Jasarat News:
2025-11-03@10:54:37 GMT

وفاقی بجٹ : عوامی مشکلات میں مزید اضافہ

اشاعت کی تاریخ: 13th, July 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

(آخری حصہ)
مڈل کلاس طبقہ جو ملکی آبادی کے بڑے حصہ پر مشتمل ہے، اس کے مسائل سستی رہائش، پانی، بجلی، اشیائے ضرورت کی سستے داموں فراہمی اور ٹرانسپورٹ کے قابلِ برداشت کرائے ہیں، جس کے لیے موجودہ بجٹ میں کوئی خاطر خواہ پالیسی اقدامات تجویز نہیں کیے گئے ہیں۔ اسی طرح انتہائی غریب اور پس ماندہ افراد کے لیے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسا پروگرام معمولی ضرورت پوری کرنے کی حد تک تو ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن اصل مسئلہ بیروزگاری کا خاتمہ اور عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے، جس کے لیے صنعتی ترقی اور مسابقت کا فروغ، امن و امان کا قیام، چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بلاسْود قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانا ضروری ہے، تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
غیر جانبدار ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ ’کمزور اور غیر شفاف‘ فیصلوں سے ملک ایک نئے مالیاتی بحران کی طرف جا سکتا ہے۔ مشہور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق یہ بجٹ معیشت اور عام آدمی کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں پیش کیا گیا، جب اس سے ایک روز قبل جاری ہونے والا اقتصادی سروے معیشت کی مایوس کن تصویر پیش کررہا تھا۔ مسلسل تیسرے سال معاشی اہداف حاصل نہ ہونے اور صرف 2.

7 فی صد شرح نمو کے ساتھ، بجٹ میں سرکاری اخراجات میں کمی اور ٹیکسوں کی سختی پر زور دیا گیا ہے، جبکہ افراطِ زر کا ہدف 7.5 فی صد مقرر کیا گیا۔
بجٹ میں تنخواہوں میں معمولی اضافہ اور چند ٹیکسوں میں کمی مثبت فیصلے ضرور ہیں لیکن غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد، جو نہ تنخواہ دار ہیں اور نہ ٹیکس دہندگان، اس سے مستفید نہیں ہوں گے۔ اِسی طرح بڑھتی ہوئی بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جس کے پاس ذرائع آمدن نہیں وہ 20 روپے کی روٹی 10 روپے میں بھی کیسے خریدے گا؟
اِسی لیے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ بجٹ 2025-26ء ماضی کے بجٹوں سے مختلف نہیں۔ کیونکہ سابقہ بجٹوں کی طرف یہ بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت تیار کیا گیا ہے جس میں عام آدمی کے لیے کوئی ریلیف نہیں ہے۔ ملک کی 40 فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پنجاب میں 30 فی صد، سندھ میں 45 فی صد، خیبر پختون خوا میں 48 فی صد اور بلوچستان میں 70 فی صد غربت ہے۔ حکومت بتائے کہ اس بجٹ میں ان غریبوں کو غربت کے دلدل سے نکالنے کے لیے کیا اقدامات رکھے گئے ہیں؟
بجٹ کا 51 فی صد حصہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجانا ہے۔ اس بجٹ میں دیرپا معاشی حکمت عملی کا فقدان ہے۔ اور نہیں تو کم از کم مہنگائی کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے مزدور کی اجرت کو دگنا کیا جانا چاہیے تھا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں کہا کہ مالی گنجائش کے مطابق ریلیف دیا گیا ہے اور کچھ اخراجات ملکی ضروریات کے تحت بڑھائے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس بجٹ میں ساری توجہ عوام سے ٹیکس وصولی پر مرکوز ہے، جبکہ برآمدات میں اضافہ، زراعت و صنعت جیسے اہم شعبوں کی ترقی، حکومتی شاہ خرچیوں میں کمی کے بجائے ہوشربا اضافہ اور غیرترقیاتی اخراجات میں مزید اضافہ وہ اقدامات ہیں جو اس بجٹ کو عوام دْشمن اور اشرافیہ دوست قرار دینے کے لیے کافی ہیں۔ یہ بجٹ معاشی اصلاحات پر مبنی اقدامات تجویز کرنے میں ناکام ہے۔ اِسی طرح دفاعی اخراجات کی اہمیت اپنی جگہ لیکن دیکھا جائے تو حالیہ پاک- بھارت کشیدگی میں پاکستان نے بھارت کے مقابلے میں کم طیاروں اور کم دفاعی صلاحیت کیساتھ بھارت کو شکست دی، جو quantitative کے بجائے qualitative دفاع کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ بجٹ میں پیش کردہ بعض اعداد و شمار بھی زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے۔
بجٹ میں گرین پاکستان انیشی ایٹیو کے تحت ماحول دوست (الیکٹرک) گاڑیوں کے فروغ کے نام پر چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس بڑھانے سے اِن گاڑیوں کی قیمتیں بڑھ گئیں، جوکہ عام آدمی کے لیے مشکلات کا باعث ہے۔ اِسی طرح آن لائن کاروبار پر ٹیکس سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے روزگار کمانے والے نوجوانوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
اِن حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بجٹ 2025-26ء معاشی استحکام کے دعووں کے باوجود غربت، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے بنیادی مسائل سے نمٹنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ عوام کو حسبِ دستور بڑھتی ہوئی قیمتوں، بھاری بھرکم ٹیکس، بیروزگاری اور اس سے جڑے مسائل، تعلیم، صحت سہولتوں کے فقدان، چھوٹے بڑے کاروباری طبقوں، تاجروں، دوکانداروں، ملازمت پیشہ افراد کو ایف بی آر کے شکنجے اور ہراسگی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہوگا، جبکہ بڑے زمیندار، صنعت کار ٹیکس نیٹ سے باہر رہیں گے، اعلیٰ بیوروکریسی، حکومتی اشرافیہ اپنی تنخواہوں میں من مانے اضافے سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے اور معیشت کی ترقی و استحکام کے حکومتی دعوے دھرے کے دھرے جبکہ عام آدمی کی زندگی اِسی طرح مصائب و مشکلات سے دوچار رہے گی۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: یہ بجٹ کے لیے

پڑھیں:

وزیراعظم 59 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع ہونے پر ایف بی آر کی پذیرائی

وزیراعظم شہباز شریف نے 59 لاکھ ریکارڈ ٹیکس گوشوارے جمع ہونے پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) حکام کی پذیرائی کی۔

شہباز شریف نے کہا کہ 9 لاکھ نئے ٹیکس فائلرز کا ٹیکس نیٹ میں آنا عوام کا حکومتکی پالیسیوں پر اعتماد کا مظہر ہے۔

ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے والوں میں نمایاں اضافہ

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں سال 2025ء کےلیے انکم ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے والوں میں17 اعشاریہ 6 فیصد کا نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اللّٰہ کے فضل و کرم سے ٹیکس نظام کی اصلاحات سے مثبت نتائج وصول ہو رہے ہیں، ایف بی آر میں میرٹ کی بالادستی کو اولین ترجیح دی۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ ایف بی آر میں پرفارمنس کلچر متعارف کرایا گیا ہے، ٹیکس گوشواروں کو آسان اور سہل بنایا گیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ بندرگاہوں پر خود کار کلیئرنس کے نظام سے کرپشن کے خاتمے اور پرفارمنس کی بہتری کو یقینی بنایا گیا۔

شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ پوائنٹ آف سیل کی تعداد میں اضافے سے سیلز ٹیکس کی چوری کو روکا گیا، ٹیکس آمدن میں 9 ارب کا اضافہ حکومت کی ایف بی آر اصلاحات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے نظام کی مزید اصلاحات کا سلسلہ تسلسل سے جاری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نئے ٹیکس نہیں لگانے پڑیں گے، ایف بی آر چیئرمین کا مؤقف
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر
  • چیئرمین ایف بی آر نے منی بجٹ کے کسی امکان کو مسترد کردیا
  • گلگت بلتستان کی ترقی اور عوامی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کیلئے پرعزم ہیں: امیر مقام
  • معیشت بہتر ہوتے ہی ٹیکس شرح‘ بجلی گیس کی قیمت کم کریں گے: احسن اقبال
  • اے ٹی ایم اور بینک سے رقم نکلوانے پر چارجز میں نمایاں اضافہ
  • حکومت بجلی، گیس و توانائی بحران پر قابوپانے کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال
  • 2025 میں ریکارڈ 59 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع ،وزیراعظم کی ایف بی آر حکام کی ستائش
  • وزیراعظم 59 لاکھ ٹیکس گوشوارے جمع ہونے پر ایف بی آر کی پذیرائی
  • 31 اکتوبر تک 59 لاکھ ٹیکس ریٹرنز جمع تاریخ میں توسیع نہیں ہوگی، ایف بی آر