Jasarat News:
2025-06-23@01:32:54 GMT

تجربات کی بھینٹ چڑھتے انسان

اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

جوابِ شکوہ
میں: تم کن انسانوں کی بات کر رہے ہو اور انہیں کن تجربات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے؟
وہ: یہ وہ انسان ہیں جن کے نصیب میں ازل سے ہی کبھی خدا کے نام پر قربان ہونا اور بتوں کی خوشنودی کے لیے بھینٹ چڑھنا لکھ دیا گیا ہے اورگزشتہ کچھ صدیوں سے خاص طور پر میڈیکل سائنس نے مظلوم اور لاچار انسانوں کو اپنے تجربات کی آزمائش گاہ بنا رکھا ہے۔ اور آج کے جدید دور میں طرح طرح کے خطرناک بم اور اسلحہ بارود کی حتمی جانچ کے لیے بھی انسان اسی قدیم اصول پر عمل پیرا ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر امریکا کی جانب سے ایٹم بم گرانا ہے، جس کا واضح مقصد ایٹم بم سے ہونے والے نقصانات اور اس کے مہلک اثرات کا اندازہ لگانے سے سوا کچھ اور نہ تھا۔ ورنہ امریکا کے لیے پرل ہاربر کا جواب ایک اور پرل ہاربر کی شکل میں دینا کیا مشکل تھا؟۔
میں: میرے خیال میں اس وقت امریکا ایک ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کے طور پرخود کو منوانا چاہتا تھا، جس کے لیے ضروری تھا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے کہ اسے برطانیہ کے بعد جنگل کا نیا بادشاہ بلاشرکت غیرے تسلیم کیا جائے لیکن اس مقصد کا حصول سوویت یونین یعنی روس جیسی طاقت کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں تھا۔
وہ: یہ ایک علٰیحدہ بحث ہے اور اس کے تانے بانے سرد جنگ سے جڑے ہوئے ہیں جس میں بنیادی طور پر امریکا اور روس نے دنیا کے مختلف خطوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے اور قبضہ جمانے کے لیے اپنے جنگی آلات اور کیمیائی ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا، جس کا پس پردہ مقصد عالمی منڈی میں اپنے اسلحہ وگولہ بارود کے لیے نئے گاہک تلاش کرنا تھا۔ اس دنیا میں بڑے بڑے امن کے ٹھیکیدار موجود ہیں جس کا سب سے بڑا دعوے دار خود امریکا ہے۔ آج تک کسی نام نہاد اقوام متحدہ یا کسی اور ملک نے عالمی عدالت یا کسی اور فورم پر جاپان پر ایٹم بم گرانے کی پاداش میں امریکا پر کوئی فرد ِ جرم عائد کرنے کی جسارت کی ہے؟ یا ویت نام، کیوبا، صومالیہ، سوڈان، افغانستان، عراق، فلسطین وغیرہ پر جو ظلم صرف اور صرف امریکا بہادر کے ایما پر ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے، کوئی ہے سوال کرنے والا؟ ہے کسی میں ہمت جو روس سے پوچھے کہ جنوبی ایشیا کے گرم پانیوں پر قبضے کی خواہش لیے آپ نے افغانستان پر برسوں تک قتل وغارت کا طوفان کیوں برپا کیے رکھا۔ اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ان میں سے بیش تر علاقوں میں ہونے والی مزاحمتوں میں صحیح اور غلط سے قطع نظر دونوں ہی قوتوں کو باہم دست وگریباں کرنے میں بھی یہ طاقتیں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔
میں: تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟
وہ: یعنی وہ ممالک جن کو امریکا، روس، چین، فرانس اور دیگر بڑے مغربی ممالک اسلحہ اور جنگی سازو سامان فروخت کررہے ہیں، ان ممالک میں موجود علٰیحدگی کی تحریکوں، دہشت گرد تنظیموں اور ملک دشمن کارروائیوں میں مصروف عناصر کو بھی یہی ممالک اپنا اسلحہ فروخت کررہے ہیں۔ کیا امریکا، روس اور چین کی پارلیمنٹس میں بیٹھے حکومتی افراد نہیں جانتے کہ وہ کون سے ایجنٹس اور بروکرز ہیں جن کے ذریعے ان عناصر کو ایک سے ایک جدید اسلحہ فراہم کیا جارہا ہے۔ ان ملکوں میں مافیا کی طرح پنجے گاڑے اسلحے کے بڑے بڑے اسمگلر کیا انٹارکٹیکا سے آتے ہیں۔ نہیں ان مافیاز کے کرتا دھرتا پارلیمنٹ میں موجود ہر حکومت کا حصہ ہوتے ہیں اور سرکار کے علاوہ غیر سرکاری اور غیر قانونی ذرائع سے اسمگل اور فروخت کیا جانے والا سازو سامان پوری دنیا میں ان ہی کی سرپرستی میں پہنچایا جاتا ہے۔
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہوکہ دنیا میں مختلف مقامات اور اوقات میں برپا جنگیں اصل میں اسلحے کی تجارتی منڈیوں کا فروغ ہے۔ جن کے خریداروں میں پاکستان، بھارت، سعودی عرب، مصر، شام اور دیگر ممالک شامل ہیں۔ اور اس تجارت کے پھلنے پھولنے کے لیے کسی ایک نہیں بیک وقت کئی مقامات پر خانہ جنگی، بدامنی اور جنگوں کا جاری رہنا ازحد ضروری ہے۔
وہ: بالکل صحیح کہا تم نے اسرائیل فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے اور امریکا اپنے اسلحے کا اسٹاک تیزی سے فروخت کرتا جارہا ہے۔ اور نئے آرڈر کی تیاری کے لیے کام دن رات جاری ہے۔ خود ہی سوچو ایک منافع بخش کاروبار اور پھلتی پھولتی تجارت جو کہ ان کی معیشت کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کون چاہے گا کہ دنیا کی امن وسلامتی کے نام پر ختم کردی جائے۔ اگر غزہ میں جان سے ہاتھ دھونے والوں کی تعداد پچاس پچپن ہزار سے تجاوز کرچکی ہے تو ہماری بلا سے۔ ہمارے ملکوں میں تو امن وسلامتی ہے نا، کہیں کوئی دنگا فساد نہیں ہے اور رہے تھوڑے بہت احتجاجی، وہ تو ہر جگہ ہی ہوتے ہیں۔ بقول فرازؔ
لوگ ہر بات کا افسانہ بنادیتے ہیں
یہ تو دنیا ہے میری جاں کئی دشمن کئی دوست
میں: تم نے ایک بڑے اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اسلحہ ساز اور جنگی سازو سامان کے بڑے بڑے ان تاجر ملکوں میں دوسری جنگ عظیم کے بعد کوئی جنگ نہیں ہوئی انہوں نے تمام جنگیں اپنے تنخواہ دار وفاداروں کے ساتھ مل کر دوسرے خطوں میں برپا کی ہیں۔ تاکہ جنگ کے شعلے ہوا کے زور پر کسی بھی سمت سے ان کی اپنی زمین تک نہ پہنچنے پائیں۔
وہ: یعنی ایسا لگتا ہے کہ یہ ممالک خاص طور پر امریکا، روس، برطانیہ وغیرہ جنگ جنگ کھیلنے کے شوقین ہیں۔ اور اس سے پرلطف کھیل اور کون سا ہوگا جس میں ہارنے کا تو ذرہ برابر بھی اندیشہ نہیں ساتھ ہی اسلحے کی تجارت بھی خوب پھل پھول رہی ہے۔ کیوں کہ اس دنگا فساد اور جنگوں میں جتنی زیادہ قتل وغارت گری ہورہی اور جس تعداد میں لوگ مررہے ہیں تو یہ منظر ان ملکوں کے لیے اور بھی باعث ِتسکین ہوجاتا ہے کیوں مال کی طلب بڑھتی ہے تو کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا ہے۔ اور اگر اس کھیل میں تھوڑے بہت انسان مررہے ہیں تو کوئی بات نہیں آخر اپنے میزائلوں، اسلحے اور گولا بارود کے کارگر ہونے کا عملی تجربہ بھی ضروری ہے۔
میں: مجھے تو یہ بے حسی کا وہی کھیل لگتا ہے جو ان مغربی ملکوں میں بسنے والوں کے آبائو اجداد یونان کے دروازہ بند میدانوں میں کھلے آسمان کے نیچے کھیلا کرتے تھے، جن میں توانا غلاموں کو ایک ایسے اکھاڑے کے لیے تیار کیا جاتا تھا جس کا اختتام لازماً دو میں سے ایک کی موت پر ہوتا تھا اور یہ منظر وہاں موجود حکمران اور تماش بینوں کے لیے خوشی اور مسرت کا باعث بنتا تھا۔
وہ: بقول شاعر
اِن کا مرنا ہے زندگی اپنی
اِن سے وابستہ ہر خوشی اپنی
گولا بارود کے ذخیروں کی
یہ دکاں خوب چل پڑی اپنی

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ملکوں میں کے لیے رہا ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

ایران سے جنگ نہیں چاہتے، اصل ہدف تہران کا جوہری پروگرام ہے، امریکی نائب صدر

امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے کہا ہے کہ امریکا ایران سے جنگ نہیں چاہتا بلکہ اس کا اصل ہدف ایران کا جوہری پروگرام ہے۔ انہوں نے واضح کیاکہ امریکا زمینی جنگ یا حکومت کی تبدیلی میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ سفارتی عمل کے ذریعے طویل المدتی مفاہمت چاہتا ہے۔

جے ڈی وینس نے امریکی میڈیا سے گفتگو میں کہاکہ ہماری ایران سے نہیں بلکہ اس کے جوہری پروگرام سے جنگ ہے۔ ہم نے یہ پروگرام تباہ کر دیا ہے اور آئندہ سالوں میں اسے مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں مشرق وسطیٰ میں کشیدگی عروج پر، ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کرنے کی منظوری دے دی

امریکی نائب صدر نے کہاکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو مذاکرات اور تعلقات کی بحالی کا موقع دیا تھا، اور ایران کی جانب سے بالواسطہ پیغامات بھی موصول ہوئے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران بھی کشیدگی کم کرنا چاہتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایران میں حکومت کی تبدیلی کے خواہاں نہیں، ہم طویل المدتی امن اور مفاہمت کے خواہش مند ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز امریکی بی ٹو بمبار طیاروں اور آبدوزوں کے ذریعے ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر بھاری بنکر بسٹر بموں اور ٹوم ہاک میزائلوں سے حملہ کیا گیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے ان حملوں کو انتہائی کامیاب قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔

جے ڈی وینس نے مزید کہاکہ اگر ایران ان حملوں کے جواب میں کارروائی کرتا ہے تو امریکا تیار ہے، تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکا ایران میں زمینی فوج اتارنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔

یہ بھی پڑھیں امریکا کے ایران کے خلاف آپریشن ’مڈنائٹ ہیمر‘ کی تفصیلات سامنے آگئیں

دوسری طرف ایرانی حکام نے امریکا کے دعوؤں کی تصدیق نہیں کی۔ ایرانی ذرائع کے مطابق حملے سے پہلے ہی جوہری تنصیبات کو احتیاطی تدبیر کے طور پر خالی کرا لیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ممکنہ نقصان کم ہوا۔ ایرانی پارلیمنٹ کے ایک رکن نے کہا ہے کہ فردو میں نقصان سنگین نوعیت کا نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews امریکی نائب صدر ایران پر حملے جوہری پروگرام جے ڈی وینس وی نیوز

متعلقہ مضامین

  •   جنگ ایران سے نہیں، اُسکے جوہری پروگرام سے ہے، جے ڈی وینس
  • ایران سے جنگ نہیں چاہتے، اصل ہدف تہران کا جوہری پروگرام ہے، امریکی نائب صدر
  • ٹرمپ کی بنائی دیواریں
  • ایران کا جذبہ جہاد
  • کیا اسلام کے عالمگیر غلبے کا آغاز ہونے والا ہے؟
  • انوکھی نوکری؛ جنگلی انسان بن کر پارک میں گھومیں اور 70 ڈالر روزانہ کمائیں
  • کانگو وائرس نے خطرے کی گھنٹی بجا دیطبی ماہرین نے خبردار کر دیا
  • اب کیا ہوگا تیرا کالیا؟
  • نیا کورونا ویرینٹ نِمبس چین سے امریکا تک پھیل گیا