منہاج القرآن علما کونسل کے مرکزی صدر کا کہنا تھا کہ محرم الحرام صرف اسلامی مہینے کا آغاز نہیں بلکہ صبر، قربانی، وفا، حق اور عدل کا درس دینے والا محترم مہینہ ہے۔ حضرت امام عالی مقام کی دین مصطفوی کیلئے عظیم قربانی پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے۔ ملکی یکجہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی رواداری کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ محرم الحرام کے مقدس مہینے کی آمد کے حوالے سے منہاج القرآن علماء کونسل کا اہم اجلاس مرکزی سیکرٹریٹ میں مرکزی صدر منہاج القرآن علما کونسل علامہ مفتی غلام اصغر صدیقی کی صدارت میں منعقد ہوا، اجلاس میں علماء کونسل کے مرکزی، صوبائی وضلعی عہدیداران نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ منہاج القرآن علماء کونسل ملک کے تمام شہروں میں یکم تا 10 محرم ’’پیغام امام حسین علیہ السلام و اتحاد امت‘‘ کانفرنسز منعقد کرے گی۔ اجلاس میں منہاج القرآن علماء کونسل کی طرف سے اپیل کی گئی کہ محرم الحرام میں تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام وحدت، یگانگت، یکجہتی اور اخوت و بھائی چارے کا جذبہ پیدا کرتے ہوئے اس محترم مہینے کو امن و سکون سے گزارنے کا پیغام دیں تاکہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے امن، یگانگت اور اخوت اور بھائی چارے کے حقیقی پیغام کو زندہ کیا جا سکے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مفتی غلام اصغر صدیقی نے کہا کہ کربلا کا پیغام ہے کہ ہمیشہ حق کیلئے اُٹھو۔ محرم الحرام صرف اسلامی مہینے کا آغاز نہیں بلکہ صبر، قربانی، وفا، حق اور عدل کا درس دینے والا محترم مہینہ ہے۔ حضرت امام عالی مقام کی دین مصطفوی کیلئے عظیم قربانی پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے۔ ملکی یکجہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی رواداری کی آج پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں چاہئے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے اپنے رویوں میں صبر، اخلاق اور رواداری کو فروغ دیں۔ مرکزی ناظم منہاج القرآن علما کونسل علامہ اشفاق علی چشتی نے تمام مکاتب فکر کے علما کرام سے اپیل کی کہ وہ محرم الحرام کے دوران ایسا خطبہ اور پیغام دیں جو محبت، بھائی چارے اور امن کا ذریعہ بنے۔

علامہ اشفاق چشتی نے کہا کہ اس محترم مہینے کو عظمت اہلبیؑت کے طور پر منائیں۔ خاندان رسول نے مقدس جانوں کا نذرانہ دے کر قرآنی احکامات کا تحفظ کیا، محرم الحرام عبادت، ایثار، تحمل اور برداشت کا مہینہ ہے۔ امن و امان برقرا رکھنے کیلئے سب کو متحد ہو کر کردار ادا کرنا ہو گا۔ محرم کا پیغام اتحاد بین المسلمین ہے۔ انہوں نے کہا کہ اہلبیتؑ کی قربانیاں پوری انسانیت کیلئے تھیں۔ محرم الحرام ہمیں شہدائے کربلا کی شہادتوں کیساتھ ساتھ ان کے مشن اور جدوجہد کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ظلم کے سامنے ڈٹ جانا، ظالم اور جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا درس کر بلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کربلا میں حسینی امن پسندی نے یزیدی دہشتگردی کو شکست دی تھی۔ علمائے کرام علمی، عملی، تحریری اور تقریری طور پر اس مقدس مہینے میں اخوت، محبت اور رواداری کو فروغ دے کر دوسروں کی اصلاح کرنے کی کوشش کریں۔ بزرگان دین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اتحاد بین المسلمین کی بات کریں تاکہ امت مسلمہ انتشار سے محفوظ رہے اور پاکستان ترقی اور خوشحالی کی منازل طے کر سکے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: منہاج القرا ن علما محرم الحرام علماء کونسل نے کہا کہ کا پیغام

پڑھیں:

جگہیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں!

اونچ نیچ
آفتاب احمد خانزادہ

امریکی ادیب W.C.Fields نے گو ئٹے پر اپنی کتاب میں لکھا تھا ْ ”وہ کسی طرح شیکسپیئر سے کم نہیں تھا۔ جو شیکسپیئر جانتا تھا وہ گوئٹے بھی جانتا تھا اس نے اپنے مشاہدات اور تجربات سے سیکھا اور یہ وہ بات ہے جو شیکسپیئر کے سوانح نگا ر اس کی زندگی میں تلاش نہیں کرسکے”۔ 1744 میں اسکا شاہکار نا ولٹSorrows of Werther شائع ہوا۔ اس نا ول کی مقبو لیت اور شہرت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ ورتھر کے نام سے یورپ اور جرمنی میں کئی کلب قائم ہوئے۔ نوجوان اس المناک رومانی ناول سے اتنے متا ثر ہوئے کہ خو د کشی کرنے لگے۔ اس ناول نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا۔ 1775 میں اس کا دوسرا عظیم تخلیقی کارنامہ Gotl Mon Berlichingen شائع ہوتا ہے۔ اس کے اس شاہکارکو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انگر یزی میں اس کا ترجمہ والٹر اسکاٹ نے کیا۔
یہ ہی وہ دور ہے جب اس نے اپنا عظیم ترین تخلیقی شاہکار فاوسٹ لکھنا شروع کیا ۔ فاوسٹ نے اس لا فانی بنا دیا ۔ فاوسٹ کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے کہ فاوسٹ ایک عالم کی حیثیت سے اپنی زندگی سے غیر مطمئن ہے اور وہ افسردہ ہوجاتاہے اپنی جان لینے کی کوشش کے بعد ،وہ شیطان کو مزید علم اور جادوئی طاقتوں کے لیے پکارتاہے جس سے دنیا کی تمام لذتیں اور علم حاصل کیا جاسکتا ہے جواب میں شیطان کا نمائندہ مسفیٹو فلیس ظاہر ہوتاہے، وہ فاوسٹ کے ساتھ ایک سودا کرتاہے، میفسٹو فلیس اپنی جا دوئی طاقتوں سے فاوسٹ کی کئی سالوں تک خدمت کرے گا لیکن موت کے اختتام پر شیطان فاوسٹ کی روح کا دعویٰ کرے گا اور فاوسٹ ہمیشہ کے لیے اسکاغلام رہے گا۔ گوئٹے کا شیطان انسان کی اناکو بھڑکا تا ہے اور اس وسیلے سے اپنا کام نکالتاہے ۔وہ چاہتا ہے کہ انسان الجھنوں میں گھرا رہے۔ اس میں وہ مسرت محسوس کرتاہے انسان کی سربلندی اسے منظور نہیں ۔ وہ انسان کا سب سے بڑا حریف ہے وہ انسان کو ترغیب دیتاہے کہ وہ دوسروں کی بھلائی اور جذبات کو نظر انداز کرکے لذت دنیاوی میں مصروف رہے۔ جب فاوسٹ ایک جگہ میفسٹو فلیس کو لعنت ملامت کرتاہے تو شیطان کہتاہے ” اے زمین کے لاچار اور بے بس بیٹے! ذرا سوچ تو میرے بغیر تو زندگی کے دن کس طرح گزارتا؟ زندگی کے سو زو ساز اور ذوق و شوق کا سامان کہاں سے لاتا ؟ یاد رکھ اگر میںنہ ہوتا تو اس کرہ ارض پر تیرا وجود نہ ہوتا ۔ تو اسے چھوڑ کر بھاگ چکا ہوتا”۔ دوسر ی طرف فلابیئر نے 1874 میں ناول La Temptation De Saint Antonie لکھا ناول میں Saint Antoine کی آزمائش جسم اور روح کی آزما ئش ہے ۔ شیطان اسے اس طرح مخاطب کرتاہے ” یہاں کوئی مقصد نہیں ۔ صرف نا محدود کا وجود ہے اور بس ۔ عرض تیرے حواس کا دھوکہ ہے اور جو ہرتیرے تخیل کا کر شمہ ہے۔ چونکہ عالم اشیا کے دائمی سیلان کی کیفیت جاری وساری ہے اس لیے یہاں نمود ہی سب سے زیادہ حقیقی اور التبا س ہی واحد حقیقت ہے ”۔ شیطان سینٹ انتواں کو بہکانے میں کامیاب ہو جاتاہے۔ وہ اسے دنیاوی لذتوں میں پھنسا دیتا ہے اور اسے یہ باور کراتاہے کہ یہ ہی اصل اور آفاق گیر زندگی ہے ۔ فاوسٹ اور سینٹ انتو اں دنیا وی آسائشوں اور عیا شیوں، لذتوںکے لیے، ایک اپنی روح شیطان کے ہاتھوں فروخت کر دیتا ہے دوسرا شیطان کے بہکاوے میں پھنس جاتاہے ۔یہ دونوں کہانیاں اتنی سچی ہیں جو صدیوں سے دنیا میں باربار دہرائی جارہی ہے۔ گروڈک یہ کہتے کبھی نہ تھکتا تھا کہ ہم اپنی زندگی نامعلوم اور بے اختیار قوتوں کے اثرات کے تحت بسر کرتے ہیں۔
ہم اگر ملک کی76سالہ تاریخ کا باریکی کے ساتھ معالعہ کریں تو ہم پر یہ وحشت ناک انکشاف ہوگاکہ ہمارے ملک کے با اختیاروں، طاقتوروںاور حکمرانوں کی اکثریت نے یا تواپنی روحیں شیطان کے ہاتھوں فروخت کردیں یا پھر وہ شیطان کے بہکاوے میں آچکے ہیں کیو نکہ جس طرح سے انہوں نے اپنی عیا شیوں ، لذتوں اورآرام کے لیے ملک کے وسائل کو لوٹا اور ملک کے عوام کو جس طرح برباد اور ذلیل و خوار کیا اور کررہے ہیں۔ وہ کوئی سمجھدار ، ذہین ، باکردار انسان نہیں کرسکتا جس کے پاس جتنا بڑا عہد ہ یا رتبہ رہا ہے یا ہے وہ اتنا ہی بڑا بے ایمان اور بد کردار ثابت ہواہے ۔ہمارے ملک کے ہر کرتا دھرتا ، بااختیار اور طاقتور کی قبروں کے کتبے پر یہ ضرور لکھا ہونا چاہیے کہ یہ اس شخص کی قبر ہے جس سے برے انسان محبت کرتے تھے اور نیک آدمی اس سے ڈرتے تھے اور جس کی بے ایمانی ، کر پشن اور لوٹ مار اور عیاشیوں کی ہمسری ممکن ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے عوام یہ سو چنے پر مجبور ہیں کہ ان میں اور عہد وحشت کے انسانوں کے درمیان ترقی کی رفتار کے علاوہ اور کوئی فرق نہیں ہے۔ہمارے عہد کے بد کردار اور طاقتور لوگ اپنے عیش وا رام کی خاطر باقی ساروں انسانوں کا چین و سکون ، آرام اور انہیں برباد کرنے پر اسی طرح راضی اور تیار ہوجاتے ہیں جیسا کہ عہد و حشت کے زمانے میں ہوتا تھا۔ ان کی ہوس اور خو اہشیں انسانوں کی نہیں بلکہ دیوئوں کی ہیں۔جو کبھی ختم ہی نہیں ہوپارہی ہیں جو جتنا روپے پیسے ، ہیرے جواہرات ، زمینیں ، جاگیریں جمع کرتے جارہے ہیں ان کی بھوک او ر بڑھتی جارہی ہے ان کی بے چینی اور بے اطمینانی میں اور اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ پوری دنیا میں اس قدر ترقی کے باوجود ہمارے ملک کے شہروں میں آج بھی گندگی ،غلیظ اور قابل نفرت تاریک بستیوں کے ناسور پل رہے ہیں ۔ لوگ صرف ایک روٹی کی خاطر خو د کشیوں پر مجبور ہیں ۔لوگ غربت اور افلاس کی وجہ سے اپنے جسموں کے اعضاء بیچنے پر مجبور ہیں ۔شیطان نہ انہیں چین لینے دے رہاہے اور نہ ہی ہمیں سکون سے زندگی بسر کرنے دے رہاہے۔ چاروں طرف صرف بھوک ہی بھوک ہے ۔
شیکسپیئراپنے ڈرامنے King Lear میں دکھاتاہے کہ جب تک بادشاہ لیئر پاگل نہیں ہوجاتا، زندگی کی ماہیت کونہیں سمجھتا اور گلوسٹر کو زندگی کی حقیقت اس وقت تک نظر نہیں آتی ، جب تک وہ اندھا نہیں ہوجاتا۔ نطشے بہت حساس انسان تھا 44 سال کی عمر میں وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ۔ سوانح نگاروں کے مطابق ایک روز وہ اپنے فلیٹ سے نکلا دیکھا کہ ایک شخص اپنے گھوڑے کو بے دردی سے پیٹ رہا ہے۔ نطشے سے یہ دلخراش منظر دیکھا نہ گیا بے خود ہو کر وہ گھوڑے سے لپٹ گیا۔ کوچوان نے گھوڑے کے ساتھ ساتھ نطشے کو بھی پیٹا۔ اس کے بعد وہ 12سال تک زندہ رہا لیکن وہ اپنی عقل و خرد سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔ ہمارے ملک کے بااختیار اور طاقتور اتنے بے شرم اور بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں لاکھوں دم توڑ تے لوگ دکھائی نہیں د ے رہے ہیں ۔ایک ایک روٹی کے لیے بھاگتے لوگ ان کی آنکھوں سے اوجھل ہیں ۔ سڑکوں پر ننگے پائوں ، بھوکے پیاسے لوگوں سے کیوں انہوں نے اپنی نظریں چرارکھی ہیں ۔کروڑوں انسانوں کی حالت زار روزانہ ٹی وی ، اخبارات اور سو شل میڈیا پر دکھائی جارہی ہیں ۔ لیکن وہ اندھے ، گونگے اور بہرے بنے ہوئے ہیں شیلے اپنی نظم Ozymandias میں لکھتا ہے کہ ہر چیز یہ پیغام دے رہی ہے کہ ہر چیز کا مقدر فنا ہوجاناہے ۔ یہ کائنا ت کا اصول ہے کہ کوئی چیز ہمیشہ ایک حالت میں نہیں رہتی ،اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں ۔ میرے ملک کے بااختیاروں ، طاقتوروں تمہارے پاس بھی اختیار اور طاقت ہمیشہ نہیں رہے گی ۔ جگہیں بدلتی رہتی ہے۔ آج تم آقا ہو اور باقی سب غلام ہیں ۔ لیکن جس روز تم غلام ہوگے اور باقی جب آقاہوں گے تو سو چ لو تمہارے ساتھ کیا حشر کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متعلقہ مضامین

  • سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ صاحب تفہیم القرآن، بانی جماعت اسلامی!
  • شہیدِ مقاومت کی پہلی برسی اور امت کیلئے بیداری کا پیغام
  • القرآن
  • چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن مقرر
  • جگہیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں!
  • پاک سعودیہ معاہدہ امت کے دفاع کیلئے : عبدالخبیر آزاد
  • پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کھڑے تھے اور کھڑے رہیں گے، سعودی سفیر
  • پاک سعودی تعلقات ہمیشہ قائم و دائم رہیں گے، وزیراعظم کا سعودی عرب کے قومی دن پر پیغام
  • سعودی مفتیِ اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ انتقال کرگئے
  • شکیل صدیقی نے بگ باس کا حصہ بننے سے کیوں انکار کیا؟