فیصلہ سازی کا فقدان، پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی ختم کرنے کی تجویز،صرف کور کمیٹی کو فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو گا WhatsAppFacebookTwitter 0 27 June, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)پاکستان تحریک انصاف کی قیادت میں فیصلہ سازی کے فقدان کے باعث سیاسی کمیٹی ختم کرنے کی تجویز سامنے آگئی۔
ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے گزشتہ ملاقات میں فیصلہ سازی اور سیاسی حکمت عملی میں سستی کا شکوہ کیا تھا، مرکزی قیادت نے بانی پی ٹی آئی سے سیاسی کمیٹی ختم کرنے کی تجویز کی منظوری مانگی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی بھی سیاسی کمیٹی ختم کرنے پر رضا مند تھے، سیاسی کمیٹی کے خاتمے کے بعد صرف کور کمیٹی کو فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہو گا۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ پارٹی کے اندر فیصلہ سازی کے عمل کو تیز اور موثر بنانے کے لیے اس تجویز پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ بانی پی ٹی آئی اور مرکزی قیادت کے درمیان اس حوالے سے مشاورت جاری ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیر داخلہ سے امریکی سفیر کی ملاقات، خطے میں قیام امن کیلئے پاکستانی کوششوں کی تعریف وزیر داخلہ سے امریکی سفیر کی ملاقات، خطے میں قیام امن کیلئے پاکستانی کوششوں کی تعریف رونالڈو کا النصر سے مہنگا ترین معاہدہ، یومیہ کتنی تنخواہ و مراعات لیں گے؟،تفصیلات سب نیوز پر فوج کو سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، برائے مہربانی فوج کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے،ڈی جی آئی ایس.

.. ایس سی او اجلاس: خواجہ آصف کے بعد بولنے کی بھارتی وزیر دفاع کی درخواست مسترد بنگلہ دیش کی اکثریت پاکستان کو بھارت سے بہتر دوست سمجھتی ہے، سروے میں انکشاف اسرائیل جارحیت کے دوران ایران سے مسلسل رابطے میں تھے، اسحاق ڈار TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: سیاسی کمیٹی ختم کرنے کی تجویز فیصلہ سازی پی ٹی آئی

پڑھیں:

سندھ بجٹ: کم از کم تنخواہ 42 ہزار کرنے کی تجویز پر صنعتکاروں کے تحفظات

کراچی:

صنعتی شعبے نے سندھ حکومت کی جانب سے کم از کم اجرت 42 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کی تجویز پر تحفظات کا اظہار کردیا۔

کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری (کاٹی) کے صدر جنید نقی نے کہا ہے کہ یہ تجویز سندھ کی معیشت، روزگار کی فراہمی اور صنعتی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی۔ حکومت کو معیشت کی اصل صورتحال اور زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ جب ملک میں مہنگائی کی شرح 6 فیصد سے زیادہ نہیں تو کم از کم اجرت میں اتنا زیادہ اضافہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کم از کم اجرت 37 سے 40 ہزار روپے کے درمیان ہے اور اگر سندھ نے 42 ہزار روپے کی حد مقرر کی تو یہ پورے ملک میں سب سے زیادہ ہوگی، اس صورتحال میں سرمایہ کاری سندھ سے دیگر صوبوں کی طرف منتقل ہونے کا خدشہ ہے اور روزگار کے مواقع بھی متاثر ہوں گے۔

جنید نقی نے واضح کیا کہ آج بھی جب کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ہے تو ایک مزدور پر مجموعی خرچ 61 ہزار روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ اس تفصیل میں 37 ہزار روپے بنیادی تنخواہ کے علاوہ 4,500 روپے ای او بی آئی اور سیسی کی ادائیگیاں شامل ہیں۔ اسی طرح سالانہ ایک ماہ کی تنخواہ کے برابر 3,100 روپے بونس، ایک ماہ کی گریجویٹی کی مد میں 3,100 روپے، سالانہ چھٹیوں کی ادائیگی کے طور پر 1,500 روپے، اوور ٹائم کی مد میں (25 گھنٹے ماہانہ کے حساب سے) 8,000 روپے اور دیگر مراعات کی مد میں 3,800 روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ یوں ایک مزدور پر ماہانہ مجموعی خرچ تقریباً 61,000 روپے بنتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اوور ٹائم بڑھا کر 48 گھنٹے کر دیا جائے تو یہ خرچ 69 ہزار روپے سے تجاوز کر جاتا ہے جو سندھ میں صنعتوں کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں غیر مسابقتی بنا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال سندھ کے صنعتکاروں کو نہ صرف مالی نقصان پہنچا رہی ہے بلکہ انہیں شدید کاروباری دباؤ کا بھی سامنا ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ سیسی اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی رپورٹس کے مطابق سندھ میں 80 فیصد صنعتیں اس قانون پر عمل نہیں کر رہیں۔ مزدوروں کی ایک بڑی تعداد غیر رسمی شعبے میں کام کر رہی ہے جہاں انہیں اوور ٹائم، چھٹیاں یا دیگر مراعات حاصل نہیں۔ اکثر مزدوروں کو 10 گھنٹے روزانہ کام کے باوجود 30 ہزار روپے سے بھی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہ فرق نہ صرف غیر منصفانہ ہے بلکہ شہری علاقوں میں بے چینی اور بدامنی کا سبب بھی بن رہا ہے۔

جنید نقی نے کہا کہ رپورٹس کے مطابق غیر رسمی طور پر جو ادارے مزدوروں کو کم اجرت دے رہے ہیں ان کی وجہ سے قانونی طور پر پوری تنخواہ ادا کرنے والے اداروں کے درمیان مسابقت میں واضح فرق پیدا ہو رہا ہے اسی طرح اجرت میں کمی سے مزدوروں میں بھی احساس محرومی کا احساس جنم لے رہا ہے جس سے بد امنی اور غیر متوقع صورتحال کا خدشہ ہے۔ دوسری جانب جو ادارے قانونی طور پر تنخواہیں ادا کر رہے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔

کاٹی کے صدر نے کہا کہ یونینز کو منظم طور پر کمزور کیے جانے کی وجہ سے 90 فیصد مزدور اب بھی اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ جب تک لیبر قوانین پر مؤثر عملدرآمد نہیں ہوتا، اجرت بڑھانے کا فیصلہ محض کاغذی کارروائی ہی رہے گا جس کا فائدہ صرف چند غیر رسمی اداروں کو ہوگا جو پہلے ہی قانون سے بچ کر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ سندھ میں لیبر لاگت میں بے تحاشا اضافے کے سبب صنعتیں دیگر صوبوں کا رخ کرسکتی ہیں جہاں مزدوری کے اخراجات کم اور بنیادی سہولیات بہتر ہیں۔ اس عمل سے سندھ کی معیشت کمزور ہو گی، روزگار کے مواقع کم ہوں گے اور صوبے کے مالی وسائل پر دباؤ بڑھے گا۔

متعلقہ مضامین

  • سپریم کورٹ کا فیصلہ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں کس جماعت کو کتنی مخصوص نشستیں ملیں گی؟،تفصیلات سب نیوز پر
  • عدالتی فیصلہ خوش آئند، ایسی جماعت جو پارلیمنٹ میں موجود ہی نہیں،وہ مخصوص سیٹیں کیسے حاصل کرسکتی ہے،راناثنااللہ
  • وفاقی کابینہ کا بڑا فیصلہ:پیٹرولیم لیوی کا اختیار پیٹرولیم ڈویژن کے سپرد
  • وفاقی کابینہ کا اہم فیصلہ، پیٹرولیم لیوی کا اختیار پیٹرولیم ڈویژن کو منتقل
  • وزارت خارجہ میں بڑی تبدیلیاں، متعدد ممالک میں پاکستانی سفیروں کے تبادلے، تفصیلات سب نیوز پر
  • بانی پی ٹی آئی کی ہدایات موصول نہ ہونے کی وجہ سے ہم کسی مشاورت یا فیصلے کا حصہ نہیں ہیں، اسد قیصر
  • سندھ بجٹ: کم از کم تنخواہ 42 ہزار کرنے کی تجویز پر صنعتکاروں کے تحفظات
  • اسد قیصر نے کسی مشاورت یا فیصلے کا حصہ نہ ہونے کی وجہ بتادی
  • لاہور ہائیکورٹ : نظر بندی قانون کی بحال کا تحریری فیصلہ جاری، غلط استعمال پر سزا اور جرمانے کی تجویز