Jasarat News:
2025-06-27@02:09:45 GMT

وقف کی اسلامی روایت

اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

انسانی خدمت کے اس اداراتی نظام کا آغاز خود رسول کریمؐ کی ذات گرامی سے ہوا۔ مخیریق نام کا ایک یہودی تھا، جنگ احد میں شریک ہوا۔ وہ مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ لڑا اور اسی جنگ میں مارا گیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ اگر میں مارا جاؤں تو میری جائیداد محمدؐ کو دے دی جائے تاکہ وہ اللہ کی رضا کے مطابق تصرف میں لائیں۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’مخیریق اچھا یہودی تھا‘‘ (ابوجعفر ابن جریر طبری، تاریخ الطبری)۔ مخیریق کے سات باغ تھے، رسول کریمؐ نے ان کو اپنے قبضے میں لیا اور فی سبیل اللہ وقف کردیا‘‘ (برہان الدین الطرابلسی، الاسعاف فی احکام الاوقاف)۔
اسلامی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو رسول کریمؐ کے ہاتھوں انجام دیا گیا۔ دوسرا وقف خلیفۂ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کا تھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’عمرؓ کو خیبر میں ایک زمین ملی تو انھوں نے رسول کریمؐ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے خیبر میں ایک مال ملا ہے جس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ نبیؐ نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو اس کے اصل مال کو باقی رکھو اور اس کی آمدنی کو صدقہ کردو، مگر شرط یہ ہوگی کہ اصل مال نہ بیچاجائے گا، نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ وراثت میں جائے گا۔ عبداللہ ابن عمرؓ نے کہا کہ عمرؓ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کردیا کہ نہ وہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ اس میں وراثت جاری ہو۔ اس کی آمدنی فقرا، قرابت داروں، غلام کی آزادی، مہمان اور مسافر کے لیے ہوگی (الصحیح البخاری، کتاب الشروط)۔

صدر اسلام کا تیسرا وقف خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنیؓ نے کیا تھا۔ اس وقف کی تاریخ خود عثمان غنیؓ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’جب نبی کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو وہاں رومہ کنواں کے سوا کوئی میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا۔ نبیؐ نے فرمایا: کون ہے جو بیرِ رومہ کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے گا؟ اس کی وجہ سے جنت میں اسے خیر ملے گی، تو میں نے اپنے اصل مال سے اس کنواں کو خرید لیا اور اس میں اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرلیا‘‘ (سنن ترمذی، ابواب المناقب)۔
اس کے بعد صحابہ کرامؓ میں خدمت خلق کے لیے زمین، جائیداد وقف کرنے کا رجحان عام ہوگیا، اور لوگ کثرت سے رفاہی کاموں کے لیے جائداد وقف کرنے لگے۔ عرب اور عجم کے ملکوں میں مسلمانوں نے وقف کا ایک بے مثال نمونہ قائم کردیا۔ مسلمان جہاں بھی گئے خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے لیے مال وجائداد وقف کرتے رہے۔ حجاز سے لے کر اندلس تک، ایران سے لے کر ازبکستان تک، ترکی سے لے کر مراقش تک اور مصر وشام سے لے کر ہندستان، پاکستان اور انڈونیشیا تک مسلمانوں نے عام انسانوں کی بھلائی اور ترقی کے لیے بے دریغ جائداد وقف کی۔ وقف کی املاک سے مسلم اور غیر مسلم ہر طبقے کے انسانوں کو فیض پہنچا۔ کیوں کہ جائیداد مسجد وخانقاہ کے علاوہ ہسپتال، سرائے، لنگر اور تعلیم گاہوں کے لیے بھی وقف کی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے صرف انسان نہیں بلکہ حیوانات اور پرندوں کی خوراک کے لیے بھی جائداد وقف کی۔ وقف کی یہ روشن روایت آج بھی آگے بڑھ رہی ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: رسول کریم سے لے کر کے ساتھ وقف کی کے لیے

پڑھیں:

ایران نے کس کس طبقے کو طمانچہ رسید کیا! 

اسلام ٹائمز: حق دفاع سے تو کوئی احمق ہی ایران کو روک سکتا تھا، جبکہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ایران نے ان فرعونوں کو سیز فائر کا یکطرفہ اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ تاحال ایران نے سیز فائر کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ اب آنیوالا وقت بتائے گا کہ یکطرفہ حملہ کرکے اپنے منصوبوں میں نامراد رہنے والوں کیطرف سے سیز فائر، جو کہ درحقیقت اعتراف شکست ہی ہے، اس پر یہ قائم رہتے ہیں یا نہیں اور اگر یہ قائم نہیں رہتے تو انکو اب بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ انقلاب اسلامی انہیں مزید طاقت کیساتھ جواب دینے سے ہرگز نہیں کترائے گا۔ جتنی ذلت انکے حصے میں آچکی ہے، یہ مزید ذلت آمیز حملوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔ تحریر: شریف ولی کھرمنگی، بیجنگ


نام نہاد مہذب مغربی ممالک بالخصوص امریکی و نیٹو اتحاد کی کمک سے حالیہ صیہونی جارحیت سے قبل رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا تھا کہ ہم انہیں بھرپور طمانچہ رسید کریں گے۔ انہوں نے عملاً تاریخی طمانچہ رسید کیا اور دنیا سے منوایا۔  جارح قوتوں کی تدبیریں اپنی موت آپ نہیں مریں، بلکہ انقلاب اسلامی کی جرات و ہمت نے انہیں گھٹنوں پر آنے اور خود ہی جنگ بندی کا اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ یہ وہی فرعونی ریاست ہے، جس نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، 70 ہزار بے گناہ انسانوں کو قتل کر دیا، دو سال سے جاری اس جارحیت میں تاحال یہ اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکے، لیکن وہاں اسے سیز فائر پر قائل نہیں کرسکا۔ نہ کسی عرب ملک کی کوشش سے ایسا ممکن ہوسکا، نہ ہی پاکستان جیسے ممالک کیطرف سے امن کے سفیر کہلانے والے صیہونی ریاست سرپرست کو سیز فائر کیلئے پھرتی دکھانے کی ضرورت پڑی۔ یعنی ثابت ہوا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

اس پورے دورانیئے میں پاکستان کے بعض دیسی بدفہم سقراط عوام کو اپنی طرح بیوقوف بنانے کی کوششوں میں مصروف رہے۔ غزہ میں ستر ہزار بے گناہوں کو قتل کرنے والے درندوں کی بدمعاشی اور ناجائز حملوں کے باوجود کچھ لوگ ایران کو کہتے رہے کہ وہ تنازع میں نہ پڑے، پنگے مت لے۔ حالانکہ بچے بھی جانتے ہیں کہ تنازع کس نے شروع کیا، پنگہ کس نے کیوں لیا اور مذاکرات کون کرتا رہا۔ ایران نے ایسی واہیات حرکتوں کا عملی جواب دیا اور وہ بھی بھرپور طریقے سے دیا۔ رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی کی مدبرانہ قیادت میں ایران کے اقدامات نہ صرف پاکستان کے بدفہم لکھاریوں کو شٹ اپ کال دینے تک محدود نہیں، ان کی نہ کوئی مقامی حیثیت ہے، نہ ہی ان کی محدود سوچ عالمی مسائل کو سمجھنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ایران نے ہر اس شخص کو ہمیشہ کیلئے سبق یاد کرایا، جو فرعونِ وقت کی طاقت، ٹیکنالوجی، اتحاد، معیشت، جاسوسی نیٹ ورک اور نام نہاد جدت سے مرعوب تھا۔

جو اپنی بادشاہت کو بچانے کیلئے سب کچھ ان مغربی طاقتوں کے آگے نچھاور کرنا ضروری سمجھتے رہے، یہاں تک کہ اپنی لڑکیوں تک کو۔ ایران نے ثابت کیا کہ انسانیت، قومی غیرت اور اسلامی اقدار سب سے اہم ہیں اور وہ مظلوم کی حمایت اور اپنے ملکی وقار پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں کرتا۔ ایک طرف ان بدعقل مسلک پرستوں کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا گیا، جو کہتے تھے کہ ایران اور اسرائیل اندر سے ملے ہوئے ہیں اور کبھی ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے۔ دوسری طرف ان کو بھی منہ توڑ جواب دیا گیا، جو دعویٰ کرتے تھے کہ ایران پراکسی جنگوں کے ذریعے مسلمانوں کو مرواتا ہے اور خود کوئی نقصان نہیں اٹھاتا۔ وہ محدود سوچ والے بھی شرمندہ ہوئے، جو کہتے تھے کہ ایران مغربی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتا۔

وہ بے وقوف طبقہ جو ایران کی سائنسی ترقی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا، اب منہ نہیں کھولتا۔ اسی طرح ان کا بھی منہ بند کر دیا گیا، جو کہتے تھے کہ ایران میں ملاؤں کی آمریت ہے اور عوام کی اکثریت ان سے نفرت کرتی ہے۔ وہ احمق بھی اپنا سا منہ لیکر رہنے پر مجبور ہیں، جو بکواس کرتے تھے کہ ایران روس اور چین کے سہارے چند میزائل بنا سکتا ہے، لیکن ان کے بغیر وہ امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈال دے گا۔ وہ تمام سازشی عناصر جو شہنشاہیت کے خواب دیکھ رہے تھے، نظامِ اسلامی کے خاتمے کی خواہش رکھتے تھے اور رہبرِ معظم کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے تھے، وہی اب ایران کے مسلسل اور منہ توڑ جوابی حملوں کے بعد سیز فائر کے لیے عالمی میڈیا پر خبریں پھیلانے پر مجبور ہیں۔

ایران کے جنرلوں اور سائنسدانوں کو تخریب کاری کے ذریعے شہید کرنے والے انسانیت کے دشمن سمجھتے تھے کہ انہیں کوئی جواب نہیں ملے گا۔ یہ فرعونِ وقت اپنے خیال میں ایران کی نیوکلیئر تنصیبات، دفاعی نظام اور جاسوسی نیٹ ورک کے ذریعے نظامِ مملکت کو تبدیل کرچکے تھے۔ صیہونی ریاست، نیٹو کی مادی و سفارتی امداد اور عرب و ترک معاشی حمایت کے ساتھ، ان اہداف کے حصول کے لیے پرعزم تھی۔ وہ سمجھتے رہے کہ ایران کو شام اور غزہ کی طرح تباہ کرکے ناجائز مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے قابضین کو ہمیشہ کے لیے عیاشی کا سامان فراہم کر دیں گے۔ ان شیطانی چالوں کو فرقہ وارانہ اور لبرل تنگ نظری کی بھی بھرپور اور مسلسل حمایت حاصل رہی۔ ایک طبقہ ایران کو ٹیکنالوجی سے عاری ثابت کرنے میں لگا رہا، جبکہ دوسرا اسے اسلامی ممالک کے خلاف قرار دینے کی کوشش کرتا رہا۔

لیکن ایران نے ایک کے بعد ایک، نیٹو اتحاد کو میزائلوں سے ذلیل کیا، تو دوسری طرف امریکی براہ راست حملوں کو پٹاخے سے زیادہ اہمیت نہ دی۔ اس نے صیہونی شہروں کو آگ اور دھوئیں کی نذر کیا اور صیہونی اڈوں پر حملہ کرکے مشرقِ وسطیٰ میں ان کی طاقت کو ہمیشہ کے لیے بے اثر ثابت کیا۔ یہی نہیں کہ گلف کے ان خائن حکمرانوں کو بھی پیغام ملا کہ تم امریکی حفاظت میں ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکتے، جبکہ خود امریکی اپنے بحری بیڑے اور زمینی فوج اور ساز و سامان سمیت اس خوف سے وہاں سے ہٹانے پر مجبور ہوگئے کہ ایرانی میزائل انہیں حیفا اور تل ابیب کی طرح تہس نہس نہ کر دیں۔ ایران نے صیہونی اور مغربی انسان دشمن حرکات کو ہر طرح سے پست ثابت کیا، جو عام شہریوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ ہسپتالوں، سکولوں، شہری آبادیوں غرض ہر چیز کو ملیامیٹ کرکے مظلومت کا رونا دھونا بھی خود رچاتی ہے۔

دوسری جانب اپنے عظیم کمانڈروں، سائنسدانوں اور شہریوں کی شہادتوں کے باوجود، ایران نے اپنے میزائل حملوں کو فوجی، جاسوسی اور معاشی اہداف تک محدود رکھا۔ شہری آبادیوں کو ٹارگٹ کرنے پر قدرت رکھنے کے باوجود انہیں ٹارگٹ نہیں کیا۔ اگر کسی کو اخلاقیات اور انسانی اقدار کا ذرا سا بھی شعور ہے، تو اس سے بڑا اخلاقی طمانچہ کیا ہوسکتا ہے، جو ایران نے ان فرعونوں کو رسید کیا۔؟ ان اقدامات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ رہبرِ معظم انقلابِ اسلامی بڑے پیمانے پر انسان کشی کا سبب بننے والے نیوکلیئر ہتھیار بنا کر ڈیٹرنس کو ضروری کیوں نہیں سمجھتے، جبکہ اپنے ہائپر سونک میزائلوں سے شہادتوں کا بدلہ ہلاکتوں سے لینا ان کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ اب جن دانشوروں کو یہ حقائق ماننے میں مشکلات درپیش ہیں، وہ اگر مسلکی اختلاف کیوجہ سے مجبور ہیں تو خود صیہونی اور امریکی اڈوں پر ایران سے بڑا حملہ کرنے کا آپشن رکھتے ہیں۔

اگر لبرل کہلانے والوں کو یہ مشکل ہے تو انہیں چاہیئے کہ لبرل ازم کی الف با سے واقفیت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ فرعون صفت طاقتوں کی من مانیوں کے آگے تسلیم ہونے کے مشورے لبرل ہونا ثابت کرتا ہے، نہ ہی ان کو منہ توڑ جواب دینے کا ہٹ دھرمی میں تسلیم نہ کرنا۔ جن کو نفسیاتی ایشوز ہیں، ان کو کوئی نتیجہ قائل نہیں کرسکتا اور جن کو مغربی ممالک سے شدید قسم کا عشق لاحق ہے، وہ ان کے گوبر کو بھی حلوہ ثابت کرنے والے ہی رہیں گے، حالانکہ ان کی بینا آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ غنڈہ گردی کی تمام حدیں انہی نام نہاد مغربی مہذب طاقتوں نے توڑ دیں، انسان کشی کی کوئی انتہاء نہیں چھوڑی، عالمی قوانین کو روندنے میں کوئی شرم محسوس نہیں، عالمی عدالت انصاف سے مجرم قرار دینے والے کے ہر جرم کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا اور دے رہے ہیں۔

جن پر پوری دنیا میں آزاد سوچ رکھنے والے بلاتفریق مذہب و علاقہ سراپا احتجاج ہیں اور حق دفاع سے تو کوئی احمق ہی ایران کو روک سکتا تھا، جبکہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ایران نے ان فرعونوں کو سیز فائر کا یکطرفہ اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ تاحال ایران نے سیز فائر کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ اب آنے والا وقت بتائیگا کہ یکطرفہ حملہ کرکے اپنے منصوبوں میں نامراد رہنے والوں کی طرف سے سیز فائر، جو کہ درحقیقت اعتراف شکست ہی ہے، اس پر یہ قائم رہتے ہیں یا نہیں اور اگر یہ قائم نہیں رہتے تو ان کو اب بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ انقلاب اسلامی انہیں مزید طاقت کیساتھ جواب دینے سے ہرگز نہیں کترائے گا۔ جتنی ذلت ان کے حصے میں آچکی ہے، یہ مزید ذلت آمیز حملوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • گورنر خیبر پختونخوا فیصل کنڈی کی شرجیل میمن سے ملاقات
  • غزوۂ حنین: دیانت داری کی عملی مثال
  • مُراد ِرسول ﷺسیدنا عمر فاروقؓ
  • گورنر کے پی کی شرجیل میمن سے ملاقات، عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر حکومت سندھ کی تعریف
  • تمہیں یارو مبارک ہو عمرؓ ابن خطاب آیا
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  •  یہود ہو یا ہنود وہ شیعہ اور سنی کی تمیز سے ہٹ کر اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتا ہے، فاروق خان سعیدی 
  • ایران نے کس کس طبقے کو طمانچہ رسید کیا! 
  • وزیراعلیٰ جواب دیں آپ کیخلاف ایف آئی آر کیسے ختم ہوئی؟، گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی