اسلام آباد (خبر نگار خصوصی + نوائے وقت رپورٹ) نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنے کی قیاس آرائیوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلہ کا دو ریاستی حل طے ہونے تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے پاکستان کے اصولی موقف کا اعادہ کیا ہے۔ نائب وزیراعظم نے یہ بات جمعہ کو یہاں دفتر خارجہ میں میڈیا کو پاکستان کی کامیابیوں اور سفارتی مصروفیات کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ 1967ء سے پہلے کی سرحدوں کی بنیاد پرایک آزاد اورخودمختار قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام کے ساتھ فلسطین کے مسئلہ کے دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ پاکستان اور امریکہ ٹیرف مذاکرات میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، توقع ہے کہ دونوں ملک اس مسئلہ کا مناسب حل نکال لیں گے۔ نائب وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران جنگ بندی یا مذاکرات کا نہیں کہا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تنازعہ جموں و کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات پر باوقار انداز میں جامع بات چیت کے لئے تیار ہے۔ یہ پہلی بار ہے کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کے دوران پاکستان کے بیانیے کو عالمی سطح پر تسلیم اور سراہا گیا۔ پاکستان آئندہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالے گا۔ انہوں نے اپنے حالیہ دورہ ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کے بارے میں ذرائع ابلاغ کو آگاہ کیا جہاں پاکستان نے فلسطین، کشمیر، اسلامو فوبیا اور ایران کشیدگی سمیت اہم مسائل پر علاقائی امن کے اقدامات، دو طرفہ تعاون اور کثیر الجہتی سفارت کاری میں فعال کردار ادا کیا۔ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے استنبول میں20 سے23 جون تک منعقد ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کا بھی ذکر کیا۔ پاکستان کی کوشش سے او آئی سی اجلاس میں ایران کے معاملے پر خصوصی سیشن ہوا۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ اجلاس کے دوران پاکستان نے ایران کی خود مختاری اور اشتعال انگیزی کے خلاف تحمل کی حمایت میں او آئی سی کے مضبوط اجتماعی موقف کی وکالت کی۔ ایران نے پاکستان کی بروقت اور ثابت قدم حمایت کو تسلیم کیا۔ ایران کے صدر مسعود پیزشکیان نے ایرانی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران پاکستان کی جانب سے سفارتی یکجہتی کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ چیف آف آرمی سٹاف فیلڈ مارشل عاصم منیر نے بھی ایک باوقار جنگ بندی کے لیے ترکیہ اور ایرانی قیادت سے بات کی۔ نائب وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان تنازعہ کے دوران تہران کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا، مدد کی پیشکش کی اور پس پردہ سفارت کاری کی سہولت فراہم کی۔ انہوں نے کہا کہ ایران کی جوابی کارروائی اور اس کے نتیجے میں جنگ بندی کے معاہدے کو علاقائی تنائو کی تخفیف کی جانب قدم کے طور پر دیکھا گیا جس نے امن کی رفتار کو برقرار رکھنے میں پاکستان کی کوششوں کو اہم قرار دیا۔نائب وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی کوشش سے مقبوضہ کشمیر پر او آئی سی کے رابطہ گروپ کا بھی اجلاس ہوا، سربراہی اجلاس کے بعد جاری ہونے والے استنبول اعلامیے میں تنازعہ کشمیر، فلسطینیوں کی نسل کشی، بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، جنوبی ایشیا میں علاقائی سلامتی کی صورتحال اور سندھ طاس معاہدے کی حمایت کا اعادہ کیا گیا، یہ پاکستان کے لیے ایک سفارتی کامیابی ہے۔ استنبول میں سعودی عرب، کویت، ایران، ترکیہ، مصر، ملائیشیا، آذربائیجان، ازبکستان، قازقستان، بنگلہ دیش، برونائی اور افغانستان کے ہم منصبوں کے ساتھ13 دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے درمیان 624 کلومیٹر کے سہ فریقی ریلوے منصوبے تک بات چیت شامل تھی۔ ملائیشیا نے10 جولائی کو ہونے والے آسیان سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے دعوت دی ہے جسے انہوں نے قبول کر لیا۔ نائب وزیراعظم نے اس موقع پر متحدہ عرب امارات کے حالیہ دورے کے بارے میں بھی بتایا جہاں 12 سال بعد پاکستان-یو اے ای مشترکہ وزارتی کمشن (جے ایم سی) کا اجلاس ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی قیادت میں 10 رکنی وفد میں اہم وزارتوں کے اعلیٰ حکام شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کو ویزا کی شرائط سے مستثنی قرار دینے پر اتفاق کیا ہے جو 24 جون کو مفاہمت کی دستاویز پر دستخط کی تاریخ سے30 دن کے بعد لاگو ہوگا۔ علاوہ ازیں نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ امریکہ سے اچھے تعلقات کا یہ مطلب نہیں کہ غلط چیز میں بھی اس کا ساتھ دیں۔ ہمیں پتہ تھا ایران بدلہ لئے بغیر نہیں رہے گا‘ ایران نے سلامتی کونسل میں سب سے پہلے پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔ ان کے صدر نے پارلیمنٹ میں تشکر پاکستان کے نعرے لگائے۔ علاوہ ازیں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار سے برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ نے ملاقات کی۔ دوطرفہ تعاون‘ علاقائی و عالمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ یو این سلامتی کونسل کی صدارت سے متعلقہ امور پر بھی بات چیت کی۔ دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان جولائی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت کرے گا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل پاکستان کی کہ پاکستان پاکستان نے پاکستان کے اسحاق ڈار کے دوران کے ساتھ

پڑھیں:

دنیا ایک نئے عالمی موڑ پر، خود مختاری کا اُبھرتا ہوا بیانیہ

اسلام ٹائمز: ایران نے یہ بیج مشرقِ وسطیٰ میں بویا، سوڈان نے افریقہ میں اسے مضبوط کیا اور نیویارک کے عوام نے مغرب میں اسے آواز دی۔ دنیا اب طاقت کی نہیں، اصول کی سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے، جہاں قومیں اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں اور عالمی طاقتوں کے پرانے کھیل کے لیے جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتا ہے یا ایک نئے تصادم کی راہ ہموار ہوتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ دنیا اب پرانی نہیں رہی۔ دنیا اب ڈکٹیٹرشپ سے نکل کر اپنے فیصلے اپنے ایوانوں میں کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے جو انسانی اصولوں پر قائم ہوں، نہ کہ استعماریت و سامراجیت پر۔ تحریر: سید عدنان زیدی

دنیا ایک نئے سیاسی و نظریاتی موڑ پر کھڑی ہے۔ ایران، سوڈان، حزب اللہ اور نیویارک۔۔۔۔ بظاہر چار مختلف محاذ، مگر ایک ہی پیغام دے رہے ہیں کہ خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ یہ چار خبریں اس ہفتے عالمی سیاست کا رخ بدلنے کی طرف واضح اشار ہ کر رہی ہیں، جہاں اصول، غیرت اور خود مختاری کے تصورات دوبارہ زندہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سب سے پہلے بات کرتے ہیں رہبرِ مسلمین کی اُن شرائط پر، جو انہوں نے ایران و امریکہ تعلقات کی بحالی کے لیے عائد کیں، جنہوں نے ایران کا اصولی مؤقف پوری دنیا پر واضح کر دیا۔ رہبرِ مسلمین نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے تین واضح اور اصولی شرائط رکھ دیں: 1۔ امریکہ اسرائیل کی حمایت مکمل طور پر ختم کرے۔ 2۔ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے فوجی اڈے بند کرے۔ 3۔ خطے کے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرے۔

یہ صرف سفارتی نہیں بلکہ نظریاتی اعلان ہے کہ طاقت مفاد سے نہیں بلکہ اصول سے پیدا ہوتی ہے۔ ایران کا یہ پیغام دراصل مشرقِ وسطیٰ میں نئی خود مختار پالیسی کا آغاز ہے، جہاں کسی بھی طاقت کو "دباؤ" کے بجائے "برابری" کی سطح پر بات کرنی ہوگی۔ ایران نے لبنان کی حمایت پر مبنی اپنے بیانیے میں اسرائیل کو واضح پیغام دیا ہے کہ اگر لبنان میں حزب اللہ پر حملہ کیا گیا تو یہ جنگ صرف لبنان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایران اس جنگ میں شامل ہو کر حزب اللہ اور لبنان کا مکمل دفاع کرے گا، یہ وارننگ تین سمتوں میں گئی:
اسرائیل کے لیے: اگر حملہ کرو گے تو کئی محاذ کھل جائیں گے۔
امریکہ کے لیے: ایران اب صرف دفاع نہیں بلکہ پیش قدمی کی پالیسی پر گامزن ہے۔
عرب دنیا کے لیے: ایران خطے کی قیادت کے لیے تیار ہے۔

یہ پیغام ظاہر کرتا ہے کہ ایران اب ردِعمل نہیں بلکہ عمل کا مرکز بن چکا ہے۔ ایران اب طاقت کے ساتھ ہر منفی قوت کا سر کچلنے کے لیے آمادہ ہے اور وقت سے پہلے ہر جارحیت کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ 12 روزہ جنگ میں ایران نے ثابت کیا۔ دنیا نے دیکھا کہ ایرانی میزائلوں نے ناقابلِ تسخیر سمجھے جانے والے امریکہ و اسرائیل کے دعووں کو کس طرح کھوکھلا کر دیا اور انہیں جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔ قارئینِ محترم! خطے کی طاقت کا توازن تیزی سے بدل رہا ہے، جہاں ایران ایک مضبوط جغرافیائی و نظریاتی قوت کے طور پر اُبھر رہا ہے۔ اسی دوران افریقہ کے ملک سوڈان کے وزیرِاعظم کامل ادریس نے ایک بڑا اعلان کیا ہے، جس کے بعد سوڈان کے اندر مسلط کردہ جارحیت کے خلاف مزاحمت کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے۔

واضح رہے کہ مصر اور ایران کے تعاون سے کئی مقامات پر سوڈانی مزاحمت کاروں نے دہشت گرد گروہوں کے قافلوں کو تباہ کیا ہے۔ سوڈانی وزیرِاعظم نے ریپڈ سپورٹ فورس (RSF) کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ وہ گروہ ہے، جو دارفور اور فاشر میں شہریوں کے قتلِ عام میں ملوث سمجھا جاتا ہے اور جس کی مکمل پشت پناہی امریکہ اور متحدہ عرب امارات کر رہے ہیں۔ معاملہ وہی پرانا ہے، معدنیات کا، مفاد کا اور انسانی جانوں کی قیمت پر تسلط کا۔ سوڈانی وزیرِاعظم نے اقوامِ متحدہ کی امن فورس کی تعیناتی کو بھی مسترد کر دیا اور کہا کہ "بین الاقوامی افواج سوڈان کی خود مختاری کے لیے خطرہ ہیں۔" یعنی سوڈان انصاف بھی چاہتا ہے، لیکن اپنی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ یہ افریقہ میں ایک نئی فکری لہر اور مزاحمتی سوچ کا آغاز ہے، جہاں مقامی قیادت عالمی طاقتوں کے اثر سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے۔

امریکہ جو تہران میں رجیم چینج کا خواب دیکھ رہا تھا، خود نیویارک کے اندر رجیم چینج کی فضا کا شکار ہے۔ ٹرمپ اور اسرائیل دونوں ہی اپنی حمایت کے گراف میں زبردست گراوٹ کا سامنا کر رہے ہیں۔ نیویارک کے میئر کے انتخابات میں زہران ممدانی کی جیت نے سیاسی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ جیت صرف ایک انتخابی کامیابی نہیں بلکہ ایک فکری تبدیلی ہے۔ تین چیزیں اب واضح ہوچکی ہیں۔ 1۔ ٹرمپ ازم کی مقبولیت زوال کا شکار ہے۔ 2۔ اسرائیل مخالف بیانیہ امریکی سیاست میں جگہ بنا رہا ہے۔ 3۔ نئی نسل انسانی بنیادوں پر سیاست چاہتی ہے، اندھی وفاداری نہیں۔ اگرچہ زہران ممدانی مذہبی یا نظریاتی سیاستدان نہیں، لیکن ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی عوام بھی اب انصاف پر مبنی سیاست چاہتے ہیں۔

یہ چاروں واقعات بظاہر الگ الگ ہیں، لیکن اصل میں ایک نئی عالمی لہر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایران نے یہ بیج مشرقِ وسطیٰ میں بویا، سوڈان نے افریقہ میں اسے مضبوط کیا اور نیویارک کے عوام نے مغرب میں اسے آواز دی۔ دنیا اب طاقت کی نہیں، اصول کی سیاست کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا عہد ہے، جہاں قومیں اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتی ہیں اور عالمی طاقتوں کے پرانے کھیل کے لیے جگہ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ وقت فیصلہ کرے گا کہ امریکہ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتا ہے یا ایک نئے تصادم کی راہ ہموار ہوتی ہے، لیکن ایک بات طے ہے کہ دنیا اب پرانی نہیں رہی۔ دنیا اب ڈکٹیٹرشپ سے نکل کر اپنے فیصلے اپنے ایوانوں میں کرنا چاہتی ہے، ایسے فیصلے جو انسانی اصولوں پر قائم ہوں، نہ کہ استعماریت و سامراجیت پر۔

متعلقہ مضامین

  • سلامتی کونسل دنیا میں امن و استحکام برقرار رکھنے میں ناکام ہو رہی ہے، نائب وزیراعظم اسحاق ڈار
  • بھارت کے ساتھ نیا تجارتی معاہدہ دونوں ملکوں کے لیے تاریخی ہوگا، ٹرمپ کا اعلان
  • نئے تجارتی معاہدے کے بعد بھارت جلد ہی امریکا کو دوبارہ پسند کرے گا، صدر ٹرمپ
  • ایران اور امریکا کے درمیان مصالحت کیوں ممکن نہیں؟
  • دنیا ایک نئے عالمی موڑ پر، خود مختاری کا اُبھرتا ہوا بیانیہ
  • 27 ویں آئینی ترمیم کیلیے نمبرز پورے ہونے کے سوال پر اسحاق ڈار کا جواب
  • ڈار صاحب ترمیم کے حوالے سے نمبر پورے ہیں؟نائب وزیراعظم نے جواب دیدیا
  • پاکستان ویتنام اور ایران کیساتھ سرمایہ کاری و معاشی تعاون کے فروغ پر متفق
  • پاکستان کا ایران اور ویتنام کےساتھ معاشی تعاون اور سرمایہ کاری کے فروغ پر اتفاق
  • پاکستان، ویتنام اور ایران کے ساتھ سرمایہ کاری و معاشی تعاون کے فروغ پر متفق