ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، پاکستانی مندوب عاصم افتخار
اشاعت کی تاریخ: 24th, June 2025 GMT
واشنگٹن:
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں پاکستانی مستقل مندوب، عاصم افتخار نے پاکستان کے اصولی مؤقف کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان یواین چارٹر کے مطابق عالمی امن اور سلامتی کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتا رہے گا۔
عاصم افتخار نے سلامتی کونسل کے ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ اجلاس میں کونسل کے ارکان نے کشیدگی کے بڑھنے کی صورت میں خطرات سے خبردار کیا تھا، تاہم امن کی کوششوں اور سفارتکاری کو نظرانداز کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ عالمی سطح پر امن کے قیام کے لیے سفارتی کوششوں کو فروغ دینے کی حمایت کی ہے۔
عاصم افتخار نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایران کے حق دفاع کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
انہوں نے ایران کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان حملوں میں بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (IAEA) کی حفاظتی تدابیر کو نظرانداز کیا گیا جو عالمی امن کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
پاکستانی مندوب نے سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ اس تنازعہ کا حل مذاکرات اور سفارتکاری کے ذریعے نکالا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ اس مسئلے کا واحد حل پرامن طریقے سے بات چیت کے ذریعے نکالا جائے۔
عاصم افتخار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی نائب وزیراعظم امن کے فروغ کے لیے سرگرم ہیں اور وہ خطے کے دیگر ممالک کے سربراہان سے رابطے کر رہے ہیں تاکہ اس بحران کو حل کیا جا سکے۔
عاصم افتخار نے کہا کہ پاکستان، سلامتی کونسل کا رکن ہونے کے ناطے اپنے تمام فرائض ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہا ہے اور پاکستان کی خواہش ہے کہ تنازع کا حل صرف اور صرف مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے۔
انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان عالمی سطح پر امن کی بحالی کے لیے بھرپور کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بحران میں امن کی بحالی کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے اور اس بات کا پختہ عزم رکھتا ہے کہ اس کے اقدام عالمی قوانین کے مطابق ہوں گے۔
عاصم افتخار نے امریکہ کی جانب سے ایران پر ہونے والے حملوں کی بھی مذمت کی اور کہا کہ اس طرح کی کارروائیاں عالمی امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ عالمی سطح پر تنازعات کا حل صرف مذاکرات اور سفارتکاری سے ممکن ہے۔
پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے مزید کہا کہ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ عالمی تنازعات کے حل میں طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے اور امن کی کوششوں کو ترجیح دی جائے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کرتے ہوئے کہا کہ عاصم افتخار نے کہا کہ پاکستان سلامتی کونسل انہوں نے امن کی کے لیے
پڑھیں:
ایرانی صدر کا دورہ پاکستان
موجودہ حالات کے تناظر میں عالمی سطح پر بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کو دنیا بھر میں بالعموم اور ایشیا میں بالخصوص نہایت اہم مقام حاصل ہے۔ جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان کی حیثیت عالمی سطح پر مسلمہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ آج بھی عالمی سیاست میں پاکستان کے کردارکو اہمیت دی جا رہی ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خود آگے بڑھ کر پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا اس امر کا بین ثبوت ہے کہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی پرجوش قیادت میں بھارت سے جنگ جیتنے کے بعد پوری دنیا میں نہ صرف پاکستان کی عزت و وقار میں اضافہ ہوا بلکہ امریکا، یورپی اور مغربی ممالک میں ہماری اہمیت اور حیثیت کو پوری طرح سے تسلیم کیا جا رہا ہے۔
جغرافیائی، سیاسی، نظریاتی اور معاشی اعتبار سے پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک، اسلامی دنیا اور عالمی برادری سے خارجہ تعلقات کی بنیاد کیا ہو اور کیا نہ ہو، یہ موضوع آج کی عالمی سیاست میں ماہرین، مفکرین، مدبرین، تجزیہ نگاروں اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان اب زیر بحث آتا جا رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی قیادت عالمی برادری اور اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات استوار کر رہی ہے ۔برادر عرب ممالک میں سعودی عرب، بحرین، قطر اور بنگلہ دیش کے علاوہ ایران کے ساتھ ہمارے ہمیشہ سے دوستانہ مراسم رہے ہیں۔
ایران ہی وہ پہلا ملک تھا جس نے 1947 میں پاکستان کو تسلیم کیا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستان کا کھل کر ساتھ دیا اور تہران کی بھرپور سفارتی حمایت حاصل رہی۔
28 مئی 1998 کو جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر کے اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کیا تو ایران میں اس خوشی کے موقع پر باقاعدہ جشن منایا گیا تھا، بعینہ 13 مئی 2025 کو جب اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان نے برادرانہ مراسم کا حق ادا کرتے ہوئے اسرائیلی حملوں کی خدمت اور ایران کی بھرپور حمایت کی اور ایران اسرائیل جنگ رکوانے میں اپنا مثبت کردار ادا کیا تو ایرانی پارلیمنٹ میں ’’تشکر پاکستان، تشکر پاکستان‘‘ کے نعرے لگائے گئے جو ایران کے پاکستان سے دوستی کے اظہار کی علامت ہے۔
اسی پس منظر میں گزشتہ ہفتے ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے پاکستان کا دو روزہ سرکاری دورہ کیا تاکہ وہ ایران اسرائیل جنگ میں پاکستان کے مثبت کردار ادا کرنے کا ذاتی طور پر وزیر اعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کر سکیں۔ صدر پزشکیان کا یہ پاکستان کا پہلا دورہ تھا، اس دورے کے دوران انھوں نے صدر مملکت آصف زرداری، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور وفاقی وزرا سے بھی تفصیلی ملاقاتیں کیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر پزشکیان کے مابین ہونے والی ملاقات کے دوران علاقائی و عالمی معاملات کے پہلو بہ پہلو کئی دیگر موضوعات اور مسائل پر بھی تفصیلی بات چیت کی گئی جن میں پھلوں، چاول، گوشت کی برآمد، سرحدی بازاروں کو فعال کرنے سمیت دو طرفہ تجارتی حجم کو تین ارب ڈالر سالانہ سے بڑھا کر دس ارب ڈالر کرنے کے معاہدات شامل ہیں۔
ایران سلک روڈ اور گوادر تا چاہ بہار منصوبوں میں اشتراک اور زمینی رابطے بڑھانے پر بھی متفق ہے۔اگرچہ ایران پاکستان تجارتی معاہدے کے حجم میں 10 ارب ڈالر سالانہ تک لے جانے کے عزائم کا اتفاق کیا گیا ہے، تاہم مبصرین و تجزیہ نگار یہ اندیشے بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ امریکی پابندیوں کے باعث اتنے بڑے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے درمیان میں حائل کئی رکاوٹوں کو بھی عبور کرنا پڑے گا۔
گزشتہ پانچ سالوں کے درمیان ایران کے لیے پاکستانی برآمدات کا حجم محض ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر تک تھا۔ خدشہ ظاہرکیا جا رہا ہے کہ اگر ایران نے ایٹمی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے پیش قدمی جاری رکھی تو اسے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
سردست تو امریکا مطمئن ہے کہ اس نے ایران کی ایٹمی تنصیبات تباہ کر دی ہیں اور ساتھ ہی ایران کو انتباہ کر دیا ہے کہ اگر اس نے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوئی جرأت کی تو اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بڑے واضح طور پر ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران کو پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی حاصل کرنے کا اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت پورا حق حاصل ہے۔
یہ امریکی پابندیوں کے ہی ثمرات ہیں کہ پاکستان اور ایران کے درمیان گیس پائپ لائن منصوبہ ابھی تک پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا ہے۔ ایرانی صدر کے حالیہ دورے کے دوران بات چیت میں اس مسئلے کو کورٹ کے بجائے اتفاق رائے سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
صدر پزشکیان نے اس گرم جوشی کا مظاہرہ کیا کہ ایران پاکستان کو اپنا ہمسایہ نہیں بلکہ بھائی سمجھتا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ موقف کا اظہار کیا کہ اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ صدر پزشکیان نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایران کے دورے کی دعوت بھی دی۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ایرانی صدر کے دورے سے دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیوں کا خاتمہ اور تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔