ایران اسرائیل جنگ میں طاقت کا توازن
اشاعت کی تاریخ: 25th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اسلامی جمہوریہ ایران کا ردعمل دیکھ کر دوستوں کے دل تو ٹھنڈے ہوئے مگر دشمن حیران و پریشان ہوگئے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں؟ اور یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ وہ آگ جس کو وہ تہران، قم اور مشہد میں دیکھنا چاہتے تھے وہ ان کے گھروں میں لگی ہوئی تھی اور وہ جو بے چینی پیدا کرنا چاہتے تھے وہ بیت المقدس میں امریکی سفیر کو رات میں پانچ بار پناہ لینے پر مجبور ہو کر لینی پڑ رہی تھی۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
کچھ دوست یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ چند سنجیدہ لوگوں نے ایران اور اسرائیل جنگ کے حوالے سے استطاعت کی شرط کے موجود ہونے نہ ہونے کی بات کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ ایران کے پاس امریکہ اور اسرائیل سے لڑنے کے حوالے اسے استطاعت نہیں ہے اس لیے صلح کر لینی چاہیئے۔ انہیں جواب دیا گیا کہ اگر آپ لوگ نبی رحمتﷺ کے زمانے میں ہوتے تو جنگ بدر میں نبی اکرمﷺ کو بھی اپنی عقل کے مطابق ہی مشورے دیتے اور طاقت کے توازن کی بنیاد پر لڑائی کے فیصلے کا سوچتے۔ میں نے عرض کیا کہ ضروری نہیں اس طرح کی بات کرنے والا ہر شخص دشمن ہو یا دشمن کی زبان بول رہا ہو۔ کچھ لوگ اپنی سادگی کی وجہ سے ایسی بات کرتے ہیں جس میں اپنے خیال کو حقیقت فرض کر لیتے ہیں۔
اپنے خیال کو ہی حقیقت فرض کرنے کے بعد فکری نتائج ایسے ہی نکلتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی طرف سے حمایت ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو ان لوگوں کے پاس اسلامی جمہوریہ ایران کی طاقت اور قدرت کی کوئی مصدقہ اطلاعات ہی نہیں، یہ لوگ ایران کو پابندیوں میں جکڑا پسماندہ ملک سمجھتے ہیں۔ ان کی غالب اکثریت پہلے جنگی حملے کے بعد مایوسی میں چلی گئی تھی کہ اب کیا ہو جائے گا؟ یہ لوگ ایران کو مغربی میڈیا سے متاثر ہو کر عراق اور لیبیا پر قیاس کر رہے تھے۔انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ایران کے نظام کی طاقت ہی ایران کی انقلابی عوام ہے اور دوسرا ایرانی کئی ہزار سالہ تاریخ رکھنے والی قوم ہیں جو اس پر فخر کرتی ہیں۔ایسے مواقع پر قوموں کا اجتماعی شعور بہت اہم ہوتا ہے۔
جب سپاہ پاسداران نے میزائل فائر کرنا شروع کیے اور اسرائیل میں تباہی ہونے لگی تو دنیا کی رائے بدلنے لگی کہ نہیں ایران کے پاس بھی طاقت و استطاعت ہے۔جیسے جیسے دن گزرتے گئے لوگوں کی آنکھیں کھلتی گئیں کہ سپاہ پاسداران نے خوب تیاری کر رکھی ہے۔ ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی جسے جتنی بار دیکھا ایمان تازہ ہوا، اس میں سپاہ کے میزائل کے ساتھ محفل انس با قرآن برپا ہو رہی ہے اور سب پاسداران مل کر بڑی خوبصورتی سے قرآن مجید کی اس آیہ مجیدہ کی تلاوت کر رہے ہیں: وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ (سورہ انفال ۶۰)۔ ترجمہ: اور ان (کفار) کے مقابلے کے لیے تم سے جہاں تک ہو سکے طاقت مہیا کرو اور پلے ہوئے گھوڑوں کو (مستعد) رکھو تاکہ تم اس سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں نیز دوسرے دشمنوں کو خوفزدہ کرو جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں جانتا ہے اور راہ خدا میں جو کچھ تم خرچ کرو گے وہ تمہیں پورا دیا جائے گا اور تم پر زیادتی نہ ہوگی۔
وہ قوم جسے ایک مدت سے علم ہے کہ ہم کسی بھی وقت اسرائیلی اور امریکی بربریت کا نشانہ بن سکتے ہیں وہ کیسے اپنے دفاع سے غافل ہو سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی دفاعی حکمت عملی حملے روکنے سے زیادہ حملے کرنے کے ذریعے دباؤ پیدا کرنے پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے دن تک دنیا کا کوئی دفاعی نظام مکمل طور پر میزائلوں کو نہیں روک سکتا۔ اگر روک سکتا ہوتا تو آج تل ابیت اور حیفہ مٹی کے ڈھیر میں تبدیل نہ ہو چکے ہوتے۔ اسرائیل کو امریکہ اور پورے یورپ کی فوجی مدد حاصل ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہ اسے مل جاتا ہے پیسے بھی امریکی ٹیکس دہندگان کے اکاونٹ سے کٹتے ہیں۔ اسرائیل کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ یہاں موجود آباد کار بم اور دھواں دیکھنے کے لیے نہیں آئے بلکے انہیں بہترین ماحول اور پرآسائش زندگی کے لیے لایا گیا ہے۔
جیسے جیسے دن گزر رہے تھے اور ایرانی میزائل مزید تباہی مچا رہے تھے۔ اسرائیل کے ہاتھ پاوں پھول رہے تھے، اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ بحری جہازوں سے اسرائیلی فرار اختیار کر رہے تھے۔ پناہ گاہوں میں لڑائیاں ہو رہی تھیں۔ ایک بار آپ اے سی والے آفس میں بیٹھ کر استطاعت کی بحث صرف ذہبی ورزش کے لیے کرتے ہیں اور دوسری طرف میدان جنگ کے مجاہدین اپنے میزائلوں کے پاس بیٹھ کر قرآن مجید کی یہ آیت مجیدہ پڑھتے ہیں کہ پلے ہوئے گھوڑوں کو مستعد رکھو تو انہیں نے اس دورے کے گھوڑے مستعد رکھے ہوئے تھے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کا ردعمل دیکھ کر دوستوں کے دل تو ٹھنڈے ہوئے مگر دشمن حیران و پریشان ہوگئے ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں؟ اور یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ وہ آگ جس کو وہ تہران، قم اور مشہد میں دیکھنا چاہتے تھے وہ ان کے گھروں میں لگی ہوئی تھی اور وہ جو بے چینی پیدا کرنا چاہتے تھے وہ بیت المقدس میں امریکی سفیر کو رات میں پانچ بار پناہ لینے پر مجبور ہو کر لینی پڑ رہی تھی۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ ۖ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (بقرہ ۲۵۸)۔ ترجمہ: کیا آپ نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے بارے میں اس بنا پر جھگڑا کیا کہ اللہ نے اسے اقتدار دے رکھا تھا؟ جب ابراہیم نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو اس نے کہا: زندگی اور موت دینا میرے اختیار میں (بھی) ہے، ابراہیم نے کہا کہ اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا، یہ سن کر وہ کافر مبہوت رہ گیا اور اللہ ظالموں کی راہنمائی نہیں کرتا۔
جس طرح حضرت ابراہیمؑ کے جواب سے نمرود مبہوت ہوگیا تھا بالکل آج کے دشمنان اسلام بھی اسی طرح مبہوت ہوگئے تھے۔ یہ تو چند دن کی جنگ تھی اور بہت جلد پانسہ پلٹ دیا گیا۔ اللہ نے اپنے لشکر کی مدد فرمائی اور اسے عزت دی۔اگر معاملہ لمبا بھی ہو جائے تو بھی گھبرانا نہیں ہے۔ اللہ کی مدد و نصرت پر پکا یقین رکھنا چاہیئے۔ قرآن مجید نے اسے بڑی خوبصورتی سے بیان فرمایا ہے: أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۖ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّىٰ يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَىٰ نَصْرُ اللَّهِ ۗ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ (بقرہ ۲۱۴)۔ ترجمہ: کیا تم خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ ابھی تمہیں اس قسم کے حالات پیش نہیں آئے جو تم سے پہلوں کو پیش آئے تھے؟ انہیں سختیاں اور تکالیف پہنچیں اور وہ اس حد تک جھنجھوڑے گئے کہ (وقت کا) رسول اور اس کے مومن ساتھی پکار اٹھے کہ آخر اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ (انہیں بشارت دے دی گئی کہ) دیکھو اللہ کی نصرت عنقریب آنے والی ہے۔
یہ بہت ہی بامعنی اور آج کے حالات میں مکمل رہنمائی فراہم کرتی آیت ہے۔ اگر امتحان کچھ طویل ہو جائے اور کفر و نفاق بظاہر کچھ غالب بھی آنے لگے تو پریشان نہیں ہونا۔ اللہ کی نصرت جلد پہنچ جاتی ہے۔ اللہ سے مدد اور نصرت کے جلدی بھیجنے کی دعا ضرور کرتے رہنا چاہیئے اور ہر صورت میں پرامین رہنا چاہیئے۔ ایران نے اسرائیل سے جنگ کی کس قدر تیاری کی ہوئی تھی؟ اس کا اندازہ موجودہ جنگ کے تیسرے دن ہی ہوگیا تھا جب امریکہ براہ راست مقابلے کے لیے پر تولنے لگا تھا۔ ایک ہفتے بعد ہی امریکی شمولیت نے بتا دیا کہ اسرائیل کی اتنی طاقت ہی نہیں ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران سے دو ہفتے براہ راست لڑ سکے۔ جب اللہ پر یقین کرتے ہوئے جنگ میں شامل ہوں گے اور دل جما کر لڑیں گے تو میدان آپ کا ہوگا۔ وہاں کب ناکامی ہو سکتی ہے جب کام کا آغاز ہی فاتح خیبر کے نام سے کیا جا رہا ہو۔ مقام معظم رہبری کا ٹویٹ ہی ایمان کی تازگی کے لیے کافی تھا لکھا تھا: حیدرِ کرارؑ کے مبارک نام سے جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔ علیؑ اپنی تلوار "ذوالفقار" کے ساتھ خیبر کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران رہے تھے اللہ کی اور اس کے لیے ہے اور کر رہے کے پاس نہیں ا تھا کہ اور وہ
پڑھیں:
امریکا کا قفقاز میں ٹرمپ راہداری بنانے کا منصوبہ، ایران کی مخالفت
آذربائیجان، آرمینیا امن معاہدے کے تحت امریکا نے قفقاز میں ٹرمپ راہداری بنانے کا منصوبہ بنالیا۔
خبرایجنسی کے مطابق ایران نے اپنی شمال مغربی سرحدوں کے نزدیک ٹرمپ راہداری کے منصوبے کی مخالفت کردی۔
ایران نے اپنی سرحدوں کے نزدیک ٹرمپ راہداری منصوبے کوقومی سلامتی کےلیے خطرہ قرار دے دیا۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللّٰہ علی خامنہ ای کے مشیر اعلیٰ علی اکبر ولایتی کا بیان میں کہنا ہے کہ ایران اپنی سرحدوں کے نزدیک ٹرمپ حمایت یافتہ راہداری بننے کی اجازت نہیں دے گا۔
علی اکبر ولایتی نے کہا کہ ایران اپنی سرحدوں کے قریب کسی بھی جغرافیائی تبدیلی کو برداشت نہیں کرے گا۔
خبر ایجنسی کے مطابق علی اکبر ولایتی نے کہا کہ راہداری ٹرمپ کی ملکیت نہیں، ٹرمپ کے کرائے کے فوجیوں کا قبرستان بنے گی۔
خبرایجنسی کا کہنا ہے کہ آذربائیجان، آرمینیا امن معاہدے کے تحت قفقاز میں ایک راہداری بنانے کا مجوزہ منصوبہ بھی طے ہوا ہے، ٹرمپ راہداری برائے امن و خوشحالی نامی منصوبے میں آرمینیا، آذربائیجان سے ترکیے تک راہداری بنائی جائے گی۔
خبر ایجنسی کے مطابق راہداری ایران کی شمال مغربی سرحد کے قریب واقع ہوگی، معاہدے کے تحت راہداری کی تعمیر کے مالکانہ حقوق امریکا کے پاس ہوں گے۔