کاؤنٹی کرکٹ: پاکستان اور بھارت کے کرکٹر ایک ہی ٹیم میں شامل
اشاعت کی تاریخ: 23rd, June 2025 GMT
انگلش کاؤنٹی چیمپئن شپ میں پاکستان اور بھارت کے کرکٹر ایک ہی ٹیم میں شامل ہوگئے۔
پاکستانی پیسر محمد عباس اور بھارت کے ایشان کشان کو ناٹنگھم شائر الیون میں جگہ مل گئی، ماضی قریب میں پاکستانی وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان اور بھارتی بیٹر چتیشور پجارا سسیکس میں ایک ساتھ کھیل چکے ہیں۔
ایشان کشان کاؤنٹی چیمپئن شپ میں ڈیبیو کررہے ہیں، ان کا ناٹنگھم شائر سے معاہدہ 2 میچز کے لیے طے ہوا ہے، سیزن کے اختتامی مرحلے میں مزید پاکستانی اور بھارتی پلیئرز یکجا ہوسکتے ہیں۔
رتراج گائیکواڈ نے جولائی میں یارکشائر کو جوائن کرنا ہے جبکہ عبداللہ شفیق ویزا مسائل کے سبب تاخیر سے پہنچیں گے۔
ناٹنگھم الیون میں کپتان حسیب حمید کے ساتھ بین سیلٹر، فریڈی میک کین، جو کلارک، جیک ہائنز، ایشان کشن، لینڈون جیمز، لیام پیٹرسن وائٹ، فرحان احمد، ڈیلون پیننگٹون اور محمد عباس شامل ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فارمیٹ متنازع، انگلینڈ بھی مخالفین میں شامل
ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں دو درجاتی نظام کے خلاف آوازیں مزید بلند ہوگئی ہیں۔ پاکستان، بنگلادیش اور نیوزی لینڈ کے بعد اب انگلینڈ نے بھی اس فارمیٹ کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی واضح ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ دوسری طرف آسٹریلیا نے اگرچہ اس نظام کی مشروط حمایت کی ہے، لیکن وہ بھی مکمل طور پر متفق نظر نہیں آ رہا۔
انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین، رچرڈ تھامپسن نے اس سلسلے میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ دو درجاتی سسٹم سمیت کئی متبادل موجود ہیں جن پر غور کیا جا سکتا ہے، لیکن انگلینڈ کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ ڈویژن ٹو میں چلا جائے اور پھر بھارت یا آسٹریلیا جیسے بڑے حریفوں سے کھیلنے کا موقع ہی نہ ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا ہونا ناقابلِ قبول ہوگا۔
رچرڈ تھامپسن کا مزید کہنا تھا کہ ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، اور اگر فارمیٹ میں مناسب تبدیلیاں کی جائیں تو ممکن ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ کو دو درجوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اصل مسئلہ کرکٹ کے شیڈول کا ہے، جس میں وائٹ بال اور ریڈ بال سیریز کا توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔
ادھر کرکٹ آسٹریلیا کے چیف ایگزیکٹیو ٹوڈ گرین برگ نے دو درجاتی نظام کی مشروط حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ ان کے مطابق فی الحال اصل چیلنج یہ ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں مختلف ٹیموں کا کردار کیا ہے اور وہ کس حد تک اس فارمیٹ میں اپنا اثر ڈال رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسٹ انڈیز، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور پاکستان جیسے ممالک کا مضبوط ہونا عالمی کرکٹ کے لیے ناگزیر ہے۔
ٹوڈ گرین برگ نے مزید وضاحت کی کہ اگر دو درجاتی نظام ان ٹیموں کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے تو وہ اس کی حمایت کریں گے، لیکن اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو تو وہ اس فارمیٹ کی تائید نہیں کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت آئی سی سی کے مکمل رکن ممالک اس معاملے پر منقسم ہیں، اور کئی ممالک کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر وہ ڈویژن ٹو میں چلے گئے تو آئی سی سی کی آمدنی میں سے ان کا حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔