پنجاب اسمبلی میں مریم نواز نے غصے سے دیکھا تو ڈپٹی سپیکر ،وزرا نے اپوزیشن کی طرف دوڑ کیوں لگائی ؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, June 2025 GMT
پنجاب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اسپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے ایوان میں وارننگ جاری کی گئی کہ اگر اپوزیشن گیلری میں اگر کسی مہمان نے کوئی نعرے بازی کی تو گارڈز انہیں گیلری سے باہر نکال دیں گے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی کی ایوان میں اس وارننگ کے بعد ،وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے بجٹ مکمل ہونے پر اپنی تقریر شروع کی ،تو اپوزیشن نے ایوان کے اندر نعرے لگانے شروع کردیے کہ ’کون بچائے گا پاکستان، عمران خان عمران خان‘، کے نعرے لگانے شروع کردیے، پھر اپوزیشن کے ارکان اسمبلی نے اپنی سیٹوں سے اٹھ کر وزیراعلیٰ مریم نواز کے سامنے پلے کارڈ اٹھا کر احتجاج کرنا شروع کردیا ،اپوزیشن نے وزیر اعلی پنجاب کی تقریر کے دوران خوب شور شرابا کیا
جب اپوزیشن نے مریم نواز اور نواز شریف کے خلاف نعرے لگانا شروع کیے تو مریم نواز نے غصے سے اپوزیشن کی طرف دیکھا تو ڈپٹی اسپیکر اور وزرا اپوزیشن کی طرف دوڑے اور مخالف نعروں پر اپوزیشن کو چپ کروانے میں لگ گئے ،بات یہاں تک پہنچ گئی کہ ڈپٹی اسپیکر ملک ظہیر اقبال چنڑ نے اپوزیشن کے رکن اسمبلی رانا شہباز کے منہ پر ہاتھ رکھ کر انہیں چپ کروانے کی کوشش کی۔
صوبائی وزیر رانا سکندر، فیصل کھوکھر، چیف ویب رانا ارشد، صہیب بھرت سمیت دیگر وزرا اپوزیشن کو چپ کروانے کی کوشش کرتے رہے ۔ڈپٹی اسپیکر ملک ظہیر چنڑ اور وزراء نے کہا کہ اپوزیشن نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف نعرے بازی کی بجائے کوئی اور نعرے لگائے، نواز شریف، مریم نواز چور ہے کہ نعرے لگانے سے گریز کریں ، اس ساری صورتحال کے بعد اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اپوزیشن کو روکنے کی کوشش کی اور کہا بیٹھ کر بات کریں ،یہ کوئی طریقہ نہیں ہے مگر اپوزیشن نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی نے اپوزیشن کو نتائج کی دھمکی کیوں دی؟اسپیکر پنجاب اسمبلی نے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی تقریر کے دوران اپوزیشن کے مسلسل ااحتجاج پر اپوزیشن اراکین کو دھمکی دی کہ اب آپ لوگوں کو اس احتجاج کے سخت نتائج بھگتنے پڑیں گے، مگر اپوزیشن نے اپنا احتجاج جاری رکھا۔
اس دوران نماز کا وقفہ ہوا ، وزیراعلیٰ نے دوبارہ تقریر شروع کی تو اپوزیشن نے پھر اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کروایا ۔
وزیر اعلی مریم نواز نے اپوزیشن کے احتجاج اور سخت نعروں کے باوجود اپوزیشن کا شکریہ ادا کیا، اس ساری صورتحال پر کل اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان پریس کانفرنس کریں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اپوزیشن اسپیکر پنجاب اسمبلی مریم نواز نعرے نوازشریف ہنگامہ وزیراعلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اپوزیشن اسپیکر پنجاب اسمبلی مریم نواز نوازشریف ہنگامہ وزیراعلی اسپیکر پنجاب اسمبلی مریم نواز نے اپوزیشن نے اپوزیشن کے اپوزیشن کو نے اپوزیشن وزیر اعلی
پڑھیں:
سندھ کے عوام بھی مریم نواز جیسی وزیراعلیٰ چاہتے ہیں، عظمیٰ بخاری
لاہور: وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کو اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ وہاں کے لوگ بھی اب مریم نواز جیسی وزیراعلیٰ کی خواہش رکھتے ہیں۔
پیپلز پارٹی رہنماؤں کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے سوال اٹھایا کہ سندھ سے آکر پنجاب میں بیٹھنے والے رہنما آخر پنجاب کے حق میں کب بات کریں گے؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ پنجاب میں عوام کو گندم، آٹا اور روٹی تک نہ ملے؟ ایک طرف نقصان کی دہائی دی جا رہی ہے، دوسری طرف بچی ہوئی گندم بھی باہر بھیجنے کی بات ہو رہی ہے۔ یہ دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے؟ اسی کو “سیلابی سیاست” کہا جاتا ہے۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر سندھ میں ہر سال سیلاب آتا ہے، تو ہر سال آپ سندھ کو بھی ڈبوتے ہیں؟ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سیاست نہیں کرنا چاہتے، لیکن پوری پریس کانفرنس صرف سیاست پر ہی مبنی تھی۔ سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے آج تک سیلاب متاثرین کے لیے کیا عملی اقدامات کیے؟ صرف باتیں کرنے سے عوام کی مدد نہیں ہوتی۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب پر آئی ایم ایف کا الزام لگانا بے بنیاد ہے، پہلے یہ بتائیں کہ سندھ میں خود گندم خریدی گئی یا نہیں؟ اگر نہیں تو وہاں کس قانون کے تحت کام ہو رہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو خود مریم نواز کی کارکردگی کی تعریف کر چکے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ سندھ کے لوگ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے پاس مریم نواز جیسی وژنری اور فعال وزیراعلیٰ ہو۔
بی آئی ایس پی سے متعلق بات کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے واضح کیا کہ حکومت اسے ختم نہیں کر رہی، لیکن یہ سوال ضرور ہے کہ ہر بار سیلاب کے موقع پر اس فلاحی پروگرام کو سیاسی مقاصد کے لیے کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ بی آئی ایس پی کا اپنا قانون اور طریقہ کار ہے، اسے بار بار سیاسی نعروں میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟
انہوں نے آخر میں کہا کہ اگر آپ واقعی اتنے “سیانے” ہوتے تو آج پنجاب میں آپ کی یہ سیاسی حالت نہ ہوتی۔ اگر کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے تو گھروں میں بیٹھ کر حکومت کو نہ سکھا رہے ہوتے کہ کہاں بند ٹوٹنا تھا اور کہاں پانی آنا تھا۔ ایسے فیصلے حکومتیں زمینی حقائق اور حالات کے مطابق کرتی ہیں، نہ کہ محض قیاس آرائیوں سے۔