ایران نے امریکا اور اسرائیل کی پہنچ سے دور اپنا "متبادل جوہری مرکز" مکمل کر لیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
ماہرین کا کہنا ہے کہ پک ایکس تنصیب نہ صرف یورینیم کو افزودہ کرنے بلکہ سینٹری فیوجز تیار کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کے مطابق یہ پہاڑ سطح سمندر سے 1608 میٹر بلند ہے، یعنی فردو کے پہاڑ سے 50 فیصد زیادہ بلند ہے، اور اس کے نیچے موجود چیمبرز اتنے گہرے ہیں کہ امریکی بنکر بسٹر بم بھی انہیں تباہ کرنے میں شاید ناکام ہو جائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تنصیب کی گہرائی سطح زمین سے 100 میٹرز سے بھی نیچے ہے جبکہ فردو تنصیب کی گہرائی 60 سے 90 میٹر ہے۔ خصوصی رپورٹ:
ایران ایک ایسا مربوط جوہری نظام چلاتا ہے جو نقشے پر محض چند جامد مقامات نہیں بلکہ ایک وسیع، محفوظ اور مضبوط انفرا اسٹرکچر پر مشتمل ہے۔ مغربی میڈیا رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں درجنوں تنصیبات میں ہزاروں سائنسدان اور انجینئر کام کرتے ہیں، ایران کا افزودہ یورینیئم کا ذخیرہ، جسے 16 چھوٹے کینسٹروں میں سمیٹا جاسکتا ہے، کسی ایک جگہ نہیں رکھا جاتا، وہ ایران کے مختلف جوہری مراکز میں مسلسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔
برطانوی روزنامے کی رپورٹ میں یہ دعویٰ سامنے آیا کہ جب عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل نے ایران سے وضاحت طلب کی تھی کہ پک ایکس پہاڑ کی سطح کے نیچے کیا ہو رہا ہے تو انہیں مختصر جواب دیا گیا کہ اس سے آپ کا کچھ لینا دینا نہیں۔ اپریل 2025 میں رافیل گروسی کی جانب سے پوچھا گیا یہ سوال اب زیادہ اہم ہوگیا ہے کیونکہ فردو اور نطنز میں جوہری افزودگی کرنے والے مراکز کو امریکی طیاروں نے بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا ہے۔ رافیل گروسی نے ایران سے اس وقت وضاحت طلب کی جب انہیں معلوم ہوا کہ 'پک ایکس' کے نام سے معروف پہاڑ 'کوہِ کولنگ گزلہ' کے نیچے کوئی بڑا منصوبہ جاری ہے۔ برطانوی روزنامے ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حملے سے قبل 16 ٹرکوں کو فردو کے باہر قطار لگائے دیکھا گیا تھا اور ایرانی جوہری پروگرام کے ایک ماہر نے برطانوی روزنامے کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے افزدہ یورینیم کو امریکی بمباری سے قبل ایک خفیہ مقام میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ پک ایکس کے نام سے معروف پہاڑ نطنز کے قریب صوبہ اصفہان میں واقع ہے اور فردو سے صرف 90 میل دور جنوب میں واقع ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہاں حالیہ برسوں میں خفیہ طور پر ایک نئی وسیع اور گہری زیرِزمین تنصیب تعمیر کی گئی ہے جس کے چار سرنگی داخلی راستے ہیں اور گہرائی 100 میٹر سے زائد ہے، جس کے باعث یہ فردو سے زیادہ محفوظ مرکز ہے۔ اس تنصیب کی تعمیر بدستور جاری ہےاور اسے گزشتہ 4 برسوں سے خفیہ طور پر توسیع دی جا رہی ہے۔ اسرائیلی دفاعی اداروں سے وابستہ سابق افسر سیما شائن کا کہنا ہے کہ ایران نے سینکڑوں یا ہزاروں جدید سینٹری فیوجز خفیہ مقامات پر منتقل کیے ہیں جو ہتھیاروں کے درجے کے یورینیم کی تیاری میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ آئی اے ای اے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 17 مئی تک ایران کے پاس 60 فیصد تک افزودہ 408.
بشکریہ: جیو ڈاٹ کام
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: تنصیب کی گہرائی کا کہنا ہے کہ کے مطابق یہ نے ایران بلند ہے پک ایکس کے نیچے اور اس
پڑھیں:
دباؤ میں ایران یورینیم کی افزودگی ترک نہیں کرے گا، خامنہ ای
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 ستمبر 2025ء) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ بات چیت کو "واضح طور پر بلا مقصد" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تہران امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کرے گا۔
منگل کے روز ایران کے سرکاری ٹیلیویژن پر ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت نشر ہوا، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر عموماً سفارتی مذاکرات کیے جاتے ہیں۔
جوہری پروگرام کے حوالے سے ایران پر آئندہ چند روز بعد ہی دوبارہ پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں اور اسی سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے منگل کے روز ہی ای تھری نامی یورپی ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ہی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس کے ساتھ ملاقات کی۔
(جاری ہے)
خامنہ ای نے مزید کیا کہا؟
ایران کے رہبر اعلی خامنہ ای نے اپنے ریکارڈ شدہ خطاب میں کہا، "امریکہ نے مذاکرات کے نتائج کا پہلے سے اعلان کر دیا ہے۔
اس کا نتیجہ جوہری سرگرمیوں اور افزودگی کی بندش ہے۔ یہ کوئی مذاکرات نہیں، بلکہ یہ ایک حکم ہے، جو مسلط کیا جا رہا ہے۔"انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران یورینیم کی افزودگی ترک کرنے کے دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی ڈالیں گے۔"
یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ وہ پابندیوں کی آخری تاریخ میں توسیع کے لیے اس شرط پر تیار ہوں گے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات دوبارہ شروع کرے۔
ان کی دو شرائط اور ہیں کہ تہران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو اپنے جوہری مقامات تک رسائی کی اجازت دے اور اس انتہائی افزودہ یورینیم کے 400 کلوگرام سے زیادہ کا حساب بھی دے، جو اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے بقول اس نے افزودہ کی تھی۔
یورپی ممالک کے ساتھ بات چیت؟اطلاعات ہیں کہ منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر عباس عراقچی اور یورپی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں زیادہ پیش رفت نظر نہیں آئی۔
جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول نے اسے "خاص طور پر اچھا نہیں" قرار دیا۔نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن انہوں نے مزید کہا، "پابندیوں کے نفاذ سے پہلے سفارتی حل تک پہنچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
"فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ وہ بدھ کے روز ایرانی صدر مسعود پزیشکیان سے ملاقات کریں گے تاکہ معاہدے پر عمل کیا جا سکے، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ "یا تو ایران کوئی اشارہ کرتا ہے اور امن اور احتساب کے راستے پر واپس چلا جاتا ہے۔۔۔۔ یا پھر پابندیاں عائد کرنا ہوں گی۔"
ایران کی وزارت خارجہ نے کہا کہ "اس بات پر اتفاق ہوا کہ تمام فریقین کے ساتھ مشاورت جاری رہے گی۔
"ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کو ہفتے کے آخر تک اپنے برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور یورپی یونین کے ہم منصبوں کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کا وقت دیا گیا ہے تاکہ تہران اقوام متحدہ کی ان پابندیوں کی بحالی سے بچ سکے، جو 2015 میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت معطل کر دی گئی تھیں۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے کہا کہ یورپی مذاکراتی ٹیم کو پابندیوں سے بچنے کے لیے ایران کی جانب سے "کچھ حقیقی کارروائی" دیکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، "سفارت کاری کا ایک موقع ہے۔ ڈیڈ لائن چل رہی ہے اور اب آئیے دیکھتے ہیں۔ ہمیں ایران کی جانب سے بھی کچھ حقیقی کارروائی دیکھنے کی ضرورت ہے۔"
ایران نے بارہا جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تردید کی ہے، تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے جوہری توانائی حاصل کرنے کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔
خامنہ ای کی تقریر نے تہران کے اسی نظریے کی پھر توثیق کی ہے، جن کا کہنا تھا کہ "ایران جوہری ہتھیار نہیں چاہتا، لیکن وہ بین الاقوامی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔"
ادارت: جاوید اختر