Jasarat News:
2025-09-22@02:16:22 GMT

تجربات کی بھینٹ چڑھتے انسان

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جوابِ شکوہ
میں: تم کن انسانوں کی بات کر رہے ہو اور انہیں کن تجربات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے؟
وہ: یہ وہ انسان ہیں جن کے نصیب میں ازل سے ہی کبھی خدا کے نام پر قربان ہونا اور بتوں کی خوشنودی کے لیے بھینٹ چڑھنا لکھ دیا گیا ہے اورگزشتہ کچھ صدیوں سے خاص طور پر میڈیکل سائنس نے مظلوم اور لاچار انسانوں کو اپنے تجربات کی آزمائش گاہ بنا رکھا ہے۔ اور آج کے جدید دور میں طرح طرح کے خطرناک بم اور اسلحہ بارود کی حتمی جانچ کے لیے بھی انسان اسی قدیم اصول پر عمل پیرا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکا کی جانب سے ایٹم بم گرانا ہے، جس کا واضح مقصد ایٹم بم سے ہونے والے نقصانات اور اس کے مہلک اثرات کا اندازہ لگانے سے سوا کچھ اور نہ تھا۔ ورنہ امریکا کے لیے پرل ہاربر کا جواب ایک اور پرل ہاربر کی شکل میں دینا کیا مشکل تھا؟۔
میں: میرے خیال میں اس وقت امریکا ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پرخود کو منوانا چاہتا تھا، جس کے لیے ضروری تھا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ اسے برطانیہ کے بعد جنگل کا نیا بادشاہ بلاشرکت غیرے تسلیم کیا جائے لیکن اس مقصد کا حصول سوویت یونین یعنی روس جیسی طاقت کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا۔
وہ: یہ ایک علٰیحدہ بحث ہے اور اس کے تانے بانے سرد جنگ سے جڑے ہوئے ہیں جس میں بنیادی طور پر امریکا اور روس نے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے اور قبضہ جمانے کے لیے اپنے جنگی آلات اور کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا، جس کا پس پردہ مقصد عالمی منڈی میں اپنے اسلحہ وگولہ بارود کے لیے نئے گاہک تلاش کرنا تھا۔ اس دنیا میں بڑے بڑے امن کے ٹھیکیدار موجود ہیں جس کا سب سے بڑا دعوے دار خود امریکا ہے۔ آج تک کسی نام نہاد اقوام متحدہ یا کسی اور ملک نے عالمی عدالت یا کسی اور فورم پر جاپان پر ایٹم بم گرانے کی پاداش میں امریکا پر کوئی فرد ِ جرم عائد کرنے کی جسارت کی ہے؟ یا ویت نام، کیوبا، صومالیہ، سوڈان، افغانستان، عراق، فلسطین وغیرہ پر جو ظلم صرف اور صرف امریکا بہادر کے ایما پر ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے، کوئی ہے سوال کرنے والا؟ ہے کسی میں ہمت جو روس سے پوچھے کہ جنوبی ایشیا کے گرم پانیوں پر قبضے کی خواہش لیے آپ نے افغانستان پر برسوں تک قتل وغارت کا طوفان کیوں برپا کیے رکھا۔ اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ان میں سے بیش تر علاقوں میں ہونے والی مزاحمتوں میں صحیح اور غلط سے قطع نظر دونوں ہی قوتوں کو باہم دست وگریباں کرنے میں بھی یہ طاقتیں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔
میں: تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟
وہ: یعنی وہ ممالک جن کو امریکا، روس، چین، فرانس اور دیگر بڑے مغربی ممالک اسلحہ اور جنگی سازو سامان فروخت کررہے ہیں، ان ممالک میں موجود علٰیحدگی کی تحریکوں، دہشت گرد تنظیموں اور ملک دشمن کارروائیوں میں مصروف عناصر کو بھی یہی ممالک اپنا اسلحہ فروخت کررہے ہیں۔ کیا امریکا، روس اور چین کی پارلیمنٹس میں بیٹھے حکومتی افراد نہیں جانتے کہ وہ کون سے ایجنٹس اور بروکرز ہیں جن کے ذریعے ان عناصر کو ایک سے ایک جدید اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔ ان ملکوں میں مافیا کی طرح پنجے گاڑے اسلحے کے بڑے بڑے اسمگلر کیا انٹارکٹیکا سے آتے ہیں۔ نہیں ان مافیاز کے کرتا دھرتا پارلیمنٹ میں موجود ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور سرکار کے علاوہ غیر سرکاری اور غیر قانونی ذرائع سے اسمگل اور فروخت کیا جانے والا سازو سامان پوری دنیا میں ان ہی کی سرپرستی میں پہنچایا جاتا ہے۔
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہوکہ دنیا میں مختلف مقامات اور اوقات میں برپا جنگیں اصل میں اسلحے کی تجارتی منڈیوں کا فروغ ہے۔ جن کے خریداروں میں پاکستان، بھارت، سعودی عرب، مصر، شام اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ اور اس تجارت کے پھلنے پھولنے کے لیے کسی ایک نہیں بیک وقت کئی مقامات پر خانہ جنگی، بدامنی اور جنگوں کا جاری رہنا ازحد ضروری ہے۔
وہ: بالکل صحیح کہا تم نے اسرائیل فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے اور امریکا اپنے اسلحے کا اسٹاک تیزی سے فروخت کرتا جارہا ہے۔ اور نئے آرڈر کی تیاری کے لیے کام دن رات جاری ہے۔ خود ہی سوچو ایک منافع بخش کاروبار اور پھلتی پھولتی تجارت جو کہ ان کی معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کون چاہے گا کہ دنیا کی امن وسلامتی کے نام پر ختم کردی جائے۔ اگر غزہ میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد پچاس پچپن ہزار سے تجاوز کرچکی ہے تو ہماری بلا سے۔ ہمارے ملکوں میں تو امن وسلامتی ہے نا، کہیں کوئی دنگا فساد نہیں ہے اور رہے تھوڑے بہت احتجاجی، وہ تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں۔ بقول فرازؔ
لوگ ہر بات کا افسانہ بنادیتے ہیں
یہ تو دنیا ہے میری جاں کئی دشمن کئی دوست
میں: تم نے ایک بڑے اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلحہ ساز اور جنگی سازو سامان کے بڑے بڑے ان تاجر ملکوں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوئی انہوں نے تمام جنگیں اپنے تنخواہ دار وفاداروں کے ساتھ مل کر دوسرے خطوں میں برپا کی ہیں۔ تاکہ جنگ کے شعلے ہوا کے زور پر کسی بھی سمت سے ان کی اپنی زمین تک نہ پہنچنے پائیں۔
وہ: یعنی ایسا لگتا ہے کہ یہ ممالک خاص طور پر امریکا، روس، برطانیہ وغیرہ جنگ جنگ کھیلنے کے شوقین ہیں۔ اور اس سے پرلطف کھیل اور کون سا ہوگا جس میں ہارنے کا تو ذرہ برابر بھی اندیشہ نہیں ساتھ ہی اسلحے کی تجارت بھی خوب پھل پھول رہی ہے۔ کیوں کہ اس دنگا فساد اور جنگوں میں جتنی زیادہ قتل وغارت گری ہورہی اور جس تعداد میں لوگ مررہے ہیں تو یہ منظر ان ملکوں کے لیے اور بھی باعث ِتسکین ہوجاتا ہے کیوں مال کی طلب بڑھتی ہے تو کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ اور اگر اس کھیل میں تھوڑے بہت انسان مررہے ہیں تو کوئی بات نہیں آخر اپنے میزائلوں، اسلحے اور گولا بارود کے کارگر ہونے کا عملی تجربہ بھی ضروری ہے۔
میں: مجھے تو یہ بے حسی کا وہی کھیل لگتا ہے جو ان مغربی ملکوں میں بسنے والوں کے آبائو اجداد یونان کے دروازہ بند میدانوں میں کھلے آسمان کے نیچے کھیلا کرتے تھے، جن میں توانا غلاموں کو ایک ایسے اکھاڑے کے لیے تیار کیا جاتا تھا جس کا اختتام لازماً دو میں سے ایک کی موت پر ہوتا تھا اور یہ منظر وہاں موجود حکمران اور تماش بینوں کے لیے خوشی اور مسرت کا باعث بنتا تھا۔
وہ: بقول شاعر
اِن کا مرنا ہے زندگی اپنی
اِن سے وابستہ ہر خوشی اپنی
گولا بارود کے ذخیروں کی
یہ دکاں خوب چل پڑی اپنی

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ملکوں میں کے لیے رہا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

ہم نے ڈاکٹر خان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250920-03-3

 

متین فکری

ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ ہم پاکستانی تو اپنے ہیروز اور محسنوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، ان کے راستے میں آنکھیں بچھاتے ہیں انہیں عزت و توقیر اور مقبولیت کے بلند ترین مقام پر بٹھاتے ہیں لیکن جو لوگ حکمران وقت ہوتے ہیں وہ اس مقبولیت سے حسد کی آگ میں جلنے لگتے ہیں اور قوم کے محسنوں کے ساتھ وہ سلوک کرتے ہیں کہ انسانیت شرمانے لگتی ہے۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ ابھی ایسا ہی ہوا۔ پاکستان نے ایٹمی دھماکے تو بھارت کے جواب میں 28 مئی 1998ء کو کیے لیکن ڈاکٹر خان نے گولڈٹسٹ کے ذریعے پاکستان کو بہت پہلے ایٹمی صلاحیت سے ہمکنار کردیا تھا۔ یہ جنرل ضیا الحق کا دور حکومت تھا، پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر کشیدگی پھیلی ہوئی تھی بھارت اپنی فوج کا بڑا حصہ سرحدوں پر لے آیا تھا۔ ایسے میں ڈاکٹر خان نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے بارے میں جنرل ضیا الحق کو بریفنگ دی اور انہوں نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو وارننگ دی کہ کسی غلط فہمی میں نہ رہنا ہم تمہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ وارننگ اتنی دو ٹوک اور واضح انداز میں دی گئی تھی کہ راجیو گاندھی کے پسینے چھوٹ گئے اور اس نے بھارتی فوجوں کو سرحدوں سے واپس بلالیا۔

بھارت نے مئی 1998ء کے آغاز میں 4 ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان پر سبقت لے جانے کی کوشش کی تھی۔ پاکستان کے بارے میں اس کا رویہ بالکل بدل گیا تھا۔ وہ پاکستان کو مسلسل ڈرانے اور دبانے کی کوشش کررہا تھا۔ چنانچہ پاکستان پر بھی بھارت کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ اس وقت میاں نواز شریف ملک کے وزیراعظم تھے۔ ان کی کابینہ کے اکثر ارکان ایٹمی دھماکا کرنے کے مخالف تھے، امریکا کا بھی میاں نواز شریف پر دبائو تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی صورت میں صدر کلنٹن نے انہیں اربوں ڈالر کی پیش کش کی تھی لیکن بزرگ صحافی مجید نظامی کی وارننگ کام کر گئی انہوں نے میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’میاں صاحب اگر آپ نے دھماکے نہ کیے تو قوم آپ کا دھماکا کردے گی‘‘۔ چنانچہ میاں صاحب نے نہ چاہتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کا حکم دے دیا۔ ان کی جگہ کوئی بھی وزیراعظم ہوتا تو اسے یہ کام کرنا پڑتا کیونکہ حالات کا تقاضا یہی تھا۔ انہوں نے صرف حکم دیا تھا۔ دھماکے تو اس ٹیکنیکل ٹیم نے کیے تھے جو اس مقصد کے لیے چاغی (بلوچستان) گئی تھی، البتہ میاں نواز شریف کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ انہوں نے ایٹمی صلاحیت کا کریڈٹ ڈاکٹر خان سے چھیننے کی کوشش کی تھی اور ان کے مقابلے میں ایک اور سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو آگے لایا گیا تھا اور ایٹمی دھماکوں کا کریڈٹ ان کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن یہ کوشش بُری طرح ناکام رہی اور عوام نے ڈاکٹر خان کو ہی سر آنکھوں پہ بٹھایا اور انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا خالق اور ہیرو قرار دیا۔

نائن الیون کے بعد جب جنرل پرویز مشرف نے امریکا کے آگے سرنڈر کردیا تو امریکا کی حریصانہ نگاہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھی پڑنے لگیں۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر فوج کی تحویل میں تھا۔ ڈاکٹر خان اس پروگرام کے بانی اور معمار ضرور تھے لیکن انہیں من مانی کرنے کی آزاد نہ تھی سب کچھ فوج کے کنٹرول میں تھا لیکن امریکا نے نہایت بددیانتی کے ساتھ ڈاکٹر خان کے خلاف ایٹمی پھیلائو کی مہم شروع کردی، ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ ایران، شمالی کوریا اور دیگر ملکوں کو غیر قانونی طور پر ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرکے دنیا میں خطرناک ایٹمی پھیلائو کے مرتکب ہورہے ہیں جس سے عالمی امن کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ امریکی اور یورپی میڈیا میں ڈاکٹر خان کے خلاف یہ مہم اتنی بڑھی کہ امریکا نے اس کی آڑ میں ڈاکٹر خان پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔ جنرل پرویز مشرف سے کہا گیا کہ وہ ڈاکٹر خان کو امریکا کے حوالے کردیں۔ جنرل پرویز مشرف پہلے ہی امریکا کے آگے گھٹنے ٹیک چکے تھے وہ امریکا کے اس دبائو کا سامنا نہ کرسکے اور آمادہ ہوگئے، چنانچہ امریکی طیارہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو لینے کے لیے آگیا اور نور خان ائر بیس پر کھڑا ہوگیا لیکن ڈاکٹر خان کو امریکا کے حوالے کرنے کے لیے کابینہ اور وزیراعظم کی منظوری ضروری تھی۔ وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کی قومی غیرت آڑے آگئی انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے اصرار کے باوجود کابینہ کا اجلاس بلانے اور ڈاکٹر خان کی امریکا منتقلی کے حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اس طرح امریکی طیارہ کئی دن تک ائر بیس پر کھڑا رہنے کے بعد خالی واپس چلا گیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا ڈاکٹر خان کو اپنی تحویل میں لے کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بیان دلوانا چاہتا تھا اور اس بیان کی روشنی میں وہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرکے اسے ایٹمی صلاحیت سے محروم کردیتا لیکن ظفر اللہ جمالی کی مخالفت نے اس کا یہ منصوبہ ناکام بنادیا۔ اگرچہ جمالی کو اس کی قیمت وزارت عظمیٰ سے برطرفی کی صورت میں ادا کرنا پڑی لیکن وہ پاکستان پر احسان کرگئے۔

ڈاکٹر خان کے ساتھ ناروا سلوک کا سلسلہ ان کی زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر خان سے ٹیلی فون پر باقاعدہ معافی منگوائی اور انہیں ایٹمی پھیلائو کے حوالے سے اعترافی بیان دینے پر مجبور کیا۔ انہیں ان کے قائم کردہ ادارے کے آر ایل کہوٹا کی سربراہی سے محروم کردیا گیا، ان کی نقل و حرکت پر پابندی لگادی گئی اور انہیں عملاً نظر بند کردیا گیا۔ انہوں نے باقی زندگی اسی حال میں گزاری۔ ان کا انتقال ہوا تو حکمرانوں میں سے کوئی بھی ان کے جنازے میں نہیں گیا۔ البتہ عوام نے بڑی تعداد میں ان کے سفر آخرت میں شرکت کی۔ وہ آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں جس شخص کا چرچا کیا جارہا ہے اور یوم تکبیر کے موقع پر سرکاری اشتہارات میں جس کی تصویر لگائی جارہی ہے وہ مر گیا تو کوئی اس کا نام لیوا بھی نہ ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ، عالمی ضمیرکا کڑا امتحان
  • خطے میں جاری بڑا کھیل
  • "ریوینج سیونگ" نے تنخواہ دار انسان کیلئے خرچہ پورے مہینے چلانے کا زبردست طریقہ بتادیا
  • امن صرف جنگ کے ختم ہونے کا نام نہیں، مریم نواز
  • انسانیت کا سب سے مقدس فرض امن قائم رکھنا ہے: مریم نواز
  • تبدیلی کا خلاصہ
  • انسان کے روپ میں وحشی درندہ
  • ہم نے ڈاکٹر خان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا
  • پاک، سعودی مشترکہ دفاع، ذمے داری بڑھ گئی ہے
  • ارباز خان نے خوشبو خان سے طلاق کی تصدیق کر دی