اگلی سرکاری تعطیلات کب ہوں گی؟ جانیے
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: پاکستان میں نیا ہجری سال 1447ھ، محرم الحرام کا آغاز 27 جون بروز جمعہ سے ہونے کا امکان ہے جبکہ یوم عاشورہ اتوار 6 جولائی کو ہوگا۔
میڈیا رپورٹس کےمطابق مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس 25 جون بروز بدھ کو چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد کی زیر صدارت کوئٹہ میں منعقد ہوگا، جب کہ زونل کمیٹیاں لاہور، کراچی، پشاور، اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں چاند دیکھنے کے لیے اجلاس کریں گی۔
رویت ہلال ریسرچ کونسل کے مطابق محرم الحرام کا چاند 25 جون کو پاکستانی وقت کے مطابق سہ پہر 3 بج کر 32 منٹ پر پیدا ہوگا، چاند کی عمر غروب آفتاب تک 27 گھنٹے سے زائد ہو چکی ہو گی جبکہ غروب شمس اور غروب قمر کے درمیان فرق مختلف شہروں میں 74 سے 76 منٹ تک ہوگا، جو کہ چاند دیکھنے کے لیے مناسب وقت مانا جاتا ہے۔
ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں چاند دیکھنا آسان ہوگا، لہٰذا یکم محرم الحرام 27 جون کو ہونے کا قوی امکان ہے۔
رواں سال عاشورہ یعنی 10 محرم الحرام 6 جولائی بروز اتوار کو ہوگا، جب کہ 9 محرم ہفتہ 5 جولائی کو آئے گا چونکہ یہ دونوں ایام ہفتہ اور اتوار کے دن پڑ رہے ہیں، اس لیے سرکاری ملازمین کو کسی اضافی چھٹی کا امکان نہیں ہوگا، کیونکہ یہ ایام پہلے ہی ویک اینڈ کا حصہ ہوتے ہیں۔
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور اسے اسلامی کیلنڈر میں حرمت والے مہینوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان خصوصاً محرم کی 9 اور 10 تاریخ کو حضرت امام حسینؓ اور اُن کے جانثار ساتھیوں کی کربلا میں دی گئی قربانیوں کی یاد میں مجالس اور جلوس منعقد کرتے ہیں، پاکستان بھر میں بھی ان ایام کو مذہبی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔
سرکاری و نجی اداروں، سیکیورٹی اداروں اور بلدیاتی اداروں نے محرم الحرام کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پیشگی اقدامات کی تیاری شروع کر دی ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: محرم الحرام
پڑھیں:
سرکاری ملکیتی ادارےکے سی ای او نے 32ماہ میں35کروڑ50لاکھ کے فوائد لیے
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) عوامی اخراجات پر مالی عیاشی کی ایک نمایاں مثال میں ایک سرکاری ملکیتی کاروباری ادارےکے چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) نے بورڈ کی منظوری سے 32 ماہ کے دوران 35 کروڑ 40 لاکھ روپے سے زائد کے فوائد حاصل کیے۔یہ سب کچھ “قانونی” طور پر بورڈ کے “آزاد” اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا گیا، جس نے سی ای او کو بے مثال مراعات دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، حالانکہ ان کی مقررہ ماہانہ تنخواہ صرف 5 لاکھ روپے تھی،یہ سرکاری ملکیتی ادارہ ایک مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی فرم ہے جو بیمہ کے شعبے سے متعلق ہے۔سرکاری ذرائع نے نجی خبررساں ادارے کو بتایا کہ حکومت نے اقتصادی وزارت سے منسلک ایک سرکاری ملکیت کے تجارتی ادارے( ایس او ای) کے سی ای او سے متعلق یہ “غیر معمولی معاملہ” دریافت کیا ہے۔تفصیلات کے مطابق سی ای او کو 2022 میں وفاقی حکومت نے اسپیشل پروفیشنل پے اسکیل III میں 5 لاکھ روپے ماہانہ مقررہ تنخواہ پر تعینات کیا۔ ان کی تقرری کے ایک دن بعداسی بورڈ نے انہیں بھاری الاؤنسز، فوائد، مراعات اور مقررہ بونسز (5 کروڑ 63 لاکھ روپے) کے ساتھ پرفارمنس بونسز (2 کروڑ 75 لاکھ روپے) بھی دے دیے جس نے انہیں اس تنخواہ پر تعینات کرنے کی سفارش کی تھی اوراس کے نتیجے میں صرف 32 ماہ میں اس کے حاصل کردہ مالی فوائد 35 کروڑ 50 لاکھ روپے سے تجاوز کر گئے۔ایک سال بعد، SOE ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق اسی بورڈ نے سی ای او کی تنخواہ میں مزید 19 لاکھ روپے ماہانہ کا اضافہ کر دیا، جس کا کل مالی اثر تقریباً 5 کروڑ 20 لاکھ روپے تھا، جس میں سے 1 کروڑ 80 لاکھ روپے جنوری 2023سے اکتوبر 2023 تک کے گزرے ہوئے عرصے (ریٹروسپیکٹیو) کے طور پر لیے گئے۔اپریل 2025 میں اپنے عہدے کے آخری دن، سی ای او نے بغیر بورڈ کی منظوری کے خود کو 5 کروڑ 23 لاکھ روپے کی ادائیگی کر دی۔ اس میں 2 کروڑ 88 لاکھ روپے کی سیورنس پے بھی شامل تھی، حالانکہ انہوں نے خود استعفیٰ دے کر ایک اور سرکاری کمپنی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔اسی دن انہوں نے 24 لاکھ روپے کی لیو فیئر اسسٹنس، 1 کروڑ 77 لاکھ روپے کی گریجویٹی، اور 1 کروڑ 10 لاکھ روپے کار مونیٹائزیشن الاؤنس کی مد میں بھی وصول کیے، حالانکہ وہ ایک سے زیادہ کمپنی کی مہیا کردہ گاڑیاں استعمال کرتے رہے۔ اس کے علاوہ، لیو انکیشمنٹ اور لیو فیئر اسسٹنس کی مد میں 98لاکھ روپے، ڈائریکٹرز فیس کی مد میں 93لاکھ 50ہزار روپے، اور فیول، بچوں کی تعلیم، ٹریننگ، کلب ممبر شپ، انٹرٹینمنٹ، یوٹیلٹیز، میڈیکل اور دیگر فوائد کی مد میں 3 کروڑ 10 لاکھ روپے سے زائد بھی حاصل کیے گئے۔اپنے ڈھائی سالہ دور میں، سی ای او نے 23 غیر ملکی دورے کیے جن میں یو اے ای، برطانیہ، جرمنی، سنگاپور، آسٹریلیا، آذربائیجان، ملائیشیا، ہنگری، قازقستان، قطر اور سعودی عرب شامل تھے۔ ان دوروں پر کمپنی کا 5 کروڑ 86 لاکھ روپے کا خرچ آیا، حالانکہ اس سرکاری ملکیت کے تجارتی ادارے( ایس او ای) کے کاروباری دائرہ کار ان میں سے زیادہ تر دوروں کو جواز نہیں دیتا تھا۔ذرائع کے مطابق یہ واقعہ ہلا کر رکھ دینے والا ہے اور اس سے یہ خوف تقویت پکڑ رہا ہے کہ دیگر سرکاری ملکیتی تجارتی اداروں ( ایس اوایز ) میں کیاکچھ ہورہا ہوگا۔ ذرائع نے کہا کہ ایس او ای ایکٹ 2023 نے گورننس فریم ورک کو بہتر بنانے کے بجائے نجی شعبے سے آنے والے “آزاد ڈائریکٹرز” کے تعاون اور ملی بھگت سے مینجمنٹ کیلیے اختیارات کے غلط استعمال کو زیادہ آسان کرڈالا ہے۔
Post Views: 3