data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

تلہار(نمائندہ جسارت) تلہار شہر میں نوجوانوں کی جانب سے شہر کے مصروف ترین حیدرآباد بدین ہائی وے پر موٹر سائیکل ریس اور ون وہیلنگ کرنا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے جس کی وجہ سے ہائی وے پر کسی بھی وقت کوئی حادثہ رونما ہوسکتا ہے متعدد بار شہریوں کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے ایس ایچ او تھانہ تلہار ایس ایس پی ضلع بدین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ان نوجوانوں کے خلاف کارروائی کی جائے اس سے قبل ان کو کوئی جانی یا مالی نقصان ہو لیکن پولیس نے تاحال کوئی نوٹس نہیں لیا۔تفصیلات کے مطابق تلہار شہر میں چند اوباش نوجوانوں نے شہر میں موٹر سائیکل ریس اور ون وہیلنگ کرنا شروع کی ان کو دیکھ کر شہر کے باقی نوجوان بھی ریس اور ون وہیلنگ کی لت کا شکار ہوگئے اور اب ریسنگ اور ون وہیلنگ تلہار کے نوجوانوں کا پسندیدہ مشغلہ بن گیا ہے شہر کے مصروف ترین حیدرآباد بدین ہائی وے پر رات کے اوقات میں یہ نوجوان اپنے پورے گروپ کے ساتھ آزادانہ طور پر ریسنگ اور ون وہیلنگ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ کچھ نوجوانوں گڈوشاہ چوک اللہ والا چوک، چانری اسٹاپ، ٹنڈوباگو روڈ پر بھی ریسنگ اور ون وہیلنگ کرتے نظر آتے ہیں تہواروں کے دنوں میں تو ان نوجوان کی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ان نوجوانوں کی ون وہیلنگ اور ریسنگ کی وجہ سے شہری شدید پریشانی میں مبتلا ہیں ۔شہریوں کے مطابق یہ نوجوان ناصرف اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے راہگیروں کو بھی پریشانی ہوتی ہے کہ اگر ان کا زرا بھی توازن بگڑا تو کوئی بڑا حادثہ پیش آسکتا ہے اور جانی نقصان کا خدشہ ہے جس کے پیش نظر شہریوں نے متعدد بار زبانی اور سوشل میڈیا کے ذریعے ایس ایچ او تھانہ تلہار کو آگاہ کیا اور ان نوجوانوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا لیکن کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ شہر کی جانب سے ایس ایس پی بدین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ شہر میں ون وہیلنگ ریس کا نوٹس لیں اور شہر میں 18سال کی عمر کے ہر نوجوان پربغیر لائسنس کے موٹرسائیکل چلانے پر مکمل پابندی عائد کردی جائے تو ون وہیلنگ مسئلہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: اور ون وہیلنگ ہائی وے پر ان نوجوان گیا ہے

پڑھیں:

کوئی فرق نہیں!

آواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

ہمیشہ کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے، اکثریتی آبادی کا حال اور حالت ِ زار دیکھ کرہر دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان کو یقین آجاتاہے کہ واقعی پاکستان غریب ملک ہے لیکن دنیاکو اس بات پرمطلق یقین نہیں۔اب تو کوئی ہم پر اعتبار بھی نہیں کرتا۔ اُلٹا مذاق اڑاتے ہیں۔ لمبے چوڑے پاکستانی وفود جب قیمتی لباس میں ملبوس بیرونی ممالک میں اپنے ہم وطن متاثرین کے لیے امدادکی بات کرتے ہیں تو دنیا ہم پرہنستی ہے یہ ٹھاٹھ اور امداد کی اپیل۔ ۔واہ بھئی واہ۔ یہی حال غیرملکی سرمایہ کاری کا ہے ہماری اشرافیہ نے نہ جانے کون کون سے ممالک میں جزیرے خرید رکھے ہیں ،جب ہمارے بیشتر حکمرانوں نے اربوں کھربوں سے اپنے کاروبار لندن، دُبئی، ملائشیا ،سعودی عرب اور امریکہ میں شروع کررکھے ہیں تو کون پاگل پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا؟ اشرافیہ کی اسی منافقت نے پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیا ہے۔
ایک سوئس بینک ڈائریکٹر کا کہناہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ رقم پاکستان میں انویسٹ کردی جائے تو30سال کیلئے پاکستان ٹیکس فری بجٹ پیش کر سکتاہے۔6کروڑ پاکستانیوں کیلئے روزگارملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔500سے زیادہ پاؤر پراجیکٹ کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جا سکتی ہے، کراچی ، پشاور سمیت ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چاررویہ سڑکوں پر مشتمل نئی ہائی وے بنائی جا سکتی ہے، یا ہر پاکستانی کو چار سال تک20000روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے ۔اس انکشاف میں جن خیالات کااظہار سوئس بینک ڈائریکٹر نے کیا ہے یہ تو ایک خواب ہے جو پوری پاکستانی قوم دیکھ دیکھ کر تھک گئی ہے لیکن اس کی تعبیر آج تلک نہیں دیکھی۔
روز خوابوں میں ملاقات رہا کرتی تھی
ا ور خواب شرمندہ ٔ تعبیرہوا کرتے تھے
ایک اور خاص بات چودھری نثار،عمران خان ، چودھری برادران ،شریف فیملی ، الطاف حسین،طاہرالقادری اور آصف علی زرداری پر ہی موقوف نہیں ہمارے ملک کے ارکان ِ اسمبلی، سینٹ ممبران حتیٰ کہ بلدیاتی اداروں کے چیئرمین وائس چیئر مین کی اکثریت تک کسی ایک کا بھی لائف اسٹائل عوام جیسا نہیں ہے اور تو اور ہمارے مذہبی رہنما جو قوم کو دن رات سادگی کا بھاشن دیتے نہیں تھکتے ،ان کے حالات دیکھ لیں مولانا فضل الرحمن،مولانا طارق جمیل، مولانا تقی عثمانی، شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری جیسے رہنما تو خیر نامی گرامی ہیں ان کا ذکر ہی چھوڑیں جو ان کی بی کیٹاگری کے مذہبی رہنما ہیں ان کا لائف ا سٹائل کا اندازہ لگا لیں حقیقت آشکار ہوجائے گی پھر اس ملک کے گدی نشینوںکا جائزہ لیں، اکثرپیروں کی اربوں پائونڈ کی جائدادیں برطانیہ کے مہنگے ترین علاقوںمیں ہیں ۔یہ پھر بھی اپنے غریب مریدین سے چندہ لینا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ25میں سے20کروڑ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، انہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ۔عام آبادیوںمیں رہنے والے سیوریج کے اُبلتے گٹروں سے پریشان ہیں ۔برسات کے دنوںمیں ان کے لئے نمازکے لئے مساجد جانا مشکل ہوجاتاہے ۔جنازے قبرستان لے جانا کوئی ان غریبوںسے پوچھے۔ زندگی کی ،بنیادی سہولتوں کے لئے عام آدمی پریشان ہے۔ مہنگائی ،بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ،بیماری اورغربت نے عوام کی اکثریت کا ناک میں دم کررکھاہے جبکہ ہمارے غریب سے غریب ایم پی اے، سینیٹر، ایم این اے کے وسائل اتنے ہیں کہ عقل دنگ وہ جاتی ہے۔ جب ان کی حالت اور حالات عام آدمی جیسے نہیں ہیں تو پھر انہیں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے آشنائی کیسی ؟انہیں عوامی مسائل کی کیا خبر؟ اور عوام کی فلاح کیلئے سوچنا کیسا؟ غریبوں کی دکھ بھری داستان سن کر وہ تو یہی کہیں گے کہ بیوقوفو! روٹی نہیں ملتی تو کیا ہوا ڈبل روٹی کھا لیا کرو۔۔ اس وقت ملک میں جمہوریت کے جتنے دعوے دارہیں یا جو لیڈرعوام کو مختلف سبز باغ دکھا رہے ہیں۔جو غریب کی بات کررہے ہیں غربت کے خلاف جدوجہدکے داعی ہیں سب کے سب۔۔ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔تمام کے تمام حمام میں ایک جیسے۔ ان کے قول وفعل میں تضادہے ۔عوام کے ساتھ ٹوپی ڈرامہ ہورہاہے ۔کوئی غربیوں سے ہمدردی جتاکر۔۔کوئی اسلام کا نام لے کر۔۔۔کوئی سسٹم کو گالیاں دے کر اپنا الو سیدھا کررہاہے ان کا ”طریقہ ٔ واردات” مختلف ہو سکتاہے مشن اور پروگرام ایک جیساہے،جیسے سب بھیڑوں کے منہ ایک جیسے ہو تے ہیں۔۔۔ا ن کے پاس بڑے بڑے محلات ہیں غریب کو کرائے کا مکان بھی نہیں ملتا اور سیاستدانوںکی تیسری چوتھی نسل اقتدار انجوائے کررہی ہے اور عوام کی حالت اور حالات پہلے سے بھی ابترہوگئے ہیں
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیاری ہے ، سلطانی بھی عیاری
عوام کی محبت کا دم بھرنے والوں میں ایک عمران خان بھی ہیں جن کے پاس لاہور کے علاوہ میانوالی اور اسلام آبادبنی گالہ میں کئی سو ایکڑوں پر مشتمل محلات ہیں۔ میاں نوازشریف فیملی کے پاس بھی ماڈل ٹاؤن ،مری ، لندن میں بڑے بڑے محلات ہیں ، جاتی عمرہ میں تو مربعوں پرمحیط فارم، اوروسیع و عریض گھر۔ اسی طرح سابقہ صدر آصف علی زرداری کے پاس کراچی ،لاہور،دبئی اور فرانس میں عالیشان محلات ہیں ۔سرے محل بھی ان کی ملکیت ہے ۔صرف لاہور کا بلاول ہائوس100کنال کا بتایا جاتاہے ۔چودھری پرویز الہٰی اور چودھری شجاعت کے پاس گجرات ،لاہور اوربیرون ِ ممالک میں گھرموجود ہیں۔ایم کیو ایم کے قائدالطاف حسین کے برطانیہ میں مہنگے فلیٹس، شیخ الاسلام طاہرالقادری کی کنیڈا اور لاہور میں عالیشان رہائش ہے اور تو اور مولانا فضل الرحمن اور ان کے خاندان کی سینکڑوں کنال اراضی ، گاڑیاں ،قیمتی رہائش گاہیں اور نہ جانے کیا کیا ،اعلانیہ غیر اعلانیہ کی بات بس چھوڑ ہی دیں۔
اب آپ کے سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کا مقام ہے کہ ہمارے سب کے سب قومی رہنماؤں کا رہن سہن عام آدمی کی زندگی سے کوئی میل کھاتا ہے یا نہیں لیکن اس کے باوجود سب عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتے ہیں، سب میں کوئی فرق نہیں ہے؟ ایک جیسے وعدے ، ایک جیسے دعوے ایک جیسا حکمرانی کا انداز کچھ بھی نہیں مختلف نہیں ۔عوام تو بے چارے اتنا ہی کہہ سکتے ہیں خدارا !پاکستان پررحم کھائیں۔ آزادی کو مبہم نہ بنائیں ۔
آج الحمداللہ پاکستان دنیا کی ساتویں بڑی ایٹمی قوت ہے لیکن ہمارے حکمران ایٹم بم کو کشکول میں رکھ کر دنیا سے کبھی امداد، کبھی قرضے اور کبھی بھیک مانگتے پھرتے ہیں ۔اس کے علاوہ نصف صدی سے کرپٹ عناصر نے پاکستان کا چہرہ مسخ کرکے رکھ دیاہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ اکثریت آبادی کا حال اور حالت ِ زار دیکھ کر ہم وطنوں کو اس کا یقین ہو جاتاہے لیکن دنیا ہماری حقیقت جان گئی ہے۔ اسی لئے کوئی سیدھے منہ بات کرنا بھی پسندنہیں کرتا۔ یہ کتنی مضحکہ خیز صورت ہے کہ پاکستان ایک ملک غریب ہے اور اس کے لوگ امیر بلکہ امیر ترین۔ان میں سے کسی کو پاکستان پر ترس نہیں آتا۔ پاکستانی شخصیات کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں جس سے پورے پاکستان کے ہر شخص کیلئے بلا امتیاز دائمی خوشیاں خریدی جا سکتی ہیں۔ لوگوں کو مہنگائی ، بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ،بیماری اورغربت سے نجات مل سکتی ہے لیکن اس کے بارے سوچنا بھی گناہ فرض کرلیا گیا ہے جو لچھے دار باتیں کرتا ہے۔ غریبوں کے حقوق کی صدا بلند کرتاہے،روٹی کپڑا مکان دینے کے نعرے لگاتاہے۔ لمبی چوڑی باتیں کرتاہے۔ شیخ چلی کی طرح خیالی پلاؤ پکاتاہے۔ ہمارے معصوم ہم وطن اسے اپنا نجات دہندہ سمجھ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوتاہے یہ بھی راہبرکے روپ میں راہزن تھا۔ کئی سر پیٹ لیتے ہیں کئی لوگوں میں اس کی بھی سکت نہیں ہوتی ،جس نظام میں یہ سب کچھ ہورہاہے ،آخر اس نے فناہوناہے ۔ایک دن عروج کو زوال آناہے ۔صرف عوام کی سوچ بدلنے کی دیرہے ۔ان کے دن پھر جائیں گے، جن لیڈروں کا لائف اسٹائل عوام جیسا نہیں ان کو عوام کی نمائندگی کا بھی حق حاصل نہیں ہونا چاہیے ۔یہ بھی قانون بننا چاہیے جن کی دولت کسی بھی انداز سے دوسرے ممالک میں موجودہو، ان کو سرکاری و عوامی نمائندگی کیلئے نااہل قراردیدیا جائے۔ یہی پاکستانی مسائل کا حل ہے۔ اگر رعایت دینی ہے تو کوئی حد تجویزکرلیں اس کے بعد بے رحم احتساب۔
جو اس کی زدمیں آئے اسے الٹا لٹکا دیا جائے۔ پاکستان کی بدولت یہ لوگ ارب کھرب پتی بنے ہیں۔ اب پاکستان کو ریٹرن کرنے کا وقت آن پہنچاہے ۔لگتاہے قرباتی کا موسم قریب ہے۔ قربانی بھی دو چار افرادکی پھر قوم حقیقی تبدیلی کی منزل پا لے گی۔ وگرنہ کچھ بھی نہیں ہونے والا۔جس ملک میں ٹھنڈے پانی کی سبیل کے واٹرکولر پر رکھے گلاس کو زنجیرسے باندھنا پڑے اور لوگوں کو مسجد میں اپنی آخرت سے زیادہ اپنے جوتوں کی فکرہو ،وہاں صدر یا وزیراعظم کی تبدیلی سے کیا فرق پڑے گا۔ تبدیلی کیلئے ہر شخص کو اپنا اخلاق اور کردار تبدیل کرناہوگا۔ ازخود یاڈنڈے کے زورپر اس کا فیصلہ بہرحال ہم نے خود کرناہے۔ اب بھی وقت ہے سوچنے کا ، سمجھنے کا،سنبھلنے کا،غورکرنے کا قدرت نے اگر ہماری رسی دراز کی ہے تو اس مہلت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • کوئی فرق نہیں!
  • پاکستان اور نوجوان
  • نعمان اعجاز کا یومِ آزادی پر نوجوانوں کے مایوس مستقبل پر کڑوا تبصرہ وائرل
  • ایک قوم ایک وطن: بلوچستان کے نوجوانوں کا کشمیر چکوٹھی سیکٹر کا دورہ
  • کراچی، بنارس پل پر ٹریفک حادثہ، خاتون شدید زخمی، دو نوجوان گرفتار
  • ایک لاکھ 31 ہزار ملازمتیں، پاکستانی نوجوانوں کے لیے بڑی خوشخبری آگئی
  • بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے ریکو ڈک مائننگ کمپنی نے اہم پروگرام شروع کردیا
  • خیبرپختونخوا میں احساس نوجوان پروگرام کا آغاز، 3 ارب کے بغیر سود قرضے اور کاروباری مواقع
  •  ذہنی دباؤ سے نجات کے لیے چینی نوجوانوں کا نیا رجحان, چُوسنی کا استعمال 
  • لاہور: دل کا دورہ پڑنے سے موٹرسائیکل سوار بیوی سمیت گر کر جاں بحق