Daily Ausaf:
2025-08-13@04:11:41 GMT

تہذیبوں کا تصادم اور پاکستان کی آزمائش

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
سوال یہ ہے کہ کیاروس اورچین کی پوزیشن امریکی حملے کومؤخرکرواسکتی ہے؟چین اور روس کی مشترکہ مزاحمت امریکی فوجی آپشن پرایک مضبوط توازن پیداکرتی ہے۔خدشہ ہے کہ ٹرمپ اگلے دوہفتوں میں حملے کافیصلہ کرسکتے ہیں،مگرعالمی طاقتوں کے دباؤنے ٹرمپ کومحتاط کردیاہے۔اقوام متحدہ سمیت متعدد ممالک نے بھی زوردیاہے کہ طاقت سے مسئلہ حل نہیں، سیاسی راستے اپنانے چاہئیں۔اس پس منظر میں امریکی مددکے بغیراسرائیل کامکمل حملہ خطرناک حدتک خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
اس مرحلے پرسیاسی و چین روس مشترکہ مؤقف اورمغربی ممالک کے دباؤنے ٹرمپ کے فوجی آپشن پرپابندی عائدکردی ہے۔سفارتی حل ہی زیادہ ممکن دکھائی دیتے ہیں،اورفوجی محاذپرکسی صورت میں بریک لگنے کے آثارنمایاں ہیں۔ چین کاموثراور متوازی مقام،روس کے ساتھ مضبوطی اورعالمی میڈیاکے مشترکہ مؤقف نے امریکی فوجی آپشن کودباؤمیں رکھا ہے۔یوں امریکا کوموجودہ تناؤمیں جنگ آگے بڑھانے کیلئے سخت سوچناپڑے گا۔ چین،جوایران کاخاموش مگربااثراتحادی ہے، خاموشی سے مگر محتاط اندازمیں اس پورے منظر نامے کودیکھ رہاہے۔ایسے میں پاکستان کوہرقدم پھونک پھونک کررکھناہوگا۔
چین نے ایراناسرائیل تنازع میں گہری تشویش کااظہارکیاہے،فوجی مداخلت کی بجائے سفارت کاری کاراستہ اپنایا،اوراپنا بین الاقوامی ثالثی کرداراجاگرکیا۔عالمی میڈیانے چین -روس موقف کوایک نئے عالمی توازن کی نمائندگی کے طور پررپورٹ کیا،جو امریکی فوجی آپشن پرمخصوص حدودعائدکرتانظرآرہاہے۔امریکا،اگرچہ حملے کے امکانات طے کر رہا ہے ،مگرچین اورروس کے مشترکہ دباؤکی وجہ سے فی الحال اس پالیسی کو مؤخرکرنے کاامکان زیادہ محسوس ہوتاہے۔
برطانوی وزیراعظم کئیرسٹارمرنے ٹرمپ کو مشورہ دیاکہ ایران کے خلاف عسکری کارروائی سے اجتناب کیاجائے۔برطانوی وزیراعظم کایہ مشورہ ایک نیااشارہ دیتاہے کہ مغرب کے اندر بھی ایران کومکمل دشمن قراردینے پراتفاقِ رائے نہیں۔اس طرح یورپی طاقتیں بھی چاہتی ہیں کہ خلیج فارس ایک نئی جنگ کی آگ کاشکارنہ ہو۔یہ مشورے دراصل خفیہ سفارتکاری کی وہ جھلکیاں ہیں جوبظاہرامن کاپیغام لیے ہوتی ہیں،مگرباطن میں طاقت کے توازن کواپنے مفادمیں موڑنے کی کوشش کرتی ہیں۔
اس پوری کہانی میں بھارت بھی ایک سرگوشی کی مانندموجودہے۔حیفہ،جوکبھی نوآبادیاتی ہندوستان کی بندرگاہوں سے جڑارہا، اب اسرائیلی اہمیت کامرکزہے اورایرانی میزائلوں کا ہدف۔یہ محض اتفاق نہیں کہ تہران کی نگاہ تل ابیب سے گزرتی ہوئی دہلی کے ماضی کی گلیوں سے بھی واقف ہے۔ بھارت اوراسرائیل کے بڑھتے ہوئے تعلقات،اورحیفہ کی تاریخ ،اس تناظرمیں ایران کا اس مقام پرحملہ محض جنگی حکمت عملی نہیں بلکہ علامتی انتقام کی صورت اختیارکرتاجارہاہے۔یہ حملے صرف جغرافیہ کو نہیں،بلکہ تاریخ کوبھی نشانہ بنارہے ہیں۔
حیفہ،اسرائیل کی وہ بندرگاہ ہے جس پر ایرانی حملوں کی خبریں عالمی میڈیاپرچھائی رہیں۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ حیفہ کبھی ہندوستانی فوجیوں کی آماجگاہ بھی رہا۔پہلی جنگِ عظیم میں برطانوی افواج کے ساتھ شامل ہندوستانی سپاہی اسی شہر کی مٹی میں دفن ہوئے ہیں۔ یہودوہنود کا خطرناک ایجنڈے پرمبنی اتحاداب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ایک طرف گریٹر اسرائیل کانقشہ اس بات کی گواہی دے رہاہے کہ وہ کس طرح تمام عالم عرب کواس کاحصہ سمجھتے ہوئے مسلمانوں کے مقدس شہرمدینہ کوبھی اس کاحصہ بنانے پرعمل پیرا ہے وہاں شدت پسندہندوآرایس ایس کا اکھنڈبھارت کامنصوبہ یہ ہے کہ جس ملک کی سرحدیں بحرہندسے ملتی ہیں،وہ اکھنڈبھارت کا حصہ ہیں اورمودی اسی جماعت کی نمائندگی کر رہا ہے۔
بھارتی گودی میڈیااورسوشل میڈیاپر مودی مخالف رجحانات میں تیزی آئی ہے۔ انڈیا ٹائمز پرشائع نیوزکے مطابق،ٹرمپ نے بھارتی پاکستان جنگ کامذاق یہ کہتے ہوئے روکاکہ دونوں کوعالمی تباہی سے بچالیاہے۔اس بیان کے ردِعمل میں بھارت کی پرائمری میڈیامیں بھی عوامی سطح پرشدید تنقیداورطنزیہ بیانات سامنے آرہے ہیں جن میں سرنڈرمودی جیسے نعروں کابھی آغاز ہوگیا ہے۔سیاسی تجزیہ نگاریہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ رجحان مستقبل میں کسی بڑی تحریک کی بنیادبن سکتا ہے،اگرمخالفین اسے منظم کریں یاکوئی کرائسس سراٹھائے تو مودی کوگھربھیجنے میں آسانی ہوجائے گی۔
ان حالات میں یہ ملاقات محض دوافرادکی گفت وشنیدنہیں،بلکہ تہذیبوں کے تصادم،اسلامی دنیاکے اتحاد،اورعالمی طاقتوں کے نئی صف بندیوں کاپیش خیمہ ہے۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے ایک ایسے موڑپرکھڑاہے جہاں ہراک قدم ہے دلیلِ شعورو دانش کا، ذراسالغزشِ پابھی فناکاپیغام دے سکتی ہے۔ایسے میں ضرورت ہے کہ پاکستان، اپنے نظریاتی اساس،سفارتی دانش،اورعلاقائی ہم آہنگی کے تقاضوں کوسامنے رکھتے ہوئے،ایک ایساکردار اداکرے جونہ صرف جنگ سے روکے، بلکہ اسلامی دنیاکی فکری اور عملی قیادت کانیا باب بنے۔
پاکستان اس وقت نہ صرف ایک جغرافیائی مقام پرکھڑاہے بلکہ تاریخ کے دھارے پرنکتہ اتصال بن چکاہے۔اس کی خاموشی دراصل ایک صداہے دانش کی،خودداری کی،اورحکمتِ عملی کی۔کیاپاکستان اس تپتی ریت پراپناقدم رکھے گا؟یاپھرحکمت، صبر،اورغیرجانبداری سے ایک نئے باب کاآغازکرے گا؟یہ فیصلہ صرف عسکری قیادت کانہیں،بلکہ پوری قوم کی دانش وبینش کاامتحان ہے۔ایک پیغام تہذیبوں کو،طاقتوں کو،اورتاریخ کو،کہ پاکستان اب صرف تماشائی نہیں،ایک فکری کردارہے۔
یادرکھو!یہ صرف ملاقات نہیں تھی‘ یہ ایک اہم پیغام تھا!

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: فوجی آپشن نہیں بلکہ ہیں کہ

پڑھیں:

کراچی کی ترقی کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا، ڈاکٹر فاروق ستار

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 اگست2025ء)لیاری لی مارکیٹ گرین ٹمبر اینڈ آئرن مارکیٹ ایسوسی ایشن کے زیرِ اہتمام "معرکہ حق" اور جشنِ آزادی کی مناسبت سے ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا، جس میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینئر مرکزی رہنما و رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فاروق ستار نے خصوصی شرکت کی۔ تقریب میں کراچی کے تاجروں انجمنوں کے نمائندے بڑی تعداد میں موجود تھے۔

تقریب میں شرکا نے پاکستان کے 78ویں یومِ آزادی پر وطنِ عزیز سے اپنی غیر متزلزل محبت اور وابستگی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار نے شرکا کو جشنِ آزادی کی پرخلوص مبارکباد پیش کی اور "معرکہ حق" میں بھارت کے خلاف کامیابی پر پاکستانی عوام، مسلح افواج اور شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ کامیابی پوری قوم کی عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے خطاب میں ملک کی معیشت کو سنبھالنے اور اسے بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ معیشت کی بہتری کے ثمرات نچلی سطح تک عوام کو منتقل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کی ترقی، پاکستان کی ترقی ہے اور پاکستان کراچی کی ترقی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا، انہوں نے کہا کہ آزادی اللہ تعالی کی ایک عظیم نعمت ہے اور ہمیں اس کی قدر کرتے ہوئے وطن کی تعمیر و ترقی کے لیے ہر ممکن کردار ادا کرنا ہوگا۔ تقریب میں علاقہ معززین، تاجروں اور شہریوں نے بھرپور شرکت کی اور پاکستان کے حق میں نعرے بلند کیے۔ آخر میں پاکستان کی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کے لیے خصوصی دعا کی گئی۔

متعلقہ مضامین

  • ڈمپر حادثات کسی لسانی تنازع کا نہیں بلکہ انسانی المیہ ہے، علی خورشیدی
  • کراچی کی ترقی کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کر سکتا، ڈاکٹر فاروق ستار
  • آنسوؤں میں جھلکتی تاریخ: فلم “ڈیڈ ٹو رائٹس” سے پیدا ہونے والا احساس
  • پاک امریکا تعلقات بہتری کی جانب رواں
  • آسٹریلوی پارلیمنٹ میں پاکستانی نژاد بسمہ آصف کی اردو تقریر نے سب کو حیران کردیا
  • اقلیتوں کے دن کو ہم رسمی طور پر نہیں مناتے بلکہ اس کو محسوس بھی کرتے ہیں، سعید غنی
  • انصاف صرف دلوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ اسے عمل میں لانے کی ضرورت ہے، رپورٹ
  • اختلاف رائے کو دشمنی نہیں بلکہ فکری وسعت سمجھنا ہوگا، راغب نعیمی
  • فرقہ واریت کی آگ میں صرف اقلیتیں نہیں جل رہیں بلکہ ملک کا وجود جھلس رہا ہے، مولانا محمود مدنی
  • دو المیے ایک حقیقت، بوسنیا سے غزہ تک انسانیت کی شکست