ایرانی ایٹمی مراکز کی تباہی، اب اسرائیل کے پاس کوئی جواز نہیں رہا
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسری مرتبہ صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد اعلان کیا تھا کہ اب امریکا کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا، وہ عالمی تنازعات کو ختم کرانے کی کوشش کریں گے، اس ضمن میں انہوں نے روس- یوکرین جنگ اور اسرائیل – حماس تنازع کا خصوصی حوالہ دیا تھا لیکن صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد ان کے اعلانات اور اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر ایک انتہائی کمزور شخص بیٹھا ہے، جسے اپنے الفاظ کی حرمت و اہمیت کا کچھ پاس نہیں، جو کہتا کچھ ہے کرتا کچھ ہے، اسے بار بار دنیا کو دھوکا دینا پڑتا ہے، وہ دنیا کے ان عظیم انسانوں کے بالکل برعکس جو کوئی وعدہ کر لیتے تھے تو ہر قیمت پر اسے نباہتے تھے، صدر ٹرمپ نہ روس – یوکرین جنگ رکوا پائے نہ اسرائیل کو غزہ پر ظلم کے پہاڑ توڑنے سے روک سکے حتیٰ کہ اب خود امریکی طیاروں نے ایران پر حملہ کر کے اس کے تین ایٹمی مراکز فردو، نطنز اور اصفہان کو تباہ کر دیا ہے، اس حملے کی اقوام متحدہ سے منظوری نہیں لی گئی تھی یعنی دنیا میں پھر سے ہزاروں سال پرانا ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا قانون نافذ ہو گیا ہے امریکا نے صرف اس بنیاد پر کہ وہ طاقتور ہے یہ سمجھ لیا ہے کہ باقی تمام اقوام کو اس کے احکام ماننے لازم ہیں فرعون نے جب کہا تھا ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ تو اس کے ذہن میں بھی یہی تھا کہ میں طاقتور ہوں جسے چاہوں مار سکتا ہوں جسے چاہوں زندگی بخش سکتا ہوں۔
ایرانی ایٹمی مراکز کی تباہی پر امریکا کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے بھی اطمینان کا اظہار کیا ہے ایران غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کی مدد سے بہت عرصے پہلے ہی دست کش ہو چکا ہے اب اس کے ایٹمی مراکز بھی ختم کر دیے گئے ہیں اس لیے اب اسرائیل کے پاس ایران پر مزید حملوں کا کوئی جواز نہیں رہا، کیا اب اسرائیل ایران کے خلاف جارحیت روک دے گا یا اسے مزید تباہ کرنے کے لیے کوئی نیا بہانہ گھڑے گا یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے البتہ ایران جنگ کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس نے اس سلسلے میں بعض بڑے یورپی ملکوں کو مثبت جواب بھی دیا ہے۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے امریکی صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے باقاعدہ نامزد کر دیا گیا ہے پاکستان میں بعض حلقوں نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ رکوانے کا سہرا صدر ٹرمپ نے اپنے سر باندھا تھا ان کا یہ موقف پاکستان نے فوری طور پر قبول کر لیا تھا جبکہ بھارت نے اس سے یکسر انکار کیا تھا کیونکہ بھارت کا بہت قدیم موقف ہے کہ وہ پاک بھارت تنازعات خصوصاً مسئلہ کشمیر میں کسی تیسرے ملک کی مداخلت قبول نہیں کرے گا، وہ مسئلہ کشمیر کو محض دو طرفہ مسئلہ سمجھتا ہے، صدر ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد کہ پاکستان اور بھارت نے ان کے کہنے پر جنگ روکی ہے، ہندوستان میں بہت شور مچا تھا اس کے جواب میں بھارتی حکومت نے یہ موقف اختیار کیا کہ جنگ صدر ٹرمپ کے کہنے پر نہیں پاک- بھارت ڈی جی ملٹری آپریشنز
کے درمیان رابطوں کے نتیجے میں روکی گئی تھی جن میں پاکستان نے لڑائی بند کرنے کی درخواست کی تھی اگر صدر ٹرمپ کو نوبل انعام دیا جاتا ہے تو یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ پاک بھارت جنگ امریکی صدر کے کہنے پر روکی گئی تھی اور بھارتی حکومت کا جھوٹ ثابت ہو جائے گا جس سے موجودہ بھارتی حکومت کو اندرون ملک ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری جانب ملک کے بیش تر رہنما اور دانشور پاکستان کی جانب سے امن انعام کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی کو غلط، خوشامد اور ظلم و ستم کو جائز ثابت کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں، ان کے خیال میں مودی حکومت کو جھوٹا ثابت کرنا پاکستان کے لیے اتنا بڑا فائدہ نہیں کہ جس کے لیے ٹرمپ کی امن انعام کے لیے نامزدگی جیسی خوفناک غلطی کی جائے، اس ضمن میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے صدر ٹرمپ کی ثالثی کو تسلیم کرنا غیر معمولی خطرے کو دعوت دینے کے مترادف ہے کیونکہ اب تک کے ریکارڈ کے مطابق وہ انتہائی دھوکے باز، دوغلے اور مفاد پرست ثابت ہو چکے ہیں۔
مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کے فیصلے پر کڑی تنقید کی ہے، انہوں نے ایکس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا دوسرے ملکوں کو جہنم بنانے کی دھمکیاں دینے والا امن انعام کا مستحق ہو سکتا ہے؟ انہوں نے ایران پر حملے کی بھی سخت مذمت کی اور اسے ٹرمپ کے وعدوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے حکومت پاکستان کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل پیس پرائس کے لیے نامزد کرنے پر شدید تنقید کی اور اس اقدام کو افسوسناک، قومی وقار کے منافی اور غلامانہ ذہنیت کا عکاس قرار دیا ایکس پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کا سرپرست ہے، امریکا ایران پر حملوں کے لیے اسرائیل کو تمام سہولتیں دے رہا ہے، ٹرمپ نے یوکرین کی جنگ ختم نہیں کرائی بلکہ آگ مزید بھڑک رہی ہے، پورے مشرق وسطیٰ کا امن تباہ کر دیا گیا ہے اور حکومت امریکی صدر کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کر رہی ہے، جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ایران پر حملہ کر کے ٹرمپ نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے حکومت امریکی صدر کو نوبل پرائز کے لیے نامزدگی کی سفارش واپس لے انہوں نے کہا کہ ہم امریکا سے دوستی چاہتے ہیں غلامی نہیں، ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں، عراقیوں اور افغانوں کا خون رس رہا ہے ایران پر حملہ کر کے ٹرمپ نے قومی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، خیبر پختون خوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنا غلامی کی آخری حد ہے، شہباز شریف خوشامد چھوڑ کر ایبسولیوٹلی ناٹ کہنے کی ہمت پیدا کریں انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کو 8 مرتبہ ویٹو کیا ہے، ایران اور اسرائیل میں ثالثی کے بجائے معصوم شہریوں پر بم برسائے جا رہے ہیں جو شخص مسلمانوں پر بم برسائے اسے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنا ناقابل فہم ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: نوبل امن انعام کے لیے نامزد کر کو نوبل امن انعام کے لیے ٹرمپ کو نوبل ایٹمی مراکز ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر نے کہا کہ انہوں نے ایران پر ٹرمپ کے اور اس
پڑھیں:
حکومت ٹرمپ کیلیے نوبل انعام کی سفارش واپس لے، مولانا فضل الرحمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مری (صباح نیوز)جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ایران پر حملہ کرکے ٹرمپ نے قومی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ حکومت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزدگی کی سفارش واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ ہم امریکا سے دوستی چاہتے ہیں لیکن غلامی نہیں چاہتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے مری میں جمعیت علما اسلام پنجاب کی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نہ ماضی کی اسٹیبلشمنٹ نے مدارس کو قبول کیا نہ ہی موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے، مدارس کی آزادی اور خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ برصغیر پر جب تک علمائے کرام کی حکومت تھی کوئی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوا جب سے خطہ غیر علما کے ہاتھ آیا مسلسل خون بہہ رہا ہے، تعلیمی دنیا میں دینی اور دنیاوی کی تقسیم انگریز کی ایجاد ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت ٹرمپ کے لیے نوبل انعام کی سفارش واپس لے، ٹرمپ کے ہاتھ سے فلسطینیوں، عراقیوں اور افغانوں کا خون رس رہا ہے اور ایران پر حملہ کرکے ٹرمپ نے قومی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم ایران کی تائید نہ کریں تو کیا اسرائیل کی حمایت کریں، ہم ایران کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔