نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 جولائی ۔2025 )امریکی ریاست نیو ہیمپشائرکے وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کو پیدائشی شہریت سے متعلق ایگزیکٹو آرڈر کو نافذ کرنے سے روک دیا ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سپریم کورٹ نے ججوں کے لیے ملک گیر حکم امتناعی کے ذریعے ان کی پالیسیوں کو روکنے کی صلاحیت کو محدود کر دیا تھا.

(جاری ہے)

ریاست نیو ہیمپشائر کے کانکورڈ میں امریکی ڈسٹرکٹ جج جوزف لاپلانٹے نے یہ فیصلہ اس وقت سنایا جب تارکین وطن کے حقوق کے حامیوں نے ان سے استدعا کی کہ وہ ایک مقدمے کو کلاس ایکشن کا درجہ دیں جو انہوں نے ان تمام بچوں کی نمائندگی کے لیے دائر کیا تھا جن کی شہریت کی حیثیت ٹرمپ کے حکم کے نفاذ سے خطرے میں پڑ سکتی ہے. امریکی وفاقی جج نے اس بات سے اتفاق کیا کہ مدعی کلاس ایکشن کے طور پر آگے بڑھ سکتے ہیں جس سے انہیں ریپبلکن صدر کی پالیسی کو ملک بھر میں روکنے کے لیے ایک تازہ عدالتی حکم جاری کرنے کی اجازت مل گئی .

انہوں نے کہا کہ اگر ٹرمپ کا حکم نافذ ہوتا تو بچوں کو امریکی شہریت سے محروم کیا جا سکتا تھا یہ ناقابل تلافی نقصان ہے صرف شہریت یہ دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ہے جج نے کہا کہ وہ اپنے فیصلے کو چند دنوں کے لیے روک دیں گے تاکہ ٹرمپ انتظامیہ کو اپیل کرنے کی اجازت مل سکے اور وہ دن کے اختتام تک تحریری فیصلہ جاری کریں گے. اے سی ایل یو اور دیگر نے یہ مقدمہ سپریم کورٹ کی جانب سے 27 جون کو 6-3 کے فیصلے کے چند گھنٹے بعد دائر کیا تھا جس نے ٹرمپ کی ہدایت کے الگ الگ چیلنجوں میں ججوں کی جانب سے جاری کردہ 3 ملک گیر حکم امتناعی کو محدود کر دیا تھا یہ مقدمہ ملک میں رہنے والے غیر امریکی شہریوں کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جن کے بچے اس فیصلے سے متاثر ہو سکتے ہیں.

سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر 27 جولائی کو نافذ العمل ہو جائے گا سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک استثنا سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے مدعیان کے وکلا نے دلیل دی کہ یہ فیصلہ ججوں کو کلاس ایکشن مقدمات میں ٹرمپ کی پالیسیوں کو ملک گیر بنیادوں پر روکنے کی اجازت دیتا ہے جن تین ججوں نے ملک گیر حکم امتناعی جاری کیا تھا ان کا ماننا تھا کہ ٹرمپ کی ہدایت امریکی آئین کی 14ویں ترمیم میں شہریت سے متعلق زبان کی ممکنہ خلاف ورزی کرتی ہے.

یہ ترمیم بیان کرتی ہے کہ امریکا میں پیدا ہونے والے یا قدرتی طور پر شہریت حاصل کرنے والے تمام افراد اور جو اس کے دائرہ اختیار میں ہیں ریاست ہائے متحدہ امریکا اور اس ریاست کے شہری ہیں جہاں وہ رہائش پذیر ہیں محکمہ انصاف نے دلیل دی ہے کہ ٹرمپ کا حکم آئین کے مطابق ہے اور وفاقی جج سے اپیل کی کہ وہ یہ فیصلہ دیں کہ مدعی کلاس ایکشن کے طور پر مقدمہ دائر نہیں کر سکتے.

صدرٹرمپ کا حکم وفاقی ایجنسیوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ امریکی نژااد بچوں کی شہریت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں جن کے والدین میں سے کوئی ایک امریکی شہری یا قانونی مستقل رہائشی جسے ”گرین کارڈ“ ہولڈر بھی کہا جاتا ہے نہیں ہے ڈیموکریٹک زیر قیادت ریاستوں اور تارکین وطن کے حقوق کے حامیوں کے مطابق اگر یہ ملک بھر میں نافذ ہوتا ہے تو سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نوزائیدہ بچوں کو شہریت سے محروم کر دیا جائے گا. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سپریم کورٹ کلاس ایکشن شہریت سے وفاقی جج ٹرمپ کی ملک گیر ٹرمپ کا کے لیے

پڑھیں:

غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ

غزہ جنگ بندی معاہدے کے بعد جہاں ایک طرف غاصب صیہونی ریاست اسرائیل مسلسل معاہدے کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے، وہاں ساتھ ساتھ دنیا بھر میں امریکی اور اسرائیلی دلال، فلسطینی عوام اور فلسطین کی مزاحمت یعنی حماس کے خلاف منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔

اسی طرح امریکی صدر ٹرمپ مسلسل حماس کو دھمکیاں دے رہے ہیں لیکن اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کو ہتھیانے سمیت متعدد خلاف ورزیوں پرکسی قسم کا کوئی رد عمل نہیں دیا جا رہا ہے۔

دنیا کے بعض صحافیوں اور دانشوروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے کہ وہ یہ تاثر پیدا کریں کہ معاہدے کی خلاف ورزی حماس کی طرف سے ہوئی تو پھر حالات کی ذمے داری حماس اور فلسطینیوں پر آن پڑے گی لیکن یہ سارے لوگ اسرائیل کی خلاف ورزیوں کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔

یہ رویہ خود اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کو کسی خاص مقصد کے لیے اس کام پر لگایا گیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کمزورکیا جائے اور اسے فراموش کرنے کے لیے جو ممکن ہتھکنڈے استعمال ہو سکتے ہیں، وہ کیے جائیں۔

 حال ہی میں ٹائمز آف اسرائیل نامی اخبار نے یہ خبر شایع کی ہے کہ غزہ میں امن فوج کے نام پر انڈونیشیا، آذربائیجان اور ترکیہ کی افواج کو بھیجا جا رہا ہے۔ تشویش، اس لیے بھی پائی جا رہی ہے کیونکہ ایک تو امن معاہدے کی سرپرستی امریکی صدر ٹرمپ کر رہے ہیں۔

جن پر دنیا کے عوام بالکل بھی اعتماد نہیں کرتے اور انھوں نے آج تک غزہ میں نسل کشی کے ذریعے قتل ہونے والے ستر ہزار فلسطینیوں کے قتل پر اسرائیل کی مذمت تک نہیں کی ہے، لٰہذا اب ٹرمپ کی خواہشات کے مطابق مسلم ممالک کی افواج کو غزہ میں تعینات کرنے کے اعلان پر دنیا بھر کے عوام کو اس لیے تشویش ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ مسلمان افواج کو حماس اور فلسطینی مزاحمتی گروہوں کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں اور فلسطینی مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کے لیے مسلمان افواج کی خدمت لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اگر یہ خدشات درست ہیں تو یقینا اس سے بڑی پریشانی مسلمانوں کے لیے اور کچھ نہیں ہو سکتی ہے۔اگر تاریخی اعتبار سے بھی اس معاملے پر غورکیا جائے تو ہم جانتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی پالیسی ہمیشہ سے فلسطین کے مکمل کنٹرول اور مزاحمتی قوتوں کی سرکوبی پر مرکوز رہی ہے۔

ٹرمپ کے سابقہ دورِحکومت صدی کی ڈیل یعنی Deal of the Century کے نام پر فلسطین کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی، تاہم ٹرمپ ناکام رہے۔ اسی طرح سابقہ دور میں ہی ٹرمپ نے یروشلم (القدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کر کے امتِ مسلمہ کے دل پر وارکیا تھا، لیکن پوری دنیا میں اس عمل کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

اسی تسلسل میں اگر ٹرمپ یا اس کے حمایتی حلقے مسلمان ممالک کی افواج کو امن یا نگرانی کے نام پر غزہ بھیجنے کا حکم دیں، تو اس کا مقصد مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح اور فلسطینی عزم کو توڑنا ہوگا۔ ماضی میں بھی عراق، افغانستان، شام اور لیبیا میں اتحادی افواج کے نام پر مسلمان ممالک کے فوجی استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں استعماری ایجنڈے کو تقویت ملی۔

لہٰذا امریکی صدرکے عزائم کو سمجھتے ہوئے مسلم دنیا کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے سبب نہ صرف فلسطین کاز کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ مسلمانوں کی باہمی وحدت اور یکجہتی بھی متاثر ہوتی ہو۔

امریکی حکومت کا یہی ایجنڈا ہے کہ وہ مسلمانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا چاہتی ہے۔کسی غیر مسلم یا استعماری قوت کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق مسلمان افواج کا استعمال اسلامی وقار کے بھی منافی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ علماء اور مفتیان کرام اس عنوان سے کیا ارشاد فرمائیں گے؟

کیونکہ ترکیہ سمیت آذربائیجان اور انڈونیشیا تو پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں ہیں، لٰہذا ان سے امید کم ہی نظر آتی ہے لیکن دیگر مسلم ممالک کو کیوں اس دلدل میں گھسیٹا جا رہا ہے؟ اگر مقصد فلسطینی عوام کی تحفظ و حمایت کے بجائے امریکی پالیسیوں کی تکمیل ہے، تو یہ عمل غلامی کے مترادف ہے، اگر مسلمان افواج کو غزہ اس نیت سے بھیجا جائے کہ وہ حماس یا فلسطینی مزاحمت کو کمزورکریں، تو یہ امتِ مسلمہ کی اخلاقی شکست ہوگی۔

ایسے فیصلے اسلام کے سیاسی استقلال، جہادی فلسفے اور امتِ واحدہ کے اصول کی نفی ہیں۔ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان افواج کا مقصد طاغوت کے حکم پر مظلوموں کو دبانا ہے یا ظالموں کو روکنا؟خلاصہ یہ ہے کہ دو سال تک غزہ میں مسلسل نسل کشی کی جاتی رہی لیکن مسلم و عرب دنیا کی افواج خاموش تماشائی بنی رہیں اور اب امریکی صدر ٹرمپ کے احکامات کو بجا لانے کے لیے غزہ میں پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک کی افواج کی تعیناتی کی بات کی جا رہی ہے اور جس کا مقصد بھی اسرائیلی غاصب افواج سے لڑنا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔

انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر مسلمان حکمران اپنے عوام کے احساسات اور فلسطین کی حمایت کے بجائے امریکی دباؤ پر فیصلے کریں، تو یہ سیاسی غلامی کی علامت ہے، اگرکسی بھی فوجی اقدام میں سیاسی وفاداری کا مرکز واشنگٹن ہے، تو یہ امت کے لیے ذلت کا باعث ہے۔

امت کے علما، دانشوروں اور عوام کو ایسے’’ فریبِ امن‘‘ منصوبوں کو علمی و عوامی سطح پر بے نقاب کرنا چاہیے۔اگر واقعی مسلمان ممالک غزہ کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر حقیقی مدد تب ہے جب مسلمان ممالک فلسطین کو اسلحہ، سفارتی حمایت، انسانی امداد اور سیاسی پشت پناہی فراہم کریں نہ کہ ان کے خلاف امن فوج کے نام پر جائیں۔

سعادت اُس میں ہے کہ مسلمان طاغوت کے سامنے جھکنے کے بجائے ظلم کے نظام کو بدلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، یہی قرآن کا پیغام، یہی محمد ﷺ کی سنت اور یہی فلسطین کی مزاحمت کا سبق ہے۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں امن فوج یا اسرائیلی تحفظ
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • امریکی عدالت نے ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق اہم حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا
  • متنازع تنخواہ، پی آر سی ایل کے 6؍ ڈائریکٹرز اور سابق سی ای او کو شو کاز نوٹس جاری
  • ٹرمپ کا انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم
  • امریکا کے دوبارہ ایٹمی تجربات دنیا کے امن کے لیے خطرہ، ایران
  • ٹرمپ کا وفاقی انتخابات سے متعلق حکم نامے کا اہم حصہ کالعدم قرار
  • امریکی سینیٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کے مختلف ممالک پر عائد ٹیرف کو مسترد کردیا
  • امریکی صدر نے ولادیمیر پیوٹن کے اتحادی پر عائد پابندیاں ختم کردیں
  • پاکستانی خاتون سے شادی کی صورت میں افغان شہری کو شہریت دینے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل