Express News:
2025-09-18@00:09:00 GMT

متحدہ ہندوستان کے باسی اور مذہبی سیاست

اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT

2018میں پاکستان سے ڈھائی لاکھ ہندو یاتری بھارت گئے۔ مودی نے انھیں کہا کہ ’’ پاکستان میں کیا رکھا ہے؟ وہاں آپ کو وہ آزادی نہیں ملے گی جو ہم دیں گے، آپ ہندو ہیں، آپ کا وطن بھارت ہے، آپ لوگ یہاں رہیں، ہم آپ کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کریں گے، آپ پاکستان کو بھول جائیں گے۔‘‘ یوں مودی نے مذہبی سیاست کا کارڈ استعمال کر کے انھیں بھارت ہی کو اپنا وطن بنانے کا کہا اور تمام تر سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا مگر وعدہ وفا نہ ہوسکا اور انھیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔

یہ پاکستانی ہندو مودی سرکار کے کہنے پر بھارت ہی میں رک گئے، یوں ان کے ویزے کی مدت ختم ہوگئی اور واپس پاکستان آنے کے قانونی راستے بھی ختم ہوگئے۔ اب یہ ہندو خاندان راجستھان میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور ان میں سے کچھ واپس پاکستان آنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ شکوہ کرتے ہیں کہ وہ کھلے آسمان تلے پڑے ہیں،کھانے پینے کو محتاج ہیں، بیماریاں پھیل رہی ہیں، علاج کی کوئی سہولت نہیں،گندہ پانی پینے سے گردے میں پتھریاں ہوگئی ہیں، رات کو جنگلی جانوروں کا الگ خطرہ ہوتا ہے، پولیس آکر الگ تنگ کرتی ہے۔

مودی سرکار نے جو سنہرے مستقبل کے خواب دکھائے اور وعدے کیے، ان میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہ کیا۔ اب تنگ آکر یہ لوگ واپس پاکستان آنے کو سوچتے ہیں مگر ان کے ویزے کی مدت ختم ہوچکی ہے، یوں یہ وہاں کیمپوں میں ایک عذاب کی زندگی گزار رہے ہیں۔

کہتے ہیں کہ انگریزوں نے جب تک ہندوستان پر حکومت کی ’’ عوام کو تقسیم کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کیا اور پھر جاتے جاتے بھی آزادی کی پالیسی میں بھی اس تقسیم کو برقرار رکھا جس سے دونوں ملکوں کے عوام آج آزاد تو ہیں مگر وہ انگریز کی اس ’’ تقسیم کرو‘‘ کی پالیسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ آج یہ آزادی بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کی شکل میں نظر آتی ہے۔

پاکستان کے قیام کا مقصد بظاہر دو قومی نظریہ یعنی مذہبی نظر آیا جب کہ بھارت کا سیکولر نظریہ، یعنی دونوں نظریات میں اپنے اپنے عوام کی بہتری اور اچھے مستقبل کی بات شامل تھی، مگر آج بھی یہاں کے باسیوں کے مسائل ان نظریات سے شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت میں تو ہمیشہ سے انتخابی سیاست ہندو مسلم ووٹ پر تقسیم دکھائی دی ہے مگر اس کے باوجود ان ممالک میں تقسیم ہونے والی عوام کی بڑی تعداد سخت قسم کے انسانی مسائل سے گزر رہی ہے۔

مودی سرکار پر ہندو پرست جماعت ہونے کا الزام ہے اور وہ خود بھی اس الزام کو اپنے سر لیتی ہے یعنی اس کا دعویٰ ہے کہ ان کی جماعت ہی ہندوؤں کے حقوق کی سب سے بڑی ضامن جماعت ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عملاً بھی ایسا ہی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزادی کے بعد منقسم ہونے والے تمام خاندان بلا تفریق مذہب مسائل کا شکار ہیں۔ تمام خاندان اپنے سگے رشتے داروں کی شکل دیکھنے کو بھی ترستے ہیں وہ اپنے ہی رشتے داروں سے ملاقات نہیں کر سکتے ہیں۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ شاید مسلمان خاندان ہی ان مسائل سے دوچار ہیں جب کہ ایسا نہیں ہے ڈھائی لاکھ ہندوؤں کی بھارت میں کسمپرسی والی زندگی اس کا ثبوت ہے۔

 قیام پاکستان کے بعد سے دونوں ملکوں کے مابین سفری سہولیات اور پالیسیاں دن بہ دن خراب سے خراب ہوتی چلی گئی۔ سندھ میں ایک بڑی تعداد بھارت سے ہجرت کرکے آئے ہوئے لوگوں کی ہے جنھیں اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے ممبئی بھی جانا ہو تو انھیں پہلے لاہور اور پھر امرتسر سے ایک لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑتا ہے، حالانکہ کھوکھرا پار کے راستے سے یہ سفر آدھے سے بھی کم وقت میں طے ہو سکتا ہے مگر یہاں سے سفرکی سہولیات فراہم کرنے کی صرف خبریں ہی سننے میں آتی ہیں۔

عملاً کچھ نہیں ہوتا۔ ویزے کی سخت پالیسی کے سبب بھی منقسم خاندانوں کی اکثریت ایک دوسرے سے ملنے سے قاصر رہتی ہے۔ دونوں ملکوں کی پالیسیاں ہندو اور مسلم دونوں قوموں کے خاندانوں کے لیے اذیت کا باعث بنی ہوئی ہیں مگر یہ پالیسیاں تبدیل نہیں کی جاتیں، نہ ہی ان میں بہتری لائی جاتی ہے۔

دوسری طرف ایک اور تقسیم بھی ہے جو بنگلہ دیش کے قیام سے وابستہ ہے۔ 1971 سے مشرقی پاکستان میں رہنے والے پاکستانی جن کو عرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے، ڈھائی لاکھ کی تعداد میں بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصورین کی زندگی گزار رہے ہیں، جہاں انسانی ضروریات کی اشیاء بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ انھوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی مخالفت کی تھی اور پاکستانی فوج کا ساتھ دیتے ہوئے وطن کے لیے اپنی جان، مال اور عزتیں سب کچھ قربان کی تھیں، چنانچہ یہ آج بھی بنگلہ دیش میں رہنے کے بجائے پاکستان آنے کو ترجیح دیتے ہیں، اسی لیے انھوں نے کبھی بھی بنگلہ دیش کی شہریت کو قبول نہیں کیا اورکیمپوں میں ہی زندگی گزارنے کو ترجیح دی۔

حکومت پاکستان کی جانب سے دو مرتبہ ان میں سے کچھ تعداد کو تو پاکستان لایا گیا مگر پھر یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ ان کے خاندان اب تین اطراف تقسیم ہوچکے یعنی بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان۔

یوں دیکھا جائے تو متحدہ ہندوستان کی تقسیم جو پاکستان اور بھارت کی شکل میں ہوئی تھی اور دونوں اطراف کے عوام کو ایک اچھے مستقبل کے جو خواب دکھائے گئے تھے وہ خواب ان منقسم خاندانوں کے لیے شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ آج یہ خاندان بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان میں تقسیم ہیں، ان کے سگے ماں باپ، بھائی، بہن وغیرہ سرحدوں کی تقسیم کے باعث ایک دوسرے سے ملنے کے لیے ترستے ہیں۔

بڑی عجیب اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ان ملکوں کے رہنے والے دنیا بھرکے ملکوں میں بآسانی آجا سکتے ہیں، وہاں کا سفر بھی با آسانی کرسکتے ہیں لیکن جب اپنے ہی ملک کے پڑوس میں جانا ہو تو بے پناہ مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ویزہ ملنے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے،کراچی جیسے بڑے انٹرنیشنل شہر میں رہنے والا بھی ویزہ حاصل کرنے کے لیے ملک کے دوسرے کونے میں جاکر پروسس کرتا ہے۔ ویزہ مل جائے اور بھارت چلا بھی جائے تو سوائے چند شہروں کے کہیں اور نہیں جا سکتا۔ کہنے کو بظاہر بھارت سیکولر ملک ہے مگر یہاں شعر و ادب کی کسی محفل، پروگرام یا تقریب میں جانے کے لیے بھی اس قدر مشکلات ہیں کہ لوگ پہلے ہی ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔

گویا متحدہ ہندوستان کے باسیوں نے انگریزوں سے آزادی تو حاصل کر لی مگر انگریزوں کی ’’ تقسیم کرو‘‘ کی پالیسی سے آج بھی آزادی حاصل نہیں کرسکے۔ دنیا عالمی گاؤں بن گئی مگر یہ تقسیم ہونے والے خاندان آپس میں مل بھی نہیں سکتے۔ فاصلوں کی یہ خلیج ختم کرنے کی ضرورت ہے مگر افسوس اب بھی مودی جیسے حکمران عوام پر مسلط ہیں جو عوام کے فاصلے کم تو کیا کرتے، اپنے ہی ہم مذہب ڈھائی لاکھ ہندو خاندانوں کو مزید تقسیم کر دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان ا نے ڈھائی لاکھ کی پالیسی بنگلہ دیش رہے ہیں کے لیے ہے مگر مگر یہ

پڑھیں:

جنگی شکست کا بدلہ بھارت کرکٹ کے میدان میں لینے کا سنگین اور اخلاقی جرم کر رہا ہے، ڈاکٹر عشرت العباد

اپنے بیان میں سربراہ ایم پی پی نے کہا کہ ہم ملک میں نئی سوچ کے ساتھ نا امیدی اور ملک کو عظیم مملکت بنانے کے لئے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، جو ہماری جدوجہد کا حصہ ہے کل پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ہوگا، ہم افواج پاکستان اور عوام کے درمیان پل ہیں، فوج ہے تو پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو فوج ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق گورنر سندھ روح رواں ایم پی پی ڈاکٹر عشرت العباد خان نے کہا ہے کہ جنگی شکست کا بدلہ بھارت کرکٹ کے میدان میں لینے کا سنگین اور اخلاقی جرم کر رہا ہے، بھارت فتنہ بازی سے باز آجائے ہماری فورسز روزانہ فتنہ الخوارج ہندوستان کا قلع قمع کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دان قومی سلامتی کو فوقیت دیں، ملک میں سیلاب نے تباہی مچادی، اولین ترجیح سیلاب زدگان کی مشکلات دور کرنا نصب العین ہونا چاہیئے، گڈ گورننس کے بغیر مشکلات کا سامنا نہیں کیا جا سکتا، روایت چل پڑی ہے کہ تنقید کرو اور جواب میں ایک دوسرے کی عزت اچھالو، بھارت کا مکروہ چہرہ سامنے آگیا، آئی سی سی نے پاکستان کا مطالبہ نہ مانا تو کھیل بھی سیاست اور ہندو توا نظریات کا حامل ہوجائے گا، دوحہ اجلاس اسلامی ممالک کی اچھی کاوش ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں منفی سیاست اور سوشل میڈیا مہم سازی ختم کرنے کے لئے قومی یکجہتی کی ضرورت ہے، کراچی کے میئر کو عوام کی خدمت پر توجہ دینی چاہیئے، اپنی کوتاہیوں کو منافقت اور گفتگو کے جال میں پھنسانے کے بجائے کراچی کے سچے بیٹے بنیں، وفاق، صوبہ اور لوکل گورنمنٹ ملکر کام کریں، گورنر کی حیثیت سے یہ کام اگر میں کرسکتا ہوں تو اب کیوں نہیں؟ ناکام بلدیاتی قیادت ابھی تک تھڈو ڈیم، گلشن اقبال، لٹھ ڈیم، جمال پل سے صفورا تک، سماما، شہر کے بیشتر علاقے گھٹنوں گھٹنوں پانی کی زد میں ہیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے کہا کہ سیاست کو خدمت سمجھ کر کیا جائے، میرے ساتھی کھڈے بھر کر نا ہموار راستوں کو قابل استعمال بنا رہے ہیں، میئر روزانہ پریس کانفرنس کرتے ہیں۔

عشرت العباد خان نے کہا کہ اپر سندھ اور دادو گاج سمیت مورو، گڈو بیراج، کوٹری بیراج بھی سخت خطرات ہیں، تمام سیاسی جماعتوں کو ملکر مشکل حالات سے نکالنا ہے، میری پہچان پاکستان ایک تحریک ہے اور ہم ملک میں نئی سوچ کے ساتھ نا امیدی اور ملک کو عظیم مملکت بنانے کے لئے بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں، جو ہماری جدوجہد کا حصہ ہے کل پاکستان کی سب سے بڑی طاقت ہوگا، ہم افواج پاکستان اور عوام کے درمیان پل ہیں، فوج ہے تو پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو فوج ہے، بھارت کے ہر عزم کو ناکام بنائیں گے، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہم ایک نیا ریکارڈ قائم کریں گے، امن اور محبت ہمارا نصب العین ہے، تمام ساتھی تیار رہیں، میری پہچان پاکستان ملک میں انقلاب کی آواز بنے گی۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی سکھ مذہبی آزادی سے محروم، مودی سرکار نے گرو نانک کے جنم دن پر یاترا روک دی
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • پاکستان کی دہشت گردی کیخلاف جنگ اپنے لئے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے ہے. عطا تارڑ
  • جنگی شکست کا بدلہ بھارت کرکٹ کے میدان میں لینے کا سنگین اور اخلاقی جرم کر رہا ہے، ڈاکٹر عشرت العباد
  • پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف جنگ اپنے لیے نہیں، دنیا کو محفوظ بنانے کیلیے ہے، عطا تارڑ
  • اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف فلسطین کے ساتھ ہندوستان
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • آئی سی سی اور بھارت کا دوغلا پن
  • بھارتی جنرل یا سیاسی ترجمان؟ عسکری وقار مودی سرکار کی سیاست کی نذر