پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ، بڑھتی غربت خاموش تباہی
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
---فائل فوٹو
پاکستان میں بڑھتی آبادی، تعلیم، صحت اور خوراک جیسے شعبوں پر دباؤ ڈال رہی ہے، ہر ماہ لاکھوں بچے پیدا ہو رہے ہیں، کروڑوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور غذائی قلت سے متاثرہ بچوں کی شرح بھی خطرناک حد تک بلند ہے۔
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری کے مطابق، قومی سطح پر سالانہ شرح نمو اڑھائی فیصد ہے جبکہ وفاقی وزیرِ صحت کا کہنا ہےکہ یہ شرح 3 اعشاریہ 6 فیصد ہے۔
پاکستان میں آبادی کا تیزی سے بڑھنا ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے، ہر ماہ تقریباً 4 سے ساڑھے 4 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر آبادی بڑھنے کی یہ رفتار برقرار رہی تو پاکستان اگلی دہائی میں دنیا کے صف اول کے آبادی والے ممالک میں شامل ہو جائے گا۔
دوسری جانب ڈی جی پاپولیشن کا کہنا ہے کہ ہم اس چیلنج سے صوبائی سطح پر نمٹ رہے ہیں جبکہ آنے والی پالیسی گراس رووٹ لیول تک آبادی کے کنٹرول پر کام کرے گی۔
اسلام آباد پاکستانی آبادی میں تیزی سے ا ضافہ،2050ء.
پاکستان اکنامک سروے 25-2024ء میں پیش کیے گئے عالمی بھوک کے اشاریے (Global Hunger Index) میں پاکستان کو ’سنگین‘ زمرے میں رکھا گیا ہے۔
سروے کے اعداد و شمار کے مطابق 34 فیصد بچے ’stunting‘ یعنی کہ قد کی افزائش میں کمی کا شکار ہیں، 71 فیصد کو وزن میں کمی کاسامنا ہے تو مجموعی آبادی میں 20.7 فیصد افراد غزائی قلت کا شکار ہیں۔
وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 30 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے ہیں جبکہ اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جہاں اسکولوں کی تعداد اور سہولتیں دونوں ہی محدود ہیں۔
ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
حکومت کا 2600 ارب روپے کے قرض قبل از وقت واپس کرنے اور 850 ارب کی سود بچانے کا دعویٰ
وزارت خزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار 2600 ارب روپے کے قرضے قبل از وقت واپس کیے، جس سے نہ صرف قرضوں کے خطرات کم ہوئے بلکہ 850 ارب روپے سود کی مد میں بچت بھی ہوئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق اس اقدام سے پاکستان کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی (Debt-to-GDP) شرح کم ہو کر 74 فیصد سے 70 فیصد تک آ گئی ہے، جو ملک کی اقتصادی بہتری کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ تمام فیصلے ایک منظم اور محتاط قرض حکمت عملی کے تحت کیے گئے۔
وزارت خزانہ کا مؤقف کیا ہے؟
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف قرضوں کی کل رقم دیکھ کر ملکی معیشت کی پائیداری کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ افراط زر کے باعث قرضے بڑھے بغیر رہ نہیں سکتے۔ اصل پیمانہ یہ ہے کہ قرض معیشت کے حجم کے مقابلے میں کتنا ہے، یعنی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی تناسب۔
حکومت کی حکمت عملی کا مقصد:
قرضوں کو معیشت کے حجم کے مطابق رکھنا
قرض کی ری فنانسنگ اور رول اوور کے خطرات کم کرنا
سود کی ادائیگیوں میں بچت
مالی نظم و ضبط کو یقینی بنانا
اہم اعداد و شمار اور پیش رفت:
قرضوں میں اضافہ: مالی سال 2025 میں مجموعی قرضوں میں صرف 13 فیصد اضافہ ہوا، جو گزشتہ 5 سال کے اوسط 17 فیصد سے کم ہے۔
سود کی بچت: مالی سال 2025 میں سود کی مد میں 850 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وفاقی خسارہ: گزشتہ سال 7.7 ٹریلین روپے کے مقابلے میں رواں سال کا خسارہ 7.1 ٹریلین روپے رہا۔
معیشت کے حجم کے لحاظ سے خسارہ: 7.3 فیصد سے کم ہو کر 6.2 فیصد پر آ گیا۔
پرائمری سرپلس: مسلسل دوسرے سال 1.8 ٹریلین روپے کا تاریخی پرائمری سرپلس حاصل کیا گیا۔
قرضوں کی میچورٹی: پبلک قرضوں کی اوسط میچورٹی 4 سال سے بڑھ کر 4.5 سال جبکہ ملکی قرضوں کی میچورٹی 2.7 سے بڑھ کر 3.8 سال ہو گئی ہے۔
کرنٹ اکاؤنٹ میں بھی مثبت پیش رفت
وزارت خزانہ کے مطابق 14 سال بعد پہلی مرتبہ مالی سال 2025 میں 2 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ریکارڈ کیا گیا، جس سے بیرونی مالیاتی دباؤ میں بھی کمی آئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں اضافہ کیوں ہوا؟
اعلامیے میں وضاحت کی گئی ہے کہ بیرونی قرضوں میں جو جزوی اضافہ ہوا، وہ نئے قرض لینے کی وجہ سے نہیں بلکہ:
روپے کی قدر میں کمی (جس سے تقریباً 800 ارب روپے کا فرق پڑا)
نان کیش سہولیات جیسے کہ آئی ایم ایف پروگرام اور سعودی آئل فنڈ کی وجہ سے ہوا، جن کے لیے حکومت کو روپے میں ادائیگیاں نہیں کرنی پڑتیں۔