وفاقی بجٹ : عوامی مشکلات میں مزید اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
(آخری حصہ)
مڈل کلاس طبقہ جو ملکی آبادی کے بڑے حصہ پر مشتمل ہے، اس کے مسائل سستی رہائش، پانی، بجلی، اشیائے ضرورت کی سستے داموں فراہمی اور ٹرانسپورٹ کے قابلِ برداشت کرائے ہیں، جس کے لیے موجودہ بجٹ میں کوئی خاطر خواہ پالیسی اقدامات تجویز نہیں کیے گئے ہیں۔ اسی طرح انتہائی غریب اور پس ماندہ افراد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسا پروگرام معمولی ضرورت پوری کرنے کی حد تک تو ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن اصل مسئلہ بیروزگاری کا خاتمہ اور عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے، جس کے لیے صنعتی ترقی اور مسابقت کا فروغ، امن و امان کا قیام، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بلاسْود قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے، تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
غیر جانبدار ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ ’کمزور اور غیر شفاف‘ فیصلوں سے ملک ایک نئے مالیاتی بحران کی طرف جا سکتا ہے۔ مشہور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق یہ بجٹ معیشت اور عام آدمی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا، جب اس سے ایک روز قبل جاری ہونے والا اقتصادی سروے معیشت کی مایوس کن تصویر پیش کررہا تھا۔ مسلسل تیسرے سال معاشی اہداف حاصل نہ ہونے اور صرف 2.
بجٹ میں تنخواہوں میں معمولی اضافہ اور چند ٹیکسوں میں کمی مثبت فیصلے ضرور ہیں لیکن غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد، جو نہ تنخواہ دار ہیں اور نہ ٹیکس دہندگان، اس سے مستفید نہیں ہوں گے۔ اِسی طرح بڑھتی ہوئی بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس کے پاس ذرائع آمدن نہیں وہ 20 روپے کی روٹی 10 روپے میں بھی کیسے خریدے گا؟
اِسی لیے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ بجٹ 2025-26ء ماضی کے بجٹوں سے مختلف نہیں۔ کیونکہ سابقہ بجٹوں کی طرف یہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت تیار کیا گیا ہے جس میں عام آدمی کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ ملک کی 40 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پنجاب میں 30 فی صد، سندھ میں 45 فی صد، خیبر پختون خوا میں 48 فی صد اور بلوچستان میں 70 فی صد غربت ہے۔ حکومت بتائے کہ اس بجٹ میں ان غریبوں کو غربت کے دلدل سے نکالنے کے لیے کیا اقدامات رکھے گئے ہیں؟
بجٹ کا 51 فی صد حصہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجانا ہے۔ اس بجٹ میں دیرپا معاشی حکمت عملی کا فقدان ہے۔ اور نہیں تو کم از کم مہنگائی کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مزدور کی اجرت کو دگنا کیا جانا چاہیے تھا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں کہا کہ مالی گنجائش کے مطابق ریلیف دیا گیا ہے اور کچھ اخراجات ملکی ضروریات کے تحت بڑھائے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس بجٹ میں ساری توجہ عوام سے ٹیکس وصولی پر مرکوز ہے، جبکہ برآمدات میں اضافہ، زراعت و صنعت جیسے اہم شعبوں کی ترقی، حکومتی شاہ خرچیوں میں کمی کے بجائے ہوشربا اضافہ اور غیرترقیاتی اخراجات میں مزید اضافہ وہ اقدامات ہیں جو اس بجٹ کو عوام دْشمن اور اشرافیہ دوست قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بجٹ معاشی اصلاحات پر مبنی اقدامات تجویز کرنے میں ناکام ہے۔ اِسی طرح دفاعی اخراجات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن دیکھا جائے تو حالیہ پاک- بھارت کشیدگی میں پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں کم طیاروں اور کم دفاعی صلاحیت کیساتھ بھارت کو شکست دی، جو quantitative کے بجائے qualitative دفاع کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ بجٹ میں پیش کردہ بعض اعداد و شمار بھی زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔
بجٹ میں گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت ماحول دوست (الیکٹرک) گاڑیوں کے فروغ کے نام پر چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے سے اِن گاڑیوں کی قیمتیں بڑھ گئیں، جوکہ عام آدمی کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔ اِسی طرح آن لائن کاروبار پر ٹیکس سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے روزگار کمانے والے نوجوانوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
اِن حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بجٹ 2025-26ء معاشی استحکام کے دعووں کے باوجود غربت، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ عوام کو حسبِ دستور بڑھتی ہوئی قیمتوں، بھاری بھرکم ٹیکس، بیروزگاری اور اس سے جڑے مسائل، تعلیم، صحت سہولتوں کے فقدان، چھوٹے بڑے کاروباری طبقوں، تاجروں، دوکانداروں، ملازمت پیشہ افراد کو ایف بی آر کے شکنجے اور ہراسگی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہوگا، جبکہ بڑے زمیندار، صنعت کار ٹیکس نیٹ سے باہر رہیں گے، اعلیٰ بیوروکریسی، حکومتی اشرافیہ اپنی تنخواہوں میں من مانے اضافے سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے اور معیشت کی ترقی و استحکام کے حکومتی دعوے دھرے کے دھرے جبکہ عام آدمی کی زندگی اِسی طرح مصائب و مشکلات سے دوچار رہے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔