مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کا خواب
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
امریکی ایوان نمایندگان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک بھاری اکثریت سے مسترد ہوگئی ہے، یہ تحریک ایران کی ایٹمی تنصیبات پر امریکا کے بلاجواز حملے، ہٹ دھرمی اور ٹرمپ کے صدارتی اختیارات سے تجاوز کے خلاف تھی۔ مواخذے کی تحریک ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن نے پیش کی۔
ادھر امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق ابتدائی امریکی انٹیلی جنس جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایران کی 3 جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں سے بنیادی مواد تباہ نہیں ہوا، جب کہ ایرانی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’’ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو کسی بھی قیمت پر نہیں روکے گا۔‘‘ سی این این کی رپورٹ پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے غلط قرار دیا ہے۔
ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ سیز فائر نے ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ کی سیاست اور امن و جنگ کے توازن کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ ایران، اسرائیل سیز فائرکے بہت سے اہم پہلو ہیں اور یہ وقتی طور پر ایک بڑی جنگ کو روکنے میں کامیاب رہا ہے، مگر اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا اس کے نتیجے میں خطے میں پائیدار امن قائم ہو پائے گا؟ کیا یہ سیز فائر صرف سفارتی دباؤ یا فوجی تھکن کا نتیجہ ہے یا فریقین کسی بڑی حکمت عملی کی طرف بڑھ رہے ہیں؟ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں ایران، اسرائیل اور امریکا کے موجودہ رویوں اور پالیسیوں کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔
ایران ایک ایسا ملک ہے جو نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں بلکہ عالمی سیاست میں بھی اپنے انقلابی موقف، ایٹمی پروگرام اور خطے میں عسکری مداخلت کی وجہ سے ہمیشہ سے متنازع رہا ہے۔ ایران نے 1979کے اسلامی انقلاب کے بعد سے اپنی خارجہ پالیسی کو ’’مزاحمت‘‘ کے اصول پر استوار رکھا ہے۔ چاہے وہ حزب اللہ کی حمایت ہو، حماس کو عسکری مدد فراہم کرنا ہو یا شام، عراق اور یمن میں اپنے اثر و رسوخ کو قائم رکھنا، ایران نے ہمیشہ خود کو امریکا اور اسرائیل کے خلاف ایک ’’ محاذِ مزاحمت‘‘ کے قائد کے طور پر پیش کیا ہے۔اس کے برعکس اسرائیل ایک جدید، عسکری اعتبار سے مضبوط، اور امریکا کا قریب ترین اتحادی ملک ہے، جس کی پالیسی ہمیشہ سے ’’ پہل کرنے‘‘ پر مرکوز رہی ہے۔
اسرائیل اپنی سلامتی کے لیے پیشگی حملے کو جائز سمجھتا ہے اور ایران کی ایٹمی صلاحیت کو اپنے وجود کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے ماضی میں ایران کے ایٹمی سائنسدانوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں کیں، ایران کی ایٹمی تنصیبات پر سائبر حملے کیے اور بارہا ایرانی اتحادیوں پر فضائی حملے کیے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس سیز فائر کے پیچھے کئی سطحوں پر دباؤ موجود تھا۔ خطے میں جاری تناؤ، امریکی انتخابات کی گہما گہمی، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور عالمی سطح پر سفارتی تھکاوٹ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایران اور اسرائیل دونوں وقتی طور پر پیچھے ہٹ جائیں۔تاہم، اس سیز فائر کے باوجود، ایران کے جوہری پروگرام کا معاملہ اب بھی غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ ایران کا موقف ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے، مگر مغربی دنیا، بالخصوص اسرائیل، اسے شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
صدر ٹرمپ کے دور میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی اور ’’ زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی نے نہ صرف ایران کو مزید سخت گیر بنایا بلکہ خطے میں کشیدگی کو بھی بڑھا دیا۔ ٹرمپ کا مؤقف یہ تھا کہ ایران صرف طاقت کی زبان سمجھتا ہے اور نرمی دکھانا کمزوری کے مترادف ہے۔
اسی پالیسی کے تحت امریکا نے ایران کے خلاف معاشی پابندیاں عائد کیں، پاسدارانِ انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ حالیہ دنوں میں ایران کے اہم جوہری مراکز، بشمول نطنز، فردو اور اصفہان، اسرائیلی اور امریکی حملوں کا نشانہ بنے۔ اسرائیل کی جانب سے پہلے ڈرون حملے اور سائبر وار کے ذریعے نظام کو متاثر کیا گیا، جس کے بعد امریکا نے بی ٹو اسٹیلتھ بمبار طیاروں کے ذریعے ’’ بنکر بسٹر‘‘ بم گرائے، جب کہ ٹوما ہاک کروز میزائلوں کا استعمال کر کے زیرِ زمین تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
ان حملوں میں ایران کے کئی ریسرچ سینٹرز اور یورینیم افزودگی کے یونٹ تباہ ہوئے، دوسری جانب امریکی میڈیا کے مطابق ابتدائی نتائج صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ان بیانات سے متضاد ہیں جن میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حملوں سے ایران کی جوہری افزودگی کی تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں جب کہ رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس سینٹری فیوجز بڑی حد تک برقرار ہیں تو اندازہ ہے کہ ا مریکا نے ایران کے جوہری پروگرام کو زیادہ سے زیادہ صرف چند مہینے پیچھے دھکیلا ہے۔ صدر ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد امریکی میڈیا پر چلنے والی خبروں کو فیک نیوز قرار دیتے ہوئے میڈیا اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایران کی قیادت بخوبی جانتی ہے کہ ایٹمی ہتھیار بنانے کا مطلب عالمی تنہائی، عسکری کارروائی اور معاشی تباہی ہے۔ اسی لیے وہ اس پروگرام کو اس نہج پر لا کر رکھتا ہے جہاں وہ خطرہ بھی لگے اور حملے کا جواز بھی نہ بن سکے۔ یہ حکمت عملی ایران کو بیک وقت ایک طاقتور اور مظلوم ریاست کا تاثر دیتی ہے، جو سفارتی میدان میں اس کے لیے فائدہ مند ہے۔
اسرائیل کی بالادستی کی خواہش بھی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں وہ واحد عسکری، ٹیکنالوجی اور سفارتی طاقت ہو جسے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ اسی لیے وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو ہر قیمت پر ختم کرنا چاہتا ہے، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ صرف عسکری طاقت سے بالادستی ممکن نہیں۔ اسرائیل نے اگرچہ عرب ریاستوں سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے، مگر فلسطینی مسئلہ اب بھی ایک سلگتا ہوا سوال ہے۔
فلسطین کی حالت زار، اسرائیل کی جارحانہ پالیسی، اور دو ریاستی حل کی عدم موجودگی خطے میں کسی بھی وقت ایک نیا بحران جنم دے سکتی ہے۔ اسرائیل کی پالیسی یہ ہے کہ فلسطینی ریاست کا قیام نہ ہو، مگر عالمی رائے عامہ اب اس حد تک تبدیل ہو چکی ہے کہ اسرائیل کے لیے پرانے طریقے کارگر نہیں رہے، اگر اسرائیل نے اپنے رویے میں تبدیلی نہ کی، تو وہ خطے میں ایک مستقل تنازع کا مرکز بن کر رہ جائے گا۔
خطے میں پائیدار امن کا خواب صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام فریقین اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔ ایران کو چاہیے کہ وہ عسکری مداخلت، پراکسی جنگوں اور ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کو ترک کر کے اپنے عوام کی بہتری پر توجہ دے۔ اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا اور امریکا کو اپنی دہری پالیسی چھوڑ کر حقیقی ثالث کا کردار ادا کرنا ہوگا۔مگر کیا یہ سب ممکن ہے؟ کیا مشرقِ وسطیٰ ایک دن امن کا گہوارہ بن سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب مایوس کن بھی ہوسکتا ہے اور امید افزا بھی۔ مایوس کن اس لیے کہ عشروں پر محیط نفرت، تشدد اور بداعتمادی کو ختم کرنا آسان نہیں۔ مگر امید افزا اس لیے کہ نئی نسل اب ان مسائل سے تنگ آ چکی ہے، وہ تعلیم، روزگار، امن اور خوشحالی چاہتی ہے۔
وہ دنیا سے جڑنا چاہتی ہے، نہ کہ ہمیشہ جنگ کے میدان میں رہنا چاہتی ہے۔ایران اگر اپنی معیشت کو درست کرتا ہے، کرپشن کے خاتمے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرتا ہے، انسانی حقوق کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے اور عالمی برادری کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم کرتا ہے تو وہ دوبارہ ایک طاقتور مگر تعمیری ملک بن سکتا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ ایران اپنی خارجہ پالیسی کو نظریاتی شدت پسندی سے نکال کر حقیقت پسندی کی طرف لائے۔اسی طرح اسرائیل کو چاہیے کہ وہ اپنے دفاعی خدشات کو سفارتی اقدامات سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ طاقت کے استعمال سے صرف وقتی کامیابی مل سکتی ہے، مگر دیرپا امن صرف مصالحت اور انصاف سے ممکن ہے۔ اسرائیل اگر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیتا ہے، فلسطینیوں کے حقوق بحال کرتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کا احترام کرتا ہے تو وہ خطے میں ایک مثبت قوت کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
امریکا کا کردار بھی انتہائی اہم ہے، اگر وہ صرف اسرائیل کا حمایتی بن کر نہیں بلکہ ایک غیر جانب دار ثالث کے طور پر کردار ادا کرتا ہے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ ایران کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے، پابندیوں کو سیاسی ہتھیار بنانے کے بجائے سفارتی حل کی طرف آئے اور مشرقِ وسطیٰ کو جنگی ساز و سامان کا بازار بنانے سے گریز کرے۔
خطے میں پائیدار امن کا خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوگا جب قیادتیں عوامی خواہشات کو سنجیدگی سے لیں گی۔ جنگ، نفرت اور دشمنی کی سیاست اگرچہ فوری فائدہ دیتی ہے، مگر طویل المدتی تباہی کا پیش خیمہ بھی بنتی ہے۔ ایران، اسرائیل اور امریکا کو اب سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے اپنے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے خطے کے عوام کو بھی سکون کا سانس لینے دیں۔ مشرقِ وسطیٰ کا مستقبل جنگ و جدل کے بغیر بھی ممکن ہے۔
صرف ایک نئے بیانیے، نئی سوچ اور نئی قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم تاریخ سے سبق سیکھیں اور آنے والی نسلوں کے لیے امن، خوشحالی اور تعاون کی بنیاد رکھیں۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو یہ خطہ ایک بار پھر عالمی جنگ کا میدان بن جائے، جہاں صرف خون، آنسو اور تباہی ہوگی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں پائیدار امن ایٹمی پروگرام میں ایران کے چاہیے کہ وہ پروگرام کو اسرائیل کی اور امریکا تنصیبات پر کہ ایران سیز فائر ایران کی ہے کہ اس کرتا ہے ممکن ہے کے ساتھ کے خلاف ٹرمپ کے ہے کہ ا امن کا ہے اور کے لیے
پڑھیں:
استعمار اور ایٹم بم کی تاریخ
اسلام ٹائمز: امریکہ کے بعد اگر دنیا میں کسی ملک نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں تو وہ اسرائیل ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، اسپتالوں، خیمہ بستیوں اور حتیٰ کہ میڈیا سینٹرز تک کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل چھ عرب ممالک کے ساتھ جنگ کرچکا ہے اور اب فلسطین، لبنان، شام اور حال ہی میں ایران میں مختلف تنصیبات پر حملے کر چکا ہے۔ ان حملوں میں جیلوں، تعلیمی اداروں، گھریلو مقامات، حتیٰ کہ ہسپتال اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر دنیا اسرائیل اور امریکہ کی اس جارحیت پر خاموش رہی تو یہ دونوں ممالک دنیا میں کسی ملک کو پُرامن نہیں رہنے دیں گے۔ تحریر: محمد بشیر دولتی
دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ یورپی ممالک نے دنیا کے بڑے حصے کو خون میں نہلا دیا تھا۔ شہر کے شہر کھنڈر بن چکے تھے۔ ساحلوں سے لے کر شہروں کے قلب تک لاشوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ ہر طرف آگ اور خون کا بازار گرم تھا، لیکن اس تباہی کے باوجود انسانیت کے دشمن مطمئن نہ تھے۔ لاکھوں انسان لقمۂ اجل بن چکے تھے، مگر جنگی جنون رکھنے والے افراد پلک جھپکنے میں لاکھوں اور انسانوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے۔ اسی مقصد کے تحت امریکہ اور جرمنی دونوں ایٹم بم بنانے کی دوڑ میں شامل ہو چکے تھے۔ دونوں جانب جان لیا گیا تھا کہ جو فریق یہ ہلاکت خیز ہتھیار پہلے بنائے گا اور استعمال کرے گا، وہی اس جنگ کا فاتح ٹھرے گا۔
ہٹلر کی نگاہوں میں جرمنی کے یہودی دشمن تصور کیے جاتے تھے۔ اسی سوچ کے تحت اُس نے ان کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کیں۔ ان پالیسیوں کے نتیجے میں ۳ جون ۱۹۳۳ء کو ۲۶ ممتاز جرمن سائنسدانوں میں سے ۱۴ نے ملک چھوڑ دیا۔ ان میں البرٹ آئن اسٹائن بھی شامل تھے، جنہوں نے بعد ازاں امریکہ میں ایٹمی تحقیق کے سلسلے کو آگے بڑھایا اور ایٹم بم کی تیاری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کی ٹیم میں میکس بورن، جیمز فرانک، ماریا گوپرٹ مایر اور دیگر اہم سائنسدان شامل تھے۔ یوں دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ کو کامیاب بنانے اور عالمی طاقت بنانے میں ان سائنسدانوں، خصوصاً یہودی سائنسدانوں کا اہم کردار رہا۔ جرمنی سے ہجرت کرنے والے بعض یہودی سائنسدان برطانیہ اور بعض فرانس چلے گئے۔ یہودی سائنسدانوں کی اس خدمات اور اتحاد کا اثر ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے اختتام کے قریب، ۱۶ جولائی ۱۹۴۵ء کو امریکہ نے نیو میکسیکو میں فزکس کے ممتاز سائنسدان رابرٹ اوپن ہائیمر کی سربراہی میں ایٹم بم کا پہلا تجربہ کیا۔ ایٹم بم کی ایجاد کے بعد، ۶ اگست ۱۹۴۵ء کو صبح ۸ بج کر ۱۵ منٹ پر امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم بم گرایا، جس سے لاکھوں جاپانی شہری لقمہ اجل بنے اور پورا شہر تباہ ہوگیا۔ تین دن بعد، ۹ اگست کو ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا گیا، جس نے مزید لاکھوں جانیں لیں اور شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ یہ وہی امریکہ ہے جس نے اب تک تیس کے قریب ملکوں پر حملے کیے ہیں۔ لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتارا، اور آج خود کو "عالمی امن کا علمبردار" قرار دیتا ہے جبکہ امن عالم کو انہیں سے سب سے ذیادہ خطرہ رہا ہے اور رہے گا۔
امریکہ کے بعد اگر دنیا میں کسی ملک نے سب سے زیادہ مظالم ڈھائے ہیں تو وہ اسرائیل ہے۔ غزہ میں بچوں، عورتوں، اسپتالوں، خیمہ بستیوں اور حتیٰ کہ میڈیا سینٹرز تک کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل چھ عرب ممالک کے ساتھ جنگ کرچکا ہے اور اب فلسطین، لبنان، شام اور حال ہی میں ایران میں مختلف تنصیبات پر حملے کر چکا ہے۔ ان حملوں میں جیلوں، تعلیمی اداروں، گھریلو مقامات، حتیٰ کہ ہسپتال اور خیمہ بستیاں بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر دنیا اسرائیل اور امریکہ کی اس جارحیت پر خاموش رہی تو یہ دونوں ممالک دنیا میں کسی ملک کو پُرامن نہیں رہنے دیں گے۔ وقت ہے کہ عالمی برادری جاگے، اس سے پہلے کہ سب کچھ کچلا جائے۔ امریکہ و اسرائیل عالمی قوانین کی سب سے ذیادہ خلاف ورزی کرنے والے لاپرواہ ممالک ہیں۔
دونوں ممالک خود کئی ایٹم بم بنا رکھے ہیں اور ایٹم بم سمیت انتہائی کیمیائی اور مہلک ہتھیار استعمال کر کے ہیں۔ دونوں ممالک کو ایران کا پرامن ایٹمی پروگرام اور حق قبول نہیں ہے۔ آج سے سات سال قبل جوہری ہتھیاروں کے بارے میں یہ رپورٹ عام تھی جس کے مطابق دنیا میں ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ممالک کی تعداد ۹ ہے، جن کے پاس مجموعی طور پر ہزاروں ایٹم بم ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق: امریکہ اور روس کے پاس سب سے زیادہ ایٹم بم ہیں، جن کی تعداد بالترتیب تقریباً ۳۳۰ سے زائد ہے۔ چین کے پاس تقریباً ۲۸۰، برطانیہ کے پاس ۲۲۵ کے قریب، پاکستان کے پاس ۱۵۰ کے لگ بھگ، بھارت کے پاس ۱۴۰ کے قریب، شمالی کوریا کے پاس ۳۰ سے ۴۰، اسرائیل کے پاس بھی تقریباً ۴۰ سے ۹۰ ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔
پاکستان، ایران اور دیگر ۳۵ ممالک انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کے رکن ہیں، جو عالمی قوانین کے مطابق اپنی جوہری پالیسیز کو پُرامن انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ اسرائیل نہ صرف IAEA کا رکن نہیں ہے، بلکہ اُس پر کوئی عالمی دباؤ بھی نہیں کہ وہ اپنے ایٹمی ہتھیار ظاہر کرے یا پُرامن رویہ اختیار کرے۔ اُسے کھلی چھوٹ ہے کہ چاہے غزہ پر حملہ کرے یا شام و لبنان اور یمن پر، کوئی اسے روکنے والا نہیں۔ دوسری طرف ایران، جو IAEA کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، اُس پر طرح طرح کی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ حال ہی میں ۱۲ جون کو امریکہ نے IAEA میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں ایران کے جوہری پروگرام کو "دنیا کے لیے خطرہ" قرار دیا گیا۔ روس، چین اور برکینا فاسو نے اس قرار داد کے خلاف ووٹ دیا۔ پاکستان پر بھی ایران کے خلاف ووٹ دینے کے لیے شدید دباؤ تھا، تاہم پاکستان نے حالات کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے رائے شماری میں شرکت نہ کرنے کو مناسب سمجھا۔
امریکہ، مغربی طاقتوں اور بعض مسلم ممالک کے دباؤ کے باوجود پاکستان کا مؤقف اس موقع پر نہایت متوازن، حقیقت پسندانہ اور باوقار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایران میں سرکاری و عوامی سطح پر پاکستان کے اس موقف کو سراہا جا رہا ہے اور شکریہ ادا کیا جا رہا ہے۔ ۱۲ جون کو امریکی قرار داد کے بعد، اسرائیل نے رات کی تاریکی میں ایران پر ایک بڑا حملہ کیا۔ داخلی و خارجی حملوں کا سامنا کرنے کے باوجود، ایران نے نہ صرف دفاع کیا بلکہ پوری طاقت سے جواب دینا بھی شروع کر دیا۔ دنیا اس وقت حیران ہے کہ ایران کی میزائل ٹیکنالوجی، بالخصوص بیلسٹک میزائل، ہائپرسونک میزائلز اور کروز میزائلز کس طرح امریکی، برطانوی، اردنی اور فرانسیسی دفاعی نظام کو ناکارہ بنا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کا مشہور دفاعی نظام آئرن ڈوم بھی کئی مرتبہ مکمل ناکام ہوا، اور ایران نے تل ابیب اور حیفا جیسے شہروں میں اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا ہے۔
یہ دنیا میں پہلا موقع ہے کہ بعض دعووں کے مطابق متعدد F-35 جیسے جدید جنگی طیارے مار گرائے گئے ہیں البتہ اس کی ابھی تک باقاعدہ تصدیق نہیں ہوئی۔ امریکی و اسرائیلی ڈرونز کو گرانا ایرانی دفاعی نظام کے لیے اب معمول بن چکا ہے۔ اب تو ڈرون حملا کرنا اور دشمن کا ڈرون گرانا یمنیوں کا معمول بن چکا ہے۔ ان تمام صورت حال میں، امریکہ جو خود کو عالمی امن کا محافظ کہتا ہے، اس جنگ میں براہِ راست شامل ہوچکا ہے۔ اسرائیل پہلے ہی اس تنازع کا مرکزی فریق ہے۔ یہ دونوں ممالک، اپنے اقدامات کی بنیاد پر، عالمی سطح پر امن کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ دنیا کو چاہیئے کہ مل کر ان ظالم ملکوں کو لگام دیں اور عملی میدان میں ایران کا ساتھ دیں تاکہ دنیا ایک پرامن جگہ بن سکے اور یہاں سب برابری کی بنیاد پر بین الاقوامی اصولوں کے مطابق جی سکیں۔