امریکی وزیر دفاع کا میڈیا پر الزام: کچھ حلقے صدر ٹرمپ کی کامیابی کے مخالف
اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکی وزیر دفاع نے ایران پر کیے گئے حملے کے بعد پینٹاگون میں پریس کانفرنس کے دوران امریکی میڈیا پر شدید تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی افواج نے ایران کی جوہری صلاحیت کو تباہ کرنے میں غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا، لیکن کچھ امریکی میڈیا ادارے من گھڑت خبریں چلا کر اس کامیابی کو کمزور دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پیٹ ہیگسیتھ کا کہنا تھا کہ بعض حلقے ایسے ہیں جو نہیں چاہتے کہ صدر ٹرمپ کو کوئی کامیابی ملے، اسی لیے وہ اس کامیاب مشن پر بھی سوالات اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) اور سی آئی اے کی رپورٹس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے مشترکہ حملوں میں ایران کی جوہری تنصیبات کو ایسا نقصان پہنچا ہے جسے دوبارہ بحال کرنے میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔
پریس کانفرنس میں امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ڈین کین بھی موجود تھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ایران کی جانب سے قطر میں موجود امریکی ائیربیس پر میزائل حملے سے قبل امریکی فوج کو پیشگی اطلاع مل گئی تھی، جس کی بنیاد پر نہ صرف حفاظتی اقدامات کیے گئے بلکہ تمام میزائل حملے ناکام بنا دیے گئے۔
جنرل ڈین کین نے “آپریشن مڈنائٹ ہیمر” کو ایک تاریخی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ ہماری افواج نے غیر معمولی مستعدی اور پیشہ ورانہ مہارت سے اپنا کام انجام دیا۔ انہوں نے اس آپریشن میں شریک تمام فوجیوں کا شکریہ ادا کیا۔
پینٹاگون کی اس بریفنگ میں وہ ویڈیو بھی دکھائی گئی جس میں ایرانی جوہری تنصیبات پر گرائے جانے والے خصوصی بموں کی کارکردگی دکھائی گئی تھی۔ وزیر دفاع نے واضح کیا کہ ایران اب عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، حالانکہ اسے جوہری پروگرام میں شدید دھچکا لگا ہے۔
انہوں نے آخر میں کہا کہ صدر ٹرمپ اب بھی بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے کے خواہشمند ہیں، مگر ایران کو اپنی روش بدلنی ہوگی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انہوں نے
پڑھیں:
دباؤ میں ایران یورینیم کی افزودگی ترک نہیں کرے گا، خامنہ ای
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 ستمبر 2025ء) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ بات چیت کو "واضح طور پر بلا مقصد" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تہران امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت نہیں کرے گا۔
منگل کے روز ایران کے سرکاری ٹیلیویژن پر ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت نشر ہوا، جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر عموماً سفارتی مذاکرات کیے جاتے ہیں۔
جوہری پروگرام کے حوالے سے ایران پر آئندہ چند روز بعد ہی دوبارہ پابندیاں نافذ ہونے والی ہیں اور اسی سلسلے میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے منگل کے روز ہی ای تھری نامی یورپی ممالک جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے ساتھ ہی یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس کے ساتھ ملاقات کی۔
(جاری ہے)
خامنہ ای نے مزید کیا کہا؟
ایران کے رہبر اعلی خامنہ ای نے اپنے ریکارڈ شدہ خطاب میں کہا، "امریکہ نے مذاکرات کے نتائج کا پہلے سے اعلان کر دیا ہے۔
اس کا نتیجہ جوہری سرگرمیوں اور افزودگی کی بندش ہے۔ یہ کوئی مذاکرات نہیں، بلکہ یہ ایک حکم ہے، جو مسلط کیا جا رہا ہے۔"انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران یورینیم کی افزودگی ترک کرنے کے دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم نے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی ڈالیں گے۔"
یورپی ممالک کا کہنا ہے کہ وہ پابندیوں کی آخری تاریخ میں توسیع کے لیے اس شرط پر تیار ہوں گے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات دوبارہ شروع کرے۔
ان کی دو شرائط اور ہیں کہ تہران اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کو اپنے جوہری مقامات تک رسائی کی اجازت دے اور اس انتہائی افزودہ یورینیم کے 400 کلوگرام سے زیادہ کا حساب بھی دے، جو اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کے بقول اس نے افزودہ کی تھی۔
یورپی ممالک کے ساتھ بات چیت؟اطلاعات ہیں کہ منگل کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر عباس عراقچی اور یورپی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی میٹنگ میں زیادہ پیش رفت نظر نہیں آئی۔
جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول نے اسے "خاص طور پر اچھا نہیں" قرار دیا۔نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر جرمن وزیر خارجہ نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران کو کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن انہوں نے مزید کہا، "پابندیوں کے نفاذ سے پہلے سفارتی حل تک پہنچنے کے امکانات بہت کم ہیں۔
"فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ وہ بدھ کے روز ایرانی صدر مسعود پزیشکیان سے ملاقات کریں گے تاکہ معاہدے پر عمل کیا جا سکے، تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ "یا تو ایران کوئی اشارہ کرتا ہے اور امن اور احتساب کے راستے پر واپس چلا جاتا ہے۔۔۔۔ یا پھر پابندیاں عائد کرنا ہوں گی۔"
ایران کی وزارت خارجہ نے کہا کہ "اس بات پر اتفاق ہوا کہ تمام فریقین کے ساتھ مشاورت جاری رہے گی۔
"ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کو ہفتے کے آخر تک اپنے برطانوی، فرانسیسی، جرمن اور یورپی یونین کے ہم منصبوں کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کا وقت دیا گیا ہے تاکہ تہران اقوام متحدہ کی ان پابندیوں کی بحالی سے بچ سکے، جو 2015 میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت معطل کر دی گئی تھیں۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس نے کہا کہ یورپی مذاکراتی ٹیم کو پابندیوں سے بچنے کے لیے ایران کی جانب سے "کچھ حقیقی کارروائی" دیکھنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا، "سفارت کاری کا ایک موقع ہے۔ ڈیڈ لائن چل رہی ہے اور اب آئیے دیکھتے ہیں۔ ہمیں ایران کی جانب سے بھی کچھ حقیقی کارروائی دیکھنے کی ضرورت ہے۔"
ایران نے بارہا جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی تردید کی ہے، تاہم اس کا کہنا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے جوہری توانائی حاصل کرنے کے اپنے حق سے دستبردار نہیں ہو گا۔
خامنہ ای کی تقریر نے تہران کے اسی نظریے کی پھر توثیق کی ہے، جن کا کہنا تھا کہ "ایران جوہری ہتھیار نہیں چاہتا، لیکن وہ بین الاقوامی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔"
ادارت: جاوید اختر