لا اینڈ جسٹس کمیٹی سے جے یو آئی رکن کو نکالنا بدترین آمریت ہے: اسلم غوری
اشاعت کی تاریخ: 9th, November 2025 GMT
— فائل فوٹو
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے ترجمان اسلم غوری کا کہنا ہے کہ لا اینڈ جسٹس کمیٹی سے جے یو آئی کے ممبر کو نکالنا بدترین آمریت ہے۔
اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے نام پر آمریت کو پروان چڑھایا جارہا ہے، پورے جمہوری نظام کو لپیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کامران مرتضیٰ کا نام کمیٹی سے صرف اختلاف کے اندیشے کی بنیاد پر نکالا گیا۔
اسلم غوری نے کہا کہ پہلی کمیٹی کے نوٹی فکیشن میں سینیٹر کامران مرتضیٰ کا نام تھا۔ معلوم نہیں دوسرے نوٹی فکیشن میں کس بنیاد پر ان کا نام نکالا گیا، کمیٹی پارلیمنٹ کی پراپرٹی ہے، حکومت اسے (ن) لیگ کی جاگیر نہ سمجھے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
افسوس دستورکوشخصیات کےتابع کیاجارہا ہے،کامران مرتضیٰ
اسلام آباد: جمعیت علماءاسلام پاکستان کے مرکزی رہنما اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پارلیمنٹ کے اجلاس میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن بلاشبہ تاریخی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ دن منفی معنوں میں تاریخ کا حصہ بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں کچھ دن فخر اور کامیابی کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں، اور کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جنہیں یاد کر کے قوم کو افسوس ہوتا ہے۔
آج کا دن بھی ان ہی دکھ اور تکلیف والے دنوں میں شمار ہوگا۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ امریکاکی تین سو سالہ تاریخ میں صرف پچیس ترامیم ہوئیں، لیکن پاکستان میں محض تیرہ مہینے کے دوران دوسری آئینی ترمیم پیش کی جا رہی ہے۔
چھبیسویں ترمیم طویل سیاسی گفت و شنید، مشاورت اور اتفاقِ رائے کے بعد منظور کی گئی تھی۔اس عمل میں پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماءاسلام سب شریک تھے۔مگر آج ہم صرف تیرہ مہینے بعد اسی ترمیم کو ریورس کرنے جا رہے ہیں، جو افسوسناک اور تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھبیسویں ترمیم جمہوری ڈائیلاگ کا نتیجہ تھی، مگر ستائیسویں ترمیم اکثریت کے زور پر لائی جا رہی ہے۔ یہ طرزِ عمل سیاسی شرافت کے منافی ہے۔ جب ہم نے چھ ہفتوں کی مشاورت کے بعد اتفاقِ رائے سے ترمیم منظور کی، تو یقین تھا کہ یہ پائیدار پیش رفت ہے۔
لیکن آج ایک گھنٹے کی کارروائی میں وہ تمام محنت اور اعتماد ختم کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی پاکستان اب اس سیاسی دھوکے کے بعد اپنے لائحہ عمل کا ازسرِ نو جائزہ لے گی۔
ہم پر جو وعدہ خلافی کی گئی ہے، اس کے بعد پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کیا ہم اب بھی چھبیسویں ترمیم کو اون کر سکتے ہیں یا نہیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ آئین کو شخصیات کے لیے نہیں بلکہ نسلوں کے لیے بنایا جاتا ہے، مگر افسوس کہ آج دستور کو شخصیات کے تابع کیا جا رہا ہے۔یہ دن تاریخ میں ہمیشہ منفی حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔
کیونکہ آج جمہوری اقدار، آئینی شرافت اور باہمی اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اس طرزِ عمل کے بعد 1973ءکے آئین کا جو کریڈٹ پاکستان پیپلز پارٹی کو حاصل تھا، وہ بھی اب برقرار نہیں رہا۔ آج کا یہ دن سیاسی و آئینی لحاظ سے قوم کے لیے دکھ بھرا دن ہے۔