جماعت اسلامی کا ایران پر امریکی جارحیت کے خلاف ملک گیر یومِ احتجاج کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 22nd, June 2025 GMT
جماعت اسلامی پاکستان نے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا کے حالیہ فضائی حملے کے خلاف شدید ردعمل دیتے ہوئے پیر 24 جون کو ملک بھر میں یومِ احتجاج منانے کا اعلان کر دیا۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہاکہ امریکا کا ایران پر حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی اور خطے کے امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں وزیراعظم شہباز شریف کا ایرانی صدر کو ٹیلی فون، امریکی حملوں کی مذمت، ایران کیساتھ غیرمتزلزل یکجہتی کا اعادہ
ان کا کہنا تھا کہ ایران پر امریکی حملہ دراصل پوری امت مسلمہ پر حملہ ہے، اگر امریکا نے اپنی جارحیت نہ روکی تو ہم احتجاجی تحریک کو مزید منظم کریں گے۔
جماعت اسلامی کے اعلان کے مطابق پیر کے روز پورے پاکستان میں احتجاجی مظاہرے، جلسے اور ریلیاں منعقد کی جائیں گی۔ ان مظاہروں میں امریکا کی مداخلت اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی جائے گی۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہاکہ عالمی برادری کی خاموشی افسوسناک ہے، اور وقت آ گیا ہے کہ مسلم دنیا یکجا ہو کر ان سازشوں کے خلاف آواز بلند کرے۔
واضح رہے کہ امریکا نے گزشتہ روز ایران کے تین اہم جوہری مراکز فردو، نطنز اور اصفہان پر بی ٹو بمبار طیاروں اور ٹوم ہاک میزائلوں کے ذریعے حملے کیے۔
یہ بھی پڑھیں امریکا کے ایران کے خلاف آپریشن ’مڈنائٹ ہیمر‘ کی تفصیلات سامنے آگئیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پوسٹ میں دعویٰ کیا کہ یہ کارروائی انتہائی کامیاب رہی اور ایران کا جوہری پروگرام تباہ کر دیا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکی جارحیت ایران جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان وی نیوز یوم احتجاج.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکی جارحیت ایران جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان وی نیوز یوم احتجاج جماعت اسلامی کے خلاف
پڑھیں:
امریکی ایٹمی آبدوزوں کی تعیناتی پر روس کی وارننگ: 'جوہری بیانات میں احتیاط کریں‘
ماسکو: روس نے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جوہری آبدوزیں تعینات کرنے کے اعلان پر خبردار کیا ہے کہ جوہری معاملات پر بیان بازی میں “انتہائی احتیاط” کی ضرورت ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے پیر کے روز کہا: ’’روس جوہری عدم پھیلاؤ کے معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیتا ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہر کسی کو جوہری بیانات کے حوالے سے بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔”
یہ بیان اس وقت آیا جب صدر ٹرمپ نے سابق روسی صدر دمتری مدویدیف کے مبینہ “اشتعال انگیز تبصرے” کے جواب میں دو جوہری آبدوزیں تعینات کرنے کا اعلان کیا۔
ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا کہ آیا آبدوزیں جوہری اسلحہ سے لیس ہوں گی یا صرف جوہری توانائی سے چلنے والی ہوں گی، اور ان کی جگہ بھی ظاہر نہیں کی — جو کہ امریکی فوج کی جانب سے خفیہ رکھی جاتی ہے۔
یہ کشیدگی ایک آن لائن جھگڑے کے بعد بڑھی جس میں مدویدیف نے ٹرمپ کے یوکرین جنگ پر روس کے خلاف الٹی میٹم دینے پر شدید ردعمل ظاہر کیا۔
مدویدیف نے کہا: “ہر نیا الٹی میٹم ایک خطرہ ہے اور جنگ کی طرف ایک قدم ہے — نہ صرف روس اور یوکرین کے درمیان، بلکہ امریکہ کے خلاف بھی۔”
مدویدیف، جو اس وقت روسی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین ہیں، 2008 سے 2012 تک روس کے صدر رہے، جب کہ ولادیمیر پیوٹن نے آئینی پابندیوں سے بچنے کے لیے انہیں بطور "عارضی صدر" استعمال کیا۔
یوکرینی صدر کے چیف آف اسٹاف، آندری یرماک نے ٹرمپ کے اقدام کی حمایت کی اور کہا: “طاقت کے ذریعے امن کا تصور کام کرتا ہے۔ جیسے ہی امریکی آبدوزیں سامنے آئیں، ایک روسی نشے میں دھت شخص جو ایٹمی دھمکیاں دے رہا تھا، اچانک خاموش ہوگیا۔”