ایئر انڈیا حادثہ؛ پاکستان اور بھارت کیلیے برطانیہ، یورپ، امریکا کا دہرا معیار
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
لاہور:
پاکستان اور بھارت کے لیے برطانیہ، یورپ اور امریکا کا دہرا معیار سامنے آگیا، پی آئی اے جہاز کو حادثہ پیش آتے ہی ہوا بازی کے بین الاقوامی ریگولیٹرز اور دیگر اداے فوری حرکت میں آکر پابندیاں عائد کر دیتے ہیں لیکن بھارت کے لیے انتہائی نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان میں سے کوئی ادارہ حرکت میں نہیں آتا۔
بھارتی ائیر لائن پر پابندی عائد ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے پائلٹس پر جبکہ انٹرنیشنل سول ایوی ایشن سمیت یورپ برطانیہ اور امریکا کے ایوی ایشن ریگولیٹر قومی ایئر لائن پی آئی اے کے پائلٹس کی مہارت کے گن گاتے نہیں تھکتے بلکہ دنیا کی اس وقت کی صف اول کی ایئر لائن بنانے میں قومی ایئر لائن پی آئی اے کا کردار سب کے سامنے ہے۔
پی آئی اے کو بین الاقوامی سطح پر قبول بھی کیا جاتا ہے مگر پھر بھی بھارت کے ساتھ اتنا پیار اور پاکستان کی ایئر لائن کے ساتھ اتنی نفرت بین الاقوامی ایوی ایشن ریگولیٹرز کے کردار کو مشکوک بنا رہی ہے۔
پی آئی اے اور ایوی ایشن ذرائع کے مطابق 12 جون 2025 کی صبح، ایئر انڈیا کی پرواز 171 ایک جدید ترین بوئنگ 787-8 ڈریملائنر جو لندن کے لیے روانہ ہوئی تھی، احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈے سے پرواز کے فوراً بعد المناک حادثے کا شکار ہوگئی۔
جہاز میں سوار تمام 242 افراد اور زمین پر موجود مزید 39 افراد جاں بحق ہوگئے۔ سانحہ نے ہوا بازی کی پوری انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا جو دعویٰ کرتی ہے ’’فضائی سفر سب سے محفوظ ہے۔‘‘
ہوابازی اتنی ہی محفوظ ہوتی ہے جتنا اس کا سب سے کمزور نظام اور بدقسمتی سے یہ کمزوریاں اب ٹیکنالوجی میں نہیں بلکہ اُن انسانوں میں ہیں جو اِن جہازوں کو اُڑانے، ریگولیٹ کرنے اور مینیج کرنے کے ذمہ دار ہیں۔
ابتدائی تحقیقات اور ایئر ٹریفک کنٹرول (ATC) کے جاری کردہ لاگز کے مطابق، ایئر انڈیا 171 نے اچھے موسم میں پرواز کی تھی۔ کاغذی طور پر تجربہ کار عملے نے مبینہ طور پر متعدد اہم پروٹوکولز کو نظرانداز کیا، جن میں ٹیک آف کی روٹیشن، اسپیڈ اور پرواز کے منصوبے سے انحراف سے متعلق وارننگز شامل تھیں، جو طیارے کے سسٹمز اور ٹاور کی طرف سے موصول ہوئیں۔ پرواز کے دو منٹ کے اندر ہی طیارے نے طاقت اور کنٹرول کھو دیا۔
ماہرین کے مطابق، یہ ممکنہ طور پر کوک پٹ کے غلط فیصلوں کا نتیجہ تھا، جس میں لینڈنگ گیئرز کے بجائے فلیپس اٹھا دینا شامل ہے۔
اسی طرح کا افسوسناک سانحہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (PIA) کی پرواز 8303 کو بھی، مئی 2020 میں کراچی ایئرپورٹ پر لینڈنگ کی کوشش کے دوران پیش آ چکا ہے۔ اُس حادثے میں 99 میں سے 97 افراد جاں بحق ہوئے۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ اس حادثے کی بڑی وجہ بھی انسانی غلطی تھی کیونکہ پائلٹس نے ایئر ٹریفک کنٹرول کی ہدایات کو نظر انداز کیا، بغیر لینڈنگ گیئرز کے لینڈنگ کی کوشش کی، جس سے جہاز کی گلائیڈ اسلوپ خراب ہوئی، انجنوں کو نقصان پہنچا، اور بالآخر ایک خطرناک گو اَراؤنڈ کی کوشش کی گئی جو جان لیوا ثابت ہوئی۔
دونوں حادثات میں آخری تباہی کوک پٹ میں رونما ہوئی، جب طریقہ کار سے لاپروائی، ریگولیٹرز کی خاموشی اور فضائی حفاظت کے اصولوں کو نظر انداز کیا گیا اور درجنوں بھارتی پائلٹوں کی ڈگریاں بھی جعلی نکلی مگر ان سب کے باوجود پی کے 8303 کے لیے ردعمل سخت اور فوری تھا۔
یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (EASA)، برطانیہ اور امریکا کے ریگولیٹرز نے پی آئی اے پر غیر معینہ مدت تک یورپی فضاؤں میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ یہ صرف ایک حادثے کا ردعمل نہیں تھا، بلکہ پاکستان کی ایئر لائن کو نقصان پہنچانا مقصود تھا اور پہنچایا بھی گیا جبکہ پی آئی اے کی مہارت کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے ہاں یہ ضرور ہوا کہ حفاظتی اور سیکیورٹی کی کچھ کمزوریوں اور آڈٹ رپورٹس، اُس وقت کے وزیرِ ہوا بازی کی مشہور تقریر نے ہوابازی کے نظام میں چونکا دینے والی بے ضابطگیاں ظاہر کیں۔
مشکوک پائلٹ لائسنس، پرانے سیفٹی مینولز اور ایک ناتواں ریگولیٹر لیکن تمام تر دعوؤں کے باوجود کہ ’’ہم نے سبق سیکھ لیا‘‘، یہ لگتا ہے کہ ایئر انڈیا اور بھارت کی ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن (DGCA) نے کچھ نہیں سیکھا البتہ پاکستان کے سول ایوی ایشن اور قومی ایئر لائن نے پیش آنے والے حادثے کے بعد نہ صرف سسٹم اپ گریڈ کیا بلکہ سیکیورٹی کے بھی سخت ترین قوانین کی پاسداری کی جس کی تصدیق امریکا، یورپ اور برطانوی ایئر سیکیورٹی کے اداروں سمیت بین الاقوامی سول ایوی ایشن اتھارٹی کی مختلف ٹیموں کی طرف سے پاکستان کے دورے مکمل کرنے کے بعد اپنی رپورٹ میں اقدامات پر مطمئن ہونے کا اظہار بھی کیا۔
پاکستان ایئر پورٹ اتھارٹی کے ذرائع کے مطابق دوسری طرف گزشتہ دو سالوں میں، خصوصاً نجکاری کے بعد، ایئر انڈیا کے پائلٹس نے تھکن، غیر حقیقی ڈیوٹی شیڈولز، اور دباؤ کے تحت پرواز کرنے کی شکایات کیں۔ حالیہ افشاں ہونے والی اندرونی میموز ظاہر کرتی ہیں کہ جہازوں کو اکثر Minimum Equipment List (MEL) کے تحت روانہ کیا گیا یعنی ایسے تکنیکی نقائص کے ساتھ جو بظاہر قانوناً قابلِ قبول تھے، لیکن سخت رسک مینجمنٹ پروٹوکول کے تحت۔ فرق یہ ہے کہ بھارتی ایئر لائنز نے MEL کو معمول کے طریقہ کار کے طور پر اپنایا ہوا ہے، نہ کہ استثنائی حالات کے تحت۔
مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ بھارتی سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) نے وہسل بلوورز کی شکایات پر سنجیدہ کارروائی نہیں کی۔ امریکا کی FAA، یورپ کی EASA، اور اب پاکستان CAA کی طرح بھارت کے ریگولیٹرز کے پاس نہ تو آزاد آڈٹ ادارے ہیں اور نہ شفاف تحقیقات کا کوئی مؤثر نظام۔ DGCA کی تحقیقات اکثر خفیہ رکھی جاتی ہیں اور شاذ و نادر ہی سخت اقدامات سامنے آتے ہیں، یہ ناقص ریگولیٹری کلچر صرف بھارت کا مسئلہ نہیں ہے۔ جب ایک جہاز کسی بھی بین الاقوامی ایئرپورٹ سے پرواز کرتا ہے تو وہ دنیا کے مشترکہ آسمان میں داخل ہوتا ہے۔
اگر ایئر انڈیا 171 یورپ کے فضائی حدود میں یا لندن میں، جو اس کی منزل تھی گر جاتا، تو اس کے جغرافیائی اور سیاسی اثرات شدید ہوتے۔ اسی لیے اب ذمہ داری عالمی ہوابازی کے ریگولیٹرز پر ہے۔ EASA، برطانیہ کا محکمۂ نقل و حمل، اور امریکا کا TSA فوری طور پر ایئر انڈیا اور بھارت کے تمام ایئر لائنز پر سیفٹی آڈٹ شروع کریں۔ اگر ان آڈٹس میں نظامی ناکامیاں سامنے آئیں، جیسے PIA کے ساتھ ہوا، تو بھارتی ایئرلائنز کو یورپی و امریکی فضاؤں میں اڑنے سے روکنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہوگا۔
واضح رہے، یہ بھارتی ہوا بازی کے خلاف نہیں کیونکہ بھارت نے عالمی معیار کے پائلٹس پیدا کیے ہیں اور پیچیدہ فضائی نظاموں کو بخوبی سنبھالا ہے لیکن جب اُس کی سب سے بڑی ایئر لائن 280 سے زائد افراد کی جان ایک ایسے حادثے میں گنوا بیٹھے جو مکمل طور پر ایوی ایشن کے اصولوں پر مکمل عمل درآمد مناسب نگرانی اور حفاظتی اقدامات کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اس کو چیک کرنے والوں نے روکا تو دنیا کو یہ خطرہ برداشت کرنا ہوگا۔
ایئر انڈیا 171 کا سانحہ صرف جانوں کا نقصان نہیں یہ وہ لاپروائیاں تھیں جنہیں سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ اگر ہم اب بھی سنجیدگی سے ردعمل نہ دے پائے، تو اگلا حادثہ ’’ہوگا یا نہیں‘‘ اس کا پتہ نہیں بلکہ ’’کہاں ہوگا‘‘۔
دوسری جانب قومی ایئر لائن پی آئی اے کی انتظامیہ اور پاکستان ایئر پورٹ اتھارٹی کو پورا یقین ہے کہ جلد ہی فرانس کی طرح برطانوی اور یورپ کے دیگر ممالک بھی پابندی ختم کر دیں گے اور پی آئی اے ایک بار پھر یورپ اور دیگر ممالک کی فضاؤں میں اڑتی نظر آئے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قومی ایئر لائن سول ایوی ایشن بین الاقوامی ایئر انڈیا اور امریکا کے پائلٹس پی ا ئی اے اور بھارت ہوا بازی کے مطابق بھارت کے کے ساتھ بازی کے کے تحت کے لیے
پڑھیں:
بگرام کا ٹرکٖ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پہلا دور صدارت ان کے گلے کو آگیا تھا۔ انہیں کسی چیز کا کچھ پتا ہی نہ تھا۔ ابھی حلف ہی نہ اٹھایا تھا کہ ان کے نامزد مشیر قومی سلامتی جنرل فلنگ ایف بی آئی کے ہتھے چڑھ گئے۔
صدارت شروع ہوئی تو جلد اپنی ہی ٹیم ان کا دھڑن تختہ کروانے پر تل گئی۔ بات مواخذے بلکہ مواخذوں تک پہنچ گئی۔ یوں اس دور صدارت کے بعد وہ خود ہی یہ کہتے پائے گئے کہ ہاں مجھے کچھ بھی سمجھ نہ آرہا تھا۔
یوں لگتا ہے اس دوسرے دور صدارت میں ان کی ایک مستقل حکمت عملی یہ ہے کہ خود کو ڈیڑھ شانڑاں باور کرایا جائے۔ اس کے لیے وہ طرح طرح کی مضحکہ خیز کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر اس معاملے میں ان کی ایک مستقل کوشش یہ بھی رہتی ہے کہ لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جائے۔ اور جب وہ ٹرک کا پیچھا شروع کردیں تو یہ خود پتلی گلی سے کٹ لیتے ہیں۔
کینیڈا کو امریکا کی 51 ویں ریاست بنانے اور گرین لینڈ کے حصول والا شوشہ ان کی ایسی ہی بتیاں تھیں۔ اسی ضمن میں ان کا نیا ٹرک افغانستان کا بگرام ایئربیس ہے۔ ہم اسے ٹرک کی بتی 2 وجوہات سے کہہ رہے ہیں۔ پہلی وجہ یورپ میں ہے اور دوسری ایشیا پیسفک میں۔
یہ بھی پڑھیں: دفاعی معاہدہ، سیاسی امکانات
پچھلے ڈیڑھ 2 ہفتوں کے دوران چار یورپین ممالک کی جانب سے یہ واویلا دیکھا گیا کہ رشین ڈرونز اور لڑاکا طیارے ان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
ان ممالک میں پولینڈ، اسٹونیا، رومانیہ اور ڈنمارک شامل ہیں۔ ان میں قدرے سیریس معاملہ پولینڈ کا لگتا تھا مگر وہ بھی یوں ڈرامہ ثابت ہوا کہ اپنی رینج کے لحاظ سے وہ ڈرونز رشیا سے پولینڈ پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ اور جب رشیا نے مشترکہ تحقیقات کی آفر کی تو پولینڈ انکار کرگیا۔ یورپین ممالک کے اس واویلے کی بابت آزاد عالمی ماہرین کی تقریبا متفقہ رائے یہ رہی کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یوکرین جنگ سے جوڑے رکھنے کی بھونڈی سی اسکیم ہے۔
اس رائے کے پیچھے ڈونلڈ ٹرمپ کی وہ حالیہ ٹویٹ کارفرما تھی جس میں انہوں نے روس پر مزید پابندیوں کا معاملہ اس بات سے مشروط کردیا تھا کہ یورپ پہلے رشین تیل خریدنا بند کرے۔
یہ ٹویٹ اس قدر جارحانہ تھی کہ ٹرمپ اس کے آخر میں یہ بھی کہہ گئے کہ اگر یورپ رشین تیل کی خریداری بند کرنے کو تیار نہیں تو پھر میرا وقت ضائع نہ کیا جائے۔
یہ وہی مجوزہ پابدیاں تھیں جن کے متعلق ٹرمپ نے روس کو پہلے پچاس پھر 10 دن کی مہلت دی تھی۔ ٹرمپ اور پیوٹن کی الاسکا والی ملاقات کا یہ نتیجہ تو دنیا دیکھ ہی رہی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد سے یوکرین کا ذکر بہت ہی کم کردیا ہے۔
یوں جب مذکورہ ٹویٹ بھی سامنے آگئی تو لگ بھگ طے ہوگیا کہ وہ یوکرین جنگ سے خود کو لاتعلق کر رہے ہیں۔ اسی لیے عالمی ماہرین کی پہلی رائے یہی بنی تھی کہ 4 یورپین ممالک کا فضائی حدود کی خلاف ورزی والا ڈرامہ درحقیقت امریکا کو یوکرین سے باندھے رکھنے کی کوشش ہے۔
مگر 3 روز قبل رائٹر نے ایک آرٹیکل کے ذریعے خبر دی ہے کہ سرحدی خلاف ورزی والے واویلے کے پیچھے اصل وجہ یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ٹرمپ انتظامیہ نے ای یو کو آگاہ کیا ہے کہ وہ بالٹک ریاستوں سے امریکی اڈے ختم کرنے کی تیاری میں ہے۔ کیونکہ امریکا اب ان فضول خرچیوں کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔
رائٹر کا کہنا ہے جب سے یہ میسج برسلز پہنچا ہے سرحدی خلاف ورزیوں والے ڈرامے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یورپ میں اپنی فوجی موجودگی میں بڑی کمی لانے کی بات ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار کہی تھی۔ اس معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال یہ ہے کہ سوویت یونین واقعی خطرہ تھا۔ لیکن روس سے یورپ کو کوئی خطرہ نہیں۔ وہ تو تیس سال قبل نیٹو ممبرشپ بھی مانگ رہا تھا جو ہم نے نہیں دی۔
گویا یورپ میں یہ اندیشہ پہلے ہی موجود تھا کہ ٹرمپ وہاں امریکی فوج کی تعداد میں بڑی کمی کرسکتے ہیں۔ ایسے میں فی الحال اگرچہ صرف 3 بالٹک ریاستوں سے امریکا کی فوجی موجودگی ختم کرنے کی بات ہوئی ہے مگر امکان یہی ہے کہ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو بات صرف بالٹک ریاستوں تک رہے گی نہیں۔
یوں گویا یورپین ممالک کا سرحدی خلاف ورزی والا واویلا یوکرین سے نہیں جڑا بلکہ یہ یورپین یونین کا اپنا معاملہ ہے۔ اور یہی ہے یورپ میں موجود وہ وجہ جس کے تحت ٹرمپ کی جانب سے بگرام ایئربیس والا شور محض ٹرک کی بتی لگاتا ہے۔
ایشیا پیسفک سے جڑی وجہ یہ ہے کہ امریکی فوج اور سی آئی اے کے سابق افسران انٹرویوز ہی نہیں بلکہ اپنے لکھے تجزیوں میں بھی یہ بات کر رہے ہیں کہ امریکا نے اچانک ایشیا پیسفک میں بھی فوجی موجودگی کم کرنی شروع کردی ہے۔ اس حوالے سے جنوبی کوریا اور جاپان کا خاص طور پر ذکر آیا ہے۔
جنوبی کوریا نے تو اس کی صاف تردید کی ہے لیکن پینٹاگون کی جانب سے معنی خیز تردید آئی۔ کہا گیا ’ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا‘ الفاظ کا یہ چناؤ صاف بتا رہا ہے کہ کچھ نہ کچھ چل رہا ہے۔ جاپان والے معاملے میں تو تردید بھی اب تک نہیں آئی۔ جاپانی جزیرے اوکی ناوا سے 9000 یو ایس میرین کم کرنے کا پلان بتایا جا رہا ہے۔ اور کہا جا رہا ہے کہ ان میں سے 4000 اب تک وہاں سے نکالے بھی جا چکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان اور کوریا دونوں کو مبینہ طور پر بتایا یہ گیا ہے کہ یہ فوجی گوام کے امریکی بیس پر منتقل کئے جا رہے ہیں جو پیسفک میں ہی واقع ہے۔
مزید پڑھیے: چارلی کرک کا قتل
لیکن ریٹائرڈ امریکی افسران کا کہنا ہے کہ یہ ان ممالک کی تسلی کے لئے کہا گیا ہے۔ فوجیوں کو گوام پہنچانے کے بعد اگلے مرحلے میں امریکا پہنچایا جا رہا ہے۔
ان ریٹائرڈ امریکی افسران کا کہنا ہے کہ چین کو گھیر نے کی بچی کھچی امیدیں بھی اس کی حالیہ وکٹری ڈے پریڈ سے دم توڑ گئی ہیں۔ اس پریڈ کے بعد امریکا اس معاملے میں یکسو ہوچکا کہ چین کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا۔ لہٰذا ایشیا پیسفک میں فوجی موجودگی کم کرنا ہی دانشمندی ہے۔ ان افسران کا کہنا ہے کہ امریکا اب بس بر اعظم امریکا پر ہی فوکسڈ رہنا چاہتا ہے۔ کیونکہ اس کی معاشی و سیاسی ہی نہیں بلکہ عسکری ساکھ بھی اب بڑے پنگے لینے والی نہیں رہی۔
اس پورے پس منظر میں یہ سوال غیر معمولی ہوجاتا ہے کہ اگر امریکا یورپ اور ایشیا پیسفک سے ہی اپنی فوجیں کم کر رہا ہے۔ بعض اڈے بھی بند کرنے کی تیاری میں ہے تو بگرام والے ایئربیس کا اس نے اچار ڈالنا ہے؟
اگر وہ وہاں سے چین کے خلاف کچھ کرنے کی سکت رکھتا تو افغانستان سے انخلاء ہی کیوں کرتا ؟ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ دوحہ مذاکرات میں یہ کوشش ہوئی تھی کہ طالبان کو کچھ امریکی ملٹری بیسز برقرار رکھنے پر آمادہ کیا جاسکے۔
مزید پڑھیں: بڑا جی ڈی پی، چھوٹی اوقات
مگر جب وہ ایک بیس بھی دینے کو تیار نہ ہوئے تو معاہدہ مکمل انخلاء کا ہی ہوا۔ سو ہمیں نہیں لگتا کہ ٹرمپ واقعی بگرام ایئربیس حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بگرام بس ایک ٹرک ہے جس کی بتی کے پیچھے دوڑنا دانشمندی نہ ہوگی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں