آبنائے ہرمز اور پاکستانی معیشت پر پٹرول کا مالی بوجھ
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
کہا جاتا ہے کہ سمندرکی گہرائی اور خاموشی سب کچھ بیان کر دیتی ہے اور آبنائے ہرمز جس پر ایران کا کنٹرول ہے جوکہ خلیج کی سانس ہے جسے توڑنے کے لیے امریکا نے کوئی کسر نہ چھوڑی، اسرائیل اور امریکا نے ایران پر بلاجواز ایسا حملہ کردیا ہے کہ توانائی کی سمندری لہروں کی نبض اب رک رک کر چلنے کے خدشات نے تیل بردار جہازوں کے گزرنے کو ایک خواب بنا کر رکھ دیا ہے۔
بھیانک خواب، پہلے ایندھن کا خواب بہت سے خواب بانٹتا تھا۔ صنعتوں کا خواب چین کے توانائی کی اسی سمندری راستے سے درآمد نے چینی صنعت کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ گاڑیوں میں سفر کا خواب پاکستان میں قیمتی درآمدی گاڑیوں نے تو ملک کے ہر روڈ یہاں تک کہ گلیوں کو بھی ٹریفک جام کا مزہ چکھا دیا ہے، مگر اب ہر ترقی و خوشحالی کے خواب پر گرد بیٹھ رہی ہے،کیونکہ ہرمز کے پانیوں کے موج میں اب ہتھیاروں کی گونج اور جنگ کی آہٹ چھپی ہوئی ہے اور پاکستان کی خارجی معیشت کی سانس اس لیے دشواری محسوس کر رہی ہے کہ کیونکہ جب تیل مہنگا ہوگا تو بہت سے پاکستانیوں کے چولہے بجھ جائیں گے اور معیشت پھر نڈھال ہو کر آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہوگی، جس پر رواں مالی سال کے پہلے 11 ماہ میں 53 ارب ڈالر سے زائد کا درآمدی بوجھ ہے۔ اب پٹرولیم کی درآمدی مالیت بھی بڑھ جائے گی۔
آبنائے ہرمز کی ممکنہ بندش کوئی علاقائی مسئلہ نہیں ہے، یہ محض ایک تنگ سمندری گزرگاہ نہیں ہے۔ یہ تیل برآمد کرنے والے ممالک کی وہ دھڑکن ہے، ایران جیسے ہی اس کا نام لیتا ہے درآمدی ممالک کی دھڑکنیں بھی تیز سے تیز تر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہ آبنائے اب دھیرے دھیرے وہ دہکتا ہوا تندور بنتا جا رہا ہے جس میں عالمی تیل کی منڈی اب دہک رہی ہے۔
اسرائیل اور امریکا کی ایران پر بلاجواز حملے کی چنگاریوں سے اٹھتی ہوئی دھوئیں دار کشیدگی نے عالمی تیل کی منڈی کو بے چین کردیا ہے۔ تیل کے درآمدی ممالک کی سانسیں اٹک رہی ہیں،کیونکہ جب بھی ایران ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے، خام تیل کی قیمتیں اچک اچک کر بلندی کو چھونے لگتی ہیں اور پاکستان کی خارجی معیشت کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں کیونکہ اس کی معیشت پہلے ہی آئی ایم ایف کی دھمکیوں سے سہمی سہمی رہتی ہے جہاں معیشت کا بحران بھی ہے اور درآمدی دباؤ ایسا کہ 15 سے 16 ارب ڈالر تو توانائی کی درآمد پر پھونک دیے جاتے ہیں۔پاکستان اپنی توانائی ضروریات کا تقریباً 85 فی صد پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات سے پورا کرتا ہے۔
پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے گیارہ ماہ کے دوران 14 ارب 62 کروڑ 55 لاکھ ڈالرز کی پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کی جس میں خام تیل اور دیگر بھی شامل ہیں۔ اس کے بالمقابل جولائی تا مئی 2024 کے دوران 15 ارب 34 کروڑ ڈالرز کی درآمدات کے باعث پٹرولیم گروپ کی درآمد میں 4.
عالمی سفارتی منظرنامے میں اگرچہ پاکستان ایران کا ہمسایہ بھی ہے، برادر اسلامی ملک بھی ہے۔ ایران کے پاس چاہ بہار پاکستان کے پاس گوادر بھی ہے، سمندر کے راستے سے دونوں ملے ہوئے بھی ہیں، خشکی کے راستے سے بھی ملے ہوئے ہیں، محدود پیمانے پر ایرانی تیل بلوچستان آ رہا تھا، جس سے بلوچستان کے بے روزگار نوجوانوں کا روزگار جڑا ہوا تھا، ایران اسرائیل جنگ کے ساتھ ہی سب کچھ داؤ پر لگ گیا تھا، اب پاکستان کو توانائی سے متعلق نئی اور فائدے والی منصوبہ بندی پر غور کرنا ہوگا۔اب ایران اسرائیل جنگ بندی ہوئی ہے تو امید ہے کہ یہ جنگ بندی یونہی قائم رہے اور حالات نہ بگڑیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی درآمد بھی ہے ہے اور
پڑھیں:
پنجاب حکومت 3 دہائیوں بعد مقامی بینک کے قرضوں کے بوجھ سے آزاد
3 دہائیوں بعد پنجاب حکومت مقامی بینک کے قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہوگئی جب کہ بینک قرضوں کا باب بند ،اب وسائل عوامی فلاح پر خرچ ہوں گے۔
گندم خریداری و سبسڈی کا 675 ارب روپے قرض صفر کردیا، 25 کروڑ روپے یومیہ سود سے عوام کی جان چھوٹ گئی۔
پنجاب خزانے پر 31 سال سے بوجھ بننے والا قرضہ مکمل ادا کردیا گیا، وزیراعلی مریم نواز، چیف سیکرٹری پنجاب زاہد زمان، سیکرٹری خزانہ مجاہد شیردل کی کوششیں کامیاب ہوگئیں جب کہ صوبائی معیشت کو استحکام، قرض اتارنے سے سالانہ اربوں کی بچت ہوگی۔
نیشنل بینک کو آخری قسط 13 ارب 80 کروڑ روپے ادا کر دی گئی، قرض رول اوور کی بینکوں کی تمام درخواستیں پنجاب حکومت نے مسترد کر دیں، بروقت ادائیگی نہ ہوتی تو ماہانہ 50 کروڑ روپے سود دینا پڑتا، 675 ارب روپے کی واپسی سے مالی خودمختاری کی نئی مثال قائم ہو گئی۔
پنجاب حکومت نے کہا کہ پنجاب کی عوام کے ساتھ ساتھ صوبے کے مالی حالات میں تاریخی بہتری آگئی، سود کی مد میں اربوں روپے کی سالانہ بچت ہوئی، خزانے کا بہترین استعمال — صوبائی معیشت کو نئی زندگی ملی۔
پنجاب حکومت نے کہا کہ قرض اتارنے سے پنجاب حکومت کے مالیاتی استحکام میں اضافہ ہوگا، بینک قرضوں کا باب بند — اب وسائل عوامی فلاح پر خرچ ہوں گے۔