پروفیسر شاداب احمد صدیقی
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کو صدارت سونپنے کے بعد بھارت کو ایک اور سفارتی دھچکا لگا ہے ۔ چند روز قبل ہی پاکستان کو یو این کی کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی کا نائب چیئرمین مقرر کیا گیا تھا، اور اب یہ تازہ پیشرفت پاکستان کی سفارتی حکمت عملی کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات اور عالمی سطح پر مثبت کردار کو بھرپور پزیرائی حاصل ہو رہی ہے ، جبکہ بھارت کا پاکستان مخالف پروپیگنڈا مسلسل ناکام ہو رہا ہے ۔بھارت کے اندر بھی اس پیش رفت نے سیاسی طوفان کھڑا کر دیا ہے ۔ کانگریس کے رہنما پون کھیرا نے مودی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مودی سرکار پہلگام حملے کے بعد پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ فوجیوں اور عوام کی قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا، جو افسوسناک ہے ۔کانگریس کی رہنما رینیکا چودھری نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کو ناکام، غیر مؤثر اور جھوٹ پر مبنی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 151دورے ، 72ممالک، بے شمار ملاقاتیں، مگر کوئی کامیابی نظر نہیں آتی۔ عوام کو وضاحت دی جائے کہ دہشت گردی کے خلاف بی جے پی کی حکمت عملی کیوں ناکام ہو رہی ہے ؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ پہلگام حملے میں ملوث چار دہشت گرد اب تک کیوں آزاد ہیں؟ اور انٹیلی جنس کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے ؟
آپریشن سندور کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف قرار دینے کی بھارتی مہم بھی مکمل طور پر ناکام اور غیر مؤثر ثابت ہوئی۔ پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنے کا مودی اور بی جے پی کا بیانیہ نیست نابود ہو گیا۔گزشتہ کئی سالوں سے مودی اور بی جے پی نے پاکستان کے خلاف اپنے عوام کو گمراہ کیا اور نفرت کی آگ میں جھونک دیا۔اگر دہشت گردی کی بات کی جائے تو بھارت میں خود اپنے لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ مودی کے بھارت میں اقلیتیں بالخصوص مسلمان انتہائی غیر محفوظ اور خوف میں مبتلا رہتے ہیں،آئے روز بھارت میں انتہا پسند بی جے پی مسلمانوں کیخلاف پرتشددکارروائیوں کیلئے تیار رہتی ہے ۔بھارت میں دہشت گردی کے واقعات چشم دید ثبوت بھی نظر آتے ہیں لیکن بھارت پاکستان پر الزامات تو ضرور لگاتا ہے مگر دنیا کی عدالت عالمی قوتوں کے سامنے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو ثابت نہیں کر سکا۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان دنیا میں سرخرو ہوا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کو صدارت سونپ دی گئی جس کی وجہ سے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی اور دہشت گردی کا بیانیہ جل کر راکھ ہو گیا۔جنگ کے بعد بھارت کو ہر محاذ پر ناکامی کا سامنا ہے ۔بھارت اب یہ دہشت گردی کا ناٹک بند کرے اور اپنے عوام کے مسائل حل کرنے پر بھرپور توجہ دے ۔جنگ کے بعد بھارت کی معیشت تباہ ہو گئی ہے ۔ بھارت میں بھوک افلاس میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔عوام مودی کو دہائیاں دے رہے ہیں۔عوام میں مایوسی اور اضطراب ہے ۔بھارت کے عوام اب تبدیلی چاہتے ہیں لیکن آر ایس ایس کے دہشت گردوں کے خوف سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔بھارتی عوام پینے کے صاف پانی،لیٹرین کی سہولیات سے محروم ہیں۔اگر پاکستان دہشت گرد ملک ہوتا تو کبھی بھی اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتا۔ دنیا کے دیگر ممالک نے بھی پاکستان کی مخالفت نہیں کی۔ پاکستان عالمی سطح پر روزانہ ایک کامیابیاں حاصل کر رہا ہے ۔جبکہ بھارت کی اپوزیشن جماعت کانگریس کے سینئر رہنما پون کھیرا نے ناکام خارجہ پالیسی پر وزیر اعظم نریندر مودی کو آئینہ دکھا دیا۔انڈین نیشنل کانگریس کے چیئرمین برائے میڈیا اینڈ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ پون کھیرا نے پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر کامیابیوں کا اعتراف کرتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی سے اہم سوال پوچھ لیے ۔انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما پون کھیرا نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے سوال کیا کہ آپ کی خارجہ پالیسی کہاں ہے ؟ پاکستان تو عالمی سطح پر کامیابیاں سمیٹ رہاہے ، کویت نے پاکستان پر ویزا پابندیاں ختم کر دیں، کولمبیا پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے ، بتائیں کون سا ملک آج بھارت کے ساتھ کھڑا ہے ؟
پون کھیرا کا کہنا تھا بھارت کیلئے یہ افسوسناک لمحہ ہے کہ روس بھی اب پاکستان کے ساتھ معاہدے طے کر رہا ہے ، بھارت کے قریبی دوست روس نے پاکستان کے ساتھ 2.
انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما کا کہنا تھا مودی کی خارجہ پالیسی یا ملکی سکیورٹی پر سوال اٹھاؤ تو غدار قرار دے دیا جاتا ہے ، بھارت کی سفارتی اور خارجہ پالیسی پر سوال اٹھ رہے ہیں جو کہ اٹھنے چاہئیں۔آپریشن سندور ایک اور ایسا فوجی منصوبہ تھا، جس نے مودی حکومت کو پریشانیوں کی دلدل میں دھکیل دیا۔آج مودی حکومت نے انڈین جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ، لیکن آج مودی کے بھارت میں میڈیا، ادارے اور تعلیم سب اس تنگ نظری کے شکار ہو چکے ہیں۔ مذہبی اقلیتوں پر ظلم بڑھ گیا ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو سختی سے کچلا جا رہا ہے ۔ آج وہ صحافی، دانشور اور سماجی کارکن جنھیں کبھی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا یا تو خاموش کر دیے گئے ہیں یا دباؤ میں آ چکے ہیں۔
اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پاکستان کے ساتھ خارجہ پالیسی پون کھیرا نے عالمی سطح پر دہشت گردی کے مودی حکومت نے پاکستان پاکستان کی کانگریس کے پاکستان کو بھارت میں بھارت کی بھارت کے بی جے پی کے خلاف رہا ہے کے بعد
پڑھیں:
افغانستان سے دہشت گردی کے خطرات میں اضافے کا خدشہ، پاکستان
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جولائی 2025ء) پاکستان نے پیر کے روز اقوام متحدہ کو بتایا کہ اس کے پاس کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور مجید بریگیڈ جیسے دہشت گرد گروپوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کے معتبر ثبوت ہیں، جن کا مقصد ملک کے اسٹریٹجک انفراسٹرکچر اور ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنانا ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ دہشت گردوں کے یہ گروپ افغانستان کے اندر ان مقامات سے کام کر رہے ہیں، جہاں حکومت کی رٹ بے اثر ہے۔
ان کی یہ تنبیہ ایک ایسے وقت آئی ہے، جب حالیہ ہفتوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں کافی اضافہ ہوا ہے۔
(جاری ہے)
باجوڑ بم دھماکے میں اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ افراد ہلاک
28 جون کو ایک خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی شمالی وزیرستان میں فوجی قافلے سے ٹکرا دی تھی، جس کے نتیجے میں 16 فوجی ہلاک اور متعدد شہری زخمی ہو گئے تھے۔
اس کے چند روز بعد ہی باجوڑ میں ایک اسسٹنٹ کمشنر سمیت پانچ سینیئر اہلکار اس وقت مارے گئے جب ان کی گاڑی معمول کے دورے کے دوران سڑک کنارے نصب بم سے ٹکرا گئی۔ پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ سے کیا کہا؟اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد نے جنرل اسمبلی کو بتایا کہ دہشت گردوں کی جانب سے ایسے بیشتر حملے ان جدید ترین ہتھیاروں اور آلات سے کیے جاتے ہیں، جو سن 2021 میں افغانستان سے انخلاء کے بعد بین الاقوامی افواج نے اپنے پیچھے چھوڑ دیے تھے۔
انہوں نے کہا، " گزشتہ دو ہفتوں کے دوران افغانستان میں مقیم دہشت گردوں نے ان جدید ترین ہتھیاروں کو پاکستان کے خلاف بڑھتے ہوئے حملوں کے لیے استعمال کیا ہے۔"
پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ اندازے کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریبا 6,000 جنگجو ہیں اور اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد یہ سب سے بڑا دہشت گرد گروپ ہے، جو افغان سرزمین سے کام کر رہا ہے۔
انہوں بتایا کہ یہ گروپ نہ صرف پاکستان بلکہ علاقائی اور عالمی استحکام کے لیے بھی خطرہ ہے۔پاکستان نے سکیورٹی خطرات کے درمیان افغانستان کے ساتھ اہم سرحدی گزرگاہ بند کردی
انہوں نے افغانستان میں سرگرم ایسے دیگر گروہوں کی بھی نشاندہی کی، جن میں آئی ایس-خراسان، القاعدہ اور مختلف بلوچ علیحدگی پسند دھڑے شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا، "ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ افغانستان دہشت گردوں کی افزائش گاہ نہ بن جائے، جو اس کے پڑوسیوں اور وسیع تر عالمی برادری کے لیے خطرہ ہیں۔
" انہوں نے اقوام متحدہ اور علاقائی طاقتوں پر زور دیا کہ وہ معاملات کو "خراب کرنے والے" ایسے گروپوں کے خلاف کارروائی کریں، جو خطے میں دوبارہ تنازعات کو ہوا دے سکتے ہیں۔ایران: ایک ماہ میں دو لاکھ تیس ہزار افغان مہاجرین کی واپسی
اسلام آباد اور کابل میں مذاکراتکابل اور اسلام آباد نے پیر کے روز اپنے پہلے ایڈیشنل سیکرٹری سطح کے مذاکرات کیے، جو گزشتہ اپریل میں پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے دورہ افغانستان کے دوران طے پانے والے معاہدے کے تحت ہوئے۔
پاکستان کی طرف سے ایڈیشنل سیکریٹری (افغانستان اور مغربی ایشیا) سفیر سید علی اسد گیلانی نے نمائندگی کی جبکہ افغان فریق کی قیادت وزارت خارجہ میں فرسٹ پولیٹیکل ڈویژن کے ڈی جی مفتی نور احمد نور نے کی۔
زندگی بھر کی جمع پونجی سمیٹ کر پاکستان چھوڑنے کے لیے صرف 45 منٹ
اسلام آباد میں دفتر خارجہ نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ بات چیت کے دوران فریقین نے تجارتی امور، ٹرانزٹ تعاون، سیکورٹی اور رابطے پر تبادلہ خیال کیا۔
دونوں فریقوں نے دہشت گردی کو علاقائی امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا اور اس بات پر اتفاق کیا کہ سلامتی کے مسائل کو حل کیے بغیر خطہ ترقی نہیں کر سکتا۔
اس موقع پر بھی پاکستانی وفد نے "افغان سرزمین پر سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس کارروائیوں" کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایسے گروہ سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور یہ علاقائی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
پاکستان: شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی، 14 شدت پسند ہلاک
بات چیت کے دوران تجارت کو فروغ دینے کے اقدامات کا بھی جائزہ لیا گیا جن میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سہولت، 10 فیصد پروسیسنگ فیس کا خاتمہ، انشورنس گارنٹی کی فراہمی اور سکیننگ میں کمی اور ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو فعال کرنا شامل ہے۔
ملاقات کے دوران ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے فریم ورک معاہدے پر بھی تبادلہ خیال ہوا اور دونوں فریقوں نے اسے جلد حتمی شکل دینے پر اتفاق کیا۔
افغان شہریوں کی وطن واپسی بھی بحث کا اہم موضوع تھا۔مذاکرات کا اگلا دور باہمی اتفاق سے تاریخوں پر طے کیا جائے گا، جس میں دونوں ممالک مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پائیدار تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کریں گے۔
ص ز/ ج ا نیوز ایجنسیاں