مس گرینڈ ملائیشیا نے مندر کے پجاری پر جنسی ہراسانی کا الزام عائد کردیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
کوالالمپور: سابق مس گرینڈ ملائیشیا، اداکارہ اور ماڈل لیشالینی کاناران نے مندر میں پیش آنے والے ایک سنگین واقعے کا انکشاف کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق مس گرینڈ ملائیشیا لیشالینی نے الزام لگایا ہے کہ سیلانگور کے علاقے میں واقع ماریامّن مندر کے ایک پجاری نے انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا۔
لیشالینی کے مطابق وہ حال ہی میں مذہب سے دوبارہ جڑنے کی کوشش کر رہی تھیں اور روز مندر جارہی تھیں تاکہ وہ اپنی روایتی رسومات سیکھ سکیں۔ مذہب سے جڑے رہنے کی اس کوشش میں ایک پجاری ان کی رہنمائی کر رہا تھا، جس پر وہ بھروسہ کرتی تھیں۔
ماڈل نے انسٹاگرام پر اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ 1 جون کو پجاری نے انہیں مقدس پانی اور حفاظتی دھاگا دیا اور دعا کے بعد اپنے دفتر میں ملنے کو کہا۔
View this post on InstagramA post shared by Lishalliny Kanaran (@lishallinykanaran)
لیشالینی نے بتایا کہ جب وہ اس کے دفتر گئیں تو وہاں ان پر خوشبودار پانی چھڑکا گیا جس سے ان کی آنکھوں میں جلن ہوئی اور بعد ازاں پجاری نے نازیبا انداز میں چھوتے ہوئے بلاؤز کھولنے کا مطالبہ کیا۔ انکار پر وہ مبینہ طور پر زبردستی کرنے لگا۔
لیشالینی نے بتایا کہ وہ خود کو بچاتے ہوئے وہاں سے بھاگ آئیں پھر 4 جولائی کو اپنی والدہ کو اعتماد میں لے کر پولیس میں شکایت درج کروائی۔ تاہم پولیس تحقیقات کے دوران مندر انتظامیہ نے پجاری کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
مس گرینڈ ملائیشیا نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ وہ دوسروں کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں تاکہ کوئی اور خاموش نہ رہے اور اس طرح کی ہراسانی سے بچ سکے۔
View this post on InstagramA post shared by Lishalliny Kanaran (@lishallinykanaran)
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: مس گرینڈ ملائیشیا
پڑھیں:
پاکستان میں ’می ٹو‘ مہم کا غلط استعمال ہوا: کومل میر
معروف اداکارہ کومل میر نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کو ہراسانی کے خلاف آواز بلند کرنے کا پلیٹ فارم دینے والی ’می ٹو‘ مہم کو پاکستان میں بدقسمتی سے بعض افراد نے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا، جس سے اصل متاثرین کی آواز دب گئی۔
یہ بات انہوں نے اپنے نئے ڈرامے کی تشہیر کے لیے منعقد ایک تقریب میں گفتگو کے دوران کہی، جس کا موضوع دفتر اور پیشہ ورانہ ماحول میں خواتین کو درپیش ہراسانی اور بدسلوکی ہے۔
کومل میر نے کہا کہ پاکستان میں اس مہم کو جس طرح استعمال کیا گیا، اس نے اصل متاثرہ خواتین کی آواز کو پیچھے دھکیل دیا اور مہم کی اصل روح متاثر ہوئی۔
کومل میر کے مطابق ان کا نیا ڈرامہ ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو دفتر میں ہونے والی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھاتی ہے اور قانونی کارروائی کا راستہ اپناتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو خاموش رہنے کے بجائے انصاف کے لیے کھڑی ہوتی ہے اور دوسروں کے لیے مثال بنتی ہے کہ خاموشی کی بجائے قانون کا سہارا لیا جا سکتا ہے۔
اداکارہ نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں اکثر خواتین اپنے قانونی حقوق سے لاعلم ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے خود حال ہی میں پتہ چلا کہ ہراسانی سے متعلق قوانین کتنے واضح اور مضبوط ہیں۔ ہمارا ڈرامہ اسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش ہے۔
کومل کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں اکثر خواتین خوف، سماجی دباؤ یا شرمندگی کے باعث آواز نہیں اٹھاتیں، ہماری کوشش ہے کہ اس ڈرامے کے ذریعے ایسی خواتین کو حوصلہ دیا جائے جو خود بول نہیں سکتیں۔
یاد رہے کہ ’می ٹو‘ مہم 2017ء میں عالمی سطح پر ابھری، جس نے خواتین کو جنسی ہراسانی کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ پاکستان میں بھی اس مہم کے نتیجے میں کئی اہم شخصیات پر الزامات سامنے آئے۔ بعد ازاں جھوٹے الزامات اور بداعتمادی کی فضا نے اس مہم کے مؤثر اثرات کو متاثر کیا۔
Post Views: 5