ایران میں محصور پاکستانیوں کی بحفاظت واپسی کیلیے آرمی کے جامع انتظامات
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
ایران میں محصور پاکستانیوں کی بحفاظت واپسی کے لیے پاکستان آرمی کی جانب سے جامع انتظامات کیے گئے۔
ایران اسرائیل جنگ کے دوران 7 ہزار سے زائد پاکستانی شہری، ایران میں محصور ہوگئے تھے جن میں طلباء اور زائرین شامل تھے۔
پاک فوج نے پاکستانی شہریوں کی بحفاظت وطن واپسی کے لیے گوادر بارڈر پر خصوصی انتظامات کیے۔
پاکستانی شہریوں کو ایران میں غیر یقینی صورت حال کا سامنا تھا، جس پر پاک فوج اور سول انتظامیہ کی مشترکہ کوششوں سے محصور پاکستانیوں کو محفوظ راستے سے واپس لایا گیا۔
پاک فوج نے ضلعی انتظامیہ، پولیس، ایف آئی اے اور کسٹمز کے تعاون سے سرحدی علاقے میں سیکیورٹی، طبی امداد، رہائش اور نقل و حمل کے مکمل انتظامات کیے۔
ہر پاکستانی شہری کو دستاویزی کارروائیوں میں آسانی فراہم کی گئی اور ان کی ضروریات کا خیال رکھا گیا۔ اس موقع پر گوادر کا سرحدی علاقہ قومی یکجہتی کا مرکز بنا رہا، جہاں پاک فوج کے جوانوں نے بے لوث خدمت کا مظاہرہ کیا۔
پاک فوج کی مسلسل کاوشوں نے یہ یقینی بنایا کہ تمام پاکستانی شہری بلا خوف و خطر اپنے وطن پہنچ سکیں۔ یہ مشن پاک فوج اور قوم کے درمیان گہرے رشتے کی عکاسی کرتا ہے۔
ہر پاکستانی شہری نے محسوس کیا کہ مشکل گھڑی میں اس کا وطن اور افواج ہر حال میں اس کے ساتھ کھڑی ہیں۔ پاک فوج کی کاوش اس عزم کی غماز ہے کہ وطن کی خدمت اور عوام کی حفاظت ان کا اولین فرض ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی شہری ایران میں پاک فوج
پڑھیں:
ڈیجیٹل پرائیویسی خطرے میں: لاکھوں پاکستانیوں کا ڈیٹا ہیکرز کے ہتھے چڑھ گیا
اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی کے حالیہ اجلاس میں چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے انکشاف کیا کہ حج درخواست گزاروں سمیت قریباً 3 لاکھ شہریوں کا ذاتی ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت کے لیے موجود ہے۔
اس بیان نے نہ صرف اداروں کی ڈیجیٹل سیکیورٹی پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں بلکہ شہریوں کی معلومات کے تحفظ سے متعلق قوانین اور پالیسیوں کی کمزوری بھی آشکار کر دی ہے۔
یہ انکشاف ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چند ماہ قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ میں پاکستان میں شہریوں کی ڈیجیٹل نگرانی، پرائیویسی کی خلاف ورزی اور ریاستی اداروں کے ذریعے ڈیٹا کے ممکنہ غلط استعمال پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
مزید پڑھیں: سلامتی یا سینسرشپ؟ پاکستان میں ڈیجیٹل نگرانی پر تشویش کا اظہار
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل حقوق کو درپیش خطرات بڑھ رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیے گئے اختیارات شہری آزادی اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
حج جیسے مذہبی فریضے کے لیے درخواست دینے والوں کا حساس ڈیٹا لیک ہونا نہ صرف انتظامی ناکامی ہے بلکہ اس سے عوام اور اداروں کے درمیان اعتماد کا رشتہ بھی متزلزل ہو رہا ہے۔
ڈیجیٹل ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی مؤثر اور فعال قانون موجود نہیں، جس کے باعث شہریوں کا ذاتی ڈیٹا بار بار لیک ہو کر ڈارک ویب پر فروخت کیا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: ہر شہری کے لیے ڈیجیٹل آئی ڈی متعارف کرانے کا فیصلہ، فائدہ کیا ہوگا؟
ڈیجیٹل رائٹس ایکسپرٹ ڈاکٹر ہارون بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں مسلسل ڈیٹا لیکس اور پرائیویسی کی خلاف ورزیوں کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ملک میں مضبوط اور پرائیویسی فرینڈلی قانون سازی نہیں۔ اگرچہ کچھ قوانین موجود ہیں، لیکن وہ یا تو عملی طور پر نافذ نہیں کیے جا رہے یا ٹیکنالوجی کے موجودہ تقاضوں کے مطابق ناکافی ہیں۔
ان کے مطابق شہریوں کی معلومات کے تحفظ کے لیے ایسا فریم ورک ناگزیر ہے جو بین الاقوامی معیار پر پورا اترے اور جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو اولین حیثیت دی جائے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ حساس معلومات لیک ہونے سے شناخت کی چوری، مالی فراڈ، بلیک میلنگ اور سائبر دہشتگردی جیسے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ہیکرز ان معلومات کے ذریعے جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے، قرضے لینے، سم کارڈ جاری کروانے یا غیر قانونی سرگرمیوں میں متاثرہ افراد کا نام استعمال کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی ویزا کے لیے سوشل میڈیا کی جانچ پڑتال: ’پرائیویسی ہر شخص کا بنیادی حق ہے‘
سائبر سیکیورٹی ایکسپرٹ حبیب اللہ خان نے کہا کہ اب وہ دور گزر گیا جب کہا جاتا تھا کہ ’ڈیٹا آئندہ کا تیل ہے‘۔ آج دنیا کی معیشتیں مکمل طور پر ڈیٹا پر چل رہی ہیں اور یہی ہر بڑے کاروبار اور فیصلے کی بنیاد ہے۔
ان کے مطابق ڈیٹا کی خرید و فروخت خود ایک انڈسٹری بن چکی ہے، جہاں اسٹارٹ اپس اور کمپنیاں لاکھوں ڈالر خرچ کر کے مارکیٹ اور صارفین کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ موجودہ دور میں قریباً 70 فیصد ڈیٹا کا استعمال منفی مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے، جس میں فراڈ، جعلی شناختوں کی تیاری اور سوشل میڈیا پروپیگنڈا شامل ہیں۔
مزید پڑھیں: ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025: ایک تنقیدی جائزہ
انہوں نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں نادرا اور ایف بی آر اپنے ڈیٹا بریچز تسلیم کرنے کو تیار نہیں، حالانکہ نادرا کا پہلا بڑا ڈیٹا بریچ قریباً 7 سال قبل ہوا تھا۔ ایک بار کسی ادارے کا ڈیٹا لیک ہو جائے تو اس کے سسٹمز مسلسل ہیکرز کے نشانے پر رہتے ہیں۔
حبیب اللہ خان کے مطابق اگر حکومت نے فوری طور پر مؤثر ڈیٹا پروٹیکشن پالیسی نافذ نہ کی تو شہریوں کی پرائیویسی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معیشت اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی شدید متاثر ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستان ڈارک ویب ڈیجیٹل پرائیویسی سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی