستان پر برسوں تک قتل وغارت کا طوفان کیوں برپا کیے رکھا۔ اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ان میں سے بیش تر علاقوں میں ہونے والی مزاحمتوں میں صحیح اور غلط سے قطع نظر دونوں ہی قوتوں کو باہم دست وگریباں کرنے میں بھی یہ طاقتیں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔
میں: تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟
وہ: یعنی وہ ممالک جن کو امریکا، روس، چین، فرانس اور دیگر بڑے مغربی ممالک اسلحہ اور جنگی سازو سامان فروخت کررہے ہیں، ان ممالک میں موجود علٰیحدگی کی تحریکوں، دہشت گرد تنظیموں اور ملک دشمن کارروائیوں میں مصروف عناصر کو بھی یہی ممالک اپنا اسلحہ فروخت کررہے ہیں۔ کیا امریکا، روس اور چین کی پارلیمنٹس میں بیٹھے حکومتی افراد نہیں جانتے کہ وہ کون سے ایجنٹس اور بروکرز ہیں جن کے ذریعے ان عناصر کو ایک سے ایک جدید اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔ ان ملکوں میں مافیا کی طرح پنجے گاڑے اسلحے کے بڑے بڑے اسمگلر کیا انٹارکٹیکا سے آتے ہیں۔ نہیں ان مافیاز کے کرتا دھرتا پارلیمنٹ میں موجود ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور سرکار کے علاوہ غیر سرکاری اور غیر قانونی ذرائع سے اسمگل اور فروخت کیا جانے والا سازو سامان پوری دنیا میں ان ہی کی سرپرستی میں پہنچایا جاتا ہے۔
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہوکہ دنیا میں مختلف مقامات اور اوقات میں برپا جنگیں اصل میں اسلحے کی تجارتی منڈیوں کا فروغ ہے۔ جن کے خریداروں میں پاکستان، بھارت، سعودی عرب، مصر، شام اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ اور اس تجارت کے پھلنے پھولنے کے لیے کسی ایک نہیں بیک وقت کئی مقامات پر خانہ جنگی، بدامنی اور جنگوں کا جاری رہنا ازحد ضروری ہے۔
وہ: بالکل صحیح کہا تم نے اسرائیل فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے اور امریکا اپنے اسلحے کا اسٹاک تیزی سے فروخت کرتا جارہا ہے۔ اور نئے آرڈر کی تیاری کے لیے کام دن رات جاری ہے۔ خود ہی سوچو ایک منافع بخش کاروبار اور پھلتی پھولتی تجارت جو کہ ان کی معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کون چاہے گا کہ دنیا کی امن وسلامتی کے نام پر ختم کردی جائے۔ اگر غزہ میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد پچاس پچپن ہزار سے تجاوز کرچکی ہے تو ہماری بلا سے۔ ہمارے ملکوں میں تو امن وسلامتی ہے نا، کہیں کوئی دنگا فساد نہیں ہے اور رہے تھوڑے بہت احتجاجی، وہ تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں۔ بقول فرازؔ
لوگ ہر بات کا افسانہ بنادیتے ہیں
یہ تو دنیا ہے میری جاں کئی دشمن کئی دوست
میں: تم نے ایک بڑے اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلحہ ساز اور جنگی سازو سامان کے بڑے بڑے ان تاجر ملکوں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوئی انہوں نے تمام جنگیں اپنے تنخواہ دار وفاداروں کے ساتھ مل کر دوسرے خطوں میں برپا کی ہیں۔ تاکہ جنگ کے شعلے ہوا کے زور پر کسی بھی سمت سے ان کی اپنی زمین تک نہ پہنچنے پائیں۔
وہ: یعنی ایسا لگتا ہے کہ یہ ممالک خاص طور پر امریکا، روس، برطانیہ وغیرہ جنگ جنگ کھیلنے کے شوقین ہیں۔ اور اس سے پرلطف کھیل اور کون سا ہوگا جس میں ہارنے کا تو ذرہ برابر بھی اندیشہ نہیں ساتھ ہی اسلحے کی تجارت بھی خوب پھل پھول رہی ہے۔ کیوں کہ اس دنگا فساد اور جنگوں میں جتنی زیادہ قتل وغارت گری ہورہی اور جس تعداد میں لوگ مررہے ہیں تو یہ منظر ان ملکوں کے لیے اور بھی باعث ِتسکین ہوجاتا ہے کیوں مال کی طلب بڑھتی ہے تو کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ اور اگر اس کھیل میں تھوڑے بہت انسان مررہے ہیں تو کوئی بات نہیں آخر اپنے میزائلوں، اسلحے اور گولا بارود کے کارگر ہونے کا عملی تجربہ بھی ضروری ہے۔
میں: مجھے تو یہ بے حسی کا وہی کھیل لگتا ہے جو ان مغربی ملکوں میں بسنے والوں کے آبائو اجداد یونان کے دروازہ بند میدانوں میں کھلے آسمان کے نیچے کھیلا کرتے تھے، جن میں توانا غلاموں کو ایک ایسے اکھاڑے کے لیے تیار کیا جاتا تھا جس کا اختتام لازماً دو میں سے ایک کی موت پر ہوتا تھا اور یہ منظر وہاں موجود حکمران اور تماش بینوں کے لیے خوشی اور مسرت کا باعث بنتا تھا۔
وہ: بقول شاعر
اِن کا مرنا ہے زندگی اپنی
اِن سے وابستہ ہر خوشی اپنی
گولا بارود کے ذخیروں کی
یہ دکاں خوب چل پڑی اپنی
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ملکوں میں کے لیے رہا ہے ہے اور اور اس
پڑھیں:
تعریفیں اور معاہدے
دنیا کی سیاست میں کبھی کوئی دوستی مستقل نہیں رہی اور نہ ہی کوئی دشمنی ہمیشہ کے لیے ٹھہری۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ہی مفاد پرستی پر ہے۔ ایک وقت تھا جب امریکا پاکستان کو اپنا سب سے بڑا اتحادی قرار دیتا تھا اور اب وہی امریکا بھارت کے ساتھ معاہدوں کے انبار لگا رہا ہے۔
بات صرف فوجی تعاون تک محدود نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، تجارت، ایٹمی توانائی اور خلائی تحقیق تک جا پہنچی ہے۔ ایسے میں جب امریکی صدر یا وزیر پاکستان کے حق میں کوئی تعریفی بیان دیتا ہے تو ہمارے حکمرانوں کے چہروں پر خوشی کے پھول کھل جاتے ہیں جیسے کوئی بڑی فتح حاصل ہو گئی ہو مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ تعریفوں کے پیچھے جو سیاست چھپی ہے، وہ دراصل مفادات کا جال ہے اور اس جال میں ہم برسوں سے الجھے ہوئے ہیں۔
امریکا نے سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ کبھی روس کے خلاف مورچہ بنوایا، کبھی افغانستان کے جہاد میں دھکیلا اور جب مقاصد پورے ہوگئے تو تنہا چھوڑ دیا۔ بھارت اُس وقت غیر جانبداری کے فلسفے پرکاربند تھا، پنڈت نہرو اقوامِ متحدہ کے ایوانوں میں سامراج کی مخالفت کرتے تھے، مگر وقت نے کروٹ بدلی۔ اب بھارت، امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک پارٹنر شپ رکھتا ہے۔ کل تک جو ملک غیر جانبدار تھا، آج وہ امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ یہی ہے سرمایہ داری کی نئی شکل جہاں طاقتور ملک اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو اپنی پالیسیوں کے تابع بناتے ہیں۔
امریکا کے نزدیک دوستی کا معیار اصول نہیں بلکہ منڈی کی وسعت ہے۔ جہاں خرید و فروخت زیادہ ہو جہاں سرمایہ کاروں کے لیے راستے کھلیں وہیں سفارت کاری بھی مسکراہٹوں میں لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات کبھی بھی برابرکی بنیاد پر نہیں رہے۔ کبھی ہمیں امداد کے وعدوں سے بہلایا گیا،کبھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں مانگی گئیں۔ بھارت کو جدید ٹیکنالوجی دی جا رہی ہے اور ہمیں دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ یہی ہے اس دنیا کی طاقت کی حقیقت ہے جہاں دوستی بھی ناپ تول کرکی جاتی ہے۔
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ کسی بڑی طاقت کی تعریف کے محتاج رہے۔ کبھی امریکا کی خوشنودی کے لیے اپنی پالیسیاں بدلیں،کبھی چین کے ساتھ توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے اپنی خود مختاری کو بیرونی تعلقات کی بنیاد پر پرکھنا شروع کر دیا۔ ہر بار جب واشنگٹن سے کوئی تعریفی لفظ سنائی دیتا ہے ہم یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ شاید تاریخ بدلنے والی ہے لیکن وہ لفظ صرف سفارتکاری کا ایک جملہ ہوتا ہے جس کے پیچھے سود و زیاں کی طویل فہرست چھپی ہوتی ہے۔
ادھر بھارت میں سامراج کی آغوش میں بیٹھے رہنماؤں کو یہ فخر ہے کہ امریکا نے انھیں چین کے مقابل کھڑا کردیا ہے۔ انھیں معلوم نہیں کہ یہ قربت وقتی ہے۔ جس طرح ایک وقت میں امریکا نے صدام حسین، ضیاء الحق اور دیگر حلیفوں کو استعمال کیا، اسی طرح بھارت بھی ایک دن اس کھیل کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔ یہ دوستی نہیں، یہ سرمایہ دارانہ ضرورت ہے اور جب ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو دوستیاں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔
امریکا کے بھارت کے ساتھ بڑھتے معاہدے دراصل اس خطے کو مزید عسکری مسابقت میں جھونک رہے ہیں۔ ہر نئے دفاعی معاہدے کے بعد جنوبی ایشیا میں ہتھیاروں کی دوڑ تیز ہو جاتی ہے۔ عوام بھوک بے روزگاری اور مہنگائی میں پس رہے ہیں مگر حکمران اسلحے کے سودوں پر مسکرا رہے ہیں۔
بھارت اور پاکستان دونوں کے بجٹ کا سب سے بڑا حصہ دفاع پر صرف ہوتا ہے جب کہ تعلیم، صحت اور روزگار کے لیے بچی کھچی رقم بھی عالمی اداروں کے قرضوں کے سود میں چلی جاتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں ایک ترقی پسند قلم سوال اٹھاتا ہے کہ آخر یہ تعریفیں اور معاہدے عوام کے کس کام کے ہیں؟ امریکا کے کسی صدرکے چند جملے یا بھارت کے ساتھ ہونے والا کوئی بڑا معاہدہ نہ تو اس خطے کے مزدور کے چولہے کو جلا سکتا ہے، نہ ہی کسی کسان کے کھیت کو سیراب کر سکتا ہے۔ جب تک خطے کی قومیں اپنی پالیسیاں عوامی مفاد کے مطابق نہیں بنائیں گی تب تک یہ تمام معاہدے صرف طاقت کے کھیل کا حصہ رہیں گے۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اپنے عوام کی خوشحالی کو اسلحے کے انبار سے زیادہ اہم سمجھیں۔ وہ دن شاید دور نہیں جب سامراجی طاقتوں کی مسکراہٹوں میں چھپی دھوکا دہی پہچانی جائے گی۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تعریف پہ توجہ نہ دیں بلکہ یہ دیکھیں کہ معاہدوں کے کاغذوں پرکس کا خون اورکس کی محنت لکھی جا رہی ہے۔ سچی آزادی وہی ہے جو عوام کے شعور اور خود اعتمادی سے پیدا ہو نہ کہ کسی طاقتور ملک کے عارضی کلماتِ تحسین سے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جنوبی ایشیا کے عوام اپنی تقدیر کے فیصلے خود کریں۔ کوئی بیرونی طاقت نہ ہماری آزادی کی ضمانت بن سکتی ہے نہ ہماری معیشت کی ضامن۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی اور امن کا راستہ اسلحے سے نہیں بلکہ تعلیم روزگار اور انصاف سے گزرتا ہے۔جب تک عوام کو اپنی قوت پر یقین نہیں آئے گا، تب تک وہ طاقتور ممالک کی تعریف کے سحر میں مبتلا رہیں گے۔ ہمیں اپنے بچوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ قومی وقار کسی دوسرے ملک کے بیانات سے نہیں بلکہ اپنے عمل اپنی محنت اور اپنی خود داری سے حاصل ہوتا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ہمیں واقعی ترقی اور آزادی کی راہ پر گامزن ہونا ہے تو ہمیں اپنی داخلی سیاست میں شفافیت انصاف اور عوامی شرکت کو یقینی بنانا ہوگا۔ جب ریاست اپنی عوام کو بااختیار بناتی ہے تو بیرونی طاقتیں خود بخود کمزور ہوجاتی ہیں۔ یہی وہ شعور ہے جو حقیقی آزادی کا زینہ ہے۔