اداکارہ حمیرا اصغر کی میت لاہور روانہ، بھائی نے میڈیا پر الزامات اور حقائق سے پردہ اٹھا دیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے کچھ روز قبل ملنے والی معروف اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش ضابطے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ان کے بھائی نوید اصغر کے حوالے کر دی گئی، جو دیگر اہلخانہ کے ہمراہ لاہور سے کراچی پہنچے تھے۔ میت کو لاہور منتقل کر دیا گیا ہے کراچی آمد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حمیرا کے بھائی نوید اصغر نے ان سوالات کے جواب دیے جو سوشل میڈیا اور مختلف حلقوں میں گردش کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حمیرا کا ایک سال سے اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں تھا، اس کے موبائل فونز بند تھے، اور جب والدہ نے رابطے کی کوشش کی تو بھی کوئی کامیابی نہیں ملی۔ نوید اصغر کے مطابق انہوں نے حمیرا کی چند دوستوں سے بھی رابطہ کیا مگر کوئی سراغ نہ ملا نوید نے بتایا کہ والدہ کو بھی علم نہیں تھا کہ حمیرا کراچی میں کہاں رہ رہی تھی، وہ اکثر پوچھتی تھیں مگر حمیرا مقام بتانے سے گریز کرتی تھی۔ جب اہل خانہ کو اس کی موت کی اطلاع ملی تو سب صدمے میں چلے گئے، کیونکہ کچھ دن پہلے ہی ایک قریبی عزیزہ ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوئی تھیں میڈیا میں والد کی جانب سے لاش وصول نہ کرنے کی خبروں کو رد کرتے ہوئے نوید اصغر نے کہا کہ جب والدہ کو معلوم ہوا کہ لاش کی حالت خراب ہے تو انہوں نے غم کی شدت میں کہا کہ وہ میت نہیں دیکھ سکتیں۔ اسی دکھ بھرے لمحے میں والد کی جانب سے جو الفاظ کہے گئے، میڈیا نے انہیں توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ نوید نے واضح کیا کہ وہ اپنے والد کی اجازت سے میت لینے کراچی آئے ہیں اداکارہ کے بھائی نے کہا کہ حمیرا خود مختار تھی اور اپنی مرضی سے کراچی میں رہ رہی تھی۔ رپورٹ آنے کے بعد ہی ایف آئی آر اور قانونی کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ تین روز سے وہ چھیپا انتظامیہ اور پولیس سے مسلسل رابطے میں تھے اور قانونی تقاضے مکمل ہونے کے بعد ہی لاش وصول کی گئینوید اصغر نے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا کسی صحافی نے حمیرا کے فلیٹ مالک یا اردگرد کے افراد سے بات کی؟ میڈیا کا سارا فوکس صرف ان کے خاندان پر رہا جو کہ ناانصافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، کیونکہ ایسے لمحات میں خاندان پہلے ہی غم اور صدمے میں ہوتا ہے اہلخانہ نے دعا کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ دکھ کی اس گھڑی میں ان کے جذبات کا احترام کیا جائے اور بے بنیاد خبروں سے اجتناب برتا جائے
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: نوید اصغر انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
کراچی، مجبوری نے عورت کو مرد بنا دیا، مگر غیرت نے بھیک مانگنے نہیں دی
کراچی:سرجانی ٹاؤن کی رہائشی رانی بی بی اپنے معذور بھائی اور بیوہ بہن کے بچوں کی کفالت کے لیے مردوں کی طرح سائیکل رکشہ چلاتی ہیں۔ بال کٹوا کر مردانہ لباس پہننے والی یہ باہمت خاتون روزی حلال کے لیے دن رات محنت کر رہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی کی ایک خاتون نے خاندان کی کفالت کے لیے مردانہ حلیہ اختیار کرلیا۔اس حوالے سے لیاقت آباد نمبر دس پر سائیکل لوڈنگ رکشہ چلانے والی خاتون رانی بی بی ( فرضی نام ) نے بتایا کہ وہ خدا کی بستی سرجانی ٹاوٴن میں رہتی ہیں۔
ان کے گھر میں معذور بھائی ۔بیوہ بہن اس کے دو بچے اور وہ خود ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کرائے کے مکان میں رہتی ہیں۔روزانہ اپنے معذور بھائی کے ساتھ سائیکل رکشہ چلاکر دو گھنٹے میں سرجانی سے لیاقت آباد نمبر دس پہنچتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں کمانے والی وہ خود ہیں۔پڑھی لکھی نہیں ہیں۔ کوئی ہنر بھی نہیں جانتی ہیں۔اس لیے کچھ پیسے جمع کرکے سائیکل لوڈنگ رکشہ خریدا ہے۔یہ رکشہ 10 ہزار روپے سے زائد میں خریدا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ لیاقت آباد نمبر دس بھائی کے ساتھ آکر کھڑی ہوجاتی ہوں ۔یہاں سے مارکیٹ قریب ہے۔اس لیے سامان کی ترسیل سائیکل لوڈنگ رکشہ پر کرتی ہیں۔اگر سامان کم ہوتا ہے تو سائیکل لوڈنگ رکشہ کو چلاتی ہوں ۔
اگر سامان کا وزن زیادہ ہوتا ہے تو سائیکل لوڈنگ رکشہ کو کھینچ کر لیکر جاتی ہوں۔کھبی دن میں دو یا اس سے زائد مزدوری مل جاتی یے۔کھبی 800 یا اس سے زائد کمالیتی ہوں ۔کھبی ایک وقت کھاتے ہیں ۔کھبی دو وقت کھانا مل جاتا یے ۔کھبی بھوکا بھی سوتے ہیں۔
ان سے سوال کیا گیا کہ آپ تو عورت ہیں آپ نے مردانہ حلیہ کیوں اختیار کیا ہے؟ ۔انہوں نے کہا کہ ایک عورت کے لیے سائیکل لوڈنگ رکشہ چلانا مشکل ہے۔اس معاشرے میں عورت کے پاس ہنر نہ ہو تومزدوری کرنا مشکل ہوتا ہے ۔
اس لیے میں نے مجبوری میں مردانہ حلیہ اختیار کیا ۔مردانہ طریقے سے بال کٹوائے اور بھائی کے شلوار قیمض پہنتی ہوں۔کم بولتی ہوں تاکہ لوگ مجھے مرد ہی سمجھیں۔انہوں نے کہا کہ پہلے بھائی سائیکل لودنگ رکشہ چلاتا تھا لیکن ایک حادثہ کے سبب اس کی ٹانگ میں چوٹ آئی اور وہ معذور ہوگیا ہے۔اس لیے وہ سائیکل لوڈنگ رکشہ نہیں چلاسکتا یے۔
اب وہ میرے ساتھ آتا ہے اور میں سائیکل لوڈنگ رکشہ چلاتی ہوں ۔انہوں نے کہا بھیک مانگنے سے بہتر محنت میں عظمت یے۔کوئی عورت شوق سے مرد نہیں بنتی ۔معاشرتی مسائل اور بھوک حلیہ تبدیل کرادیتی یے۔
میں عورت ہوں اگر مردانہ لباس پہن کر اور حلیہ بدل کر کام کررہی ہوں تو رزق حلال میں ہی برکت یے۔میں کسی سے مانگتی نہیں ہوں اور مدد کی اپیل نہیں کرتی ۔میرے حق میں دعا کرہں کہ میں محنت سے روزی کماؤں ۔
بے آسرا عورتوں کو پیغام یے کہ مجبوری کے حالات میں غلط سمت جانے اور مدد کے بجائے محنت کی سمت پر نکل جائیں روزی بھی ملے گی اور مشکل بھی آسان ہوگی۔